جب پرتگالیوں نے ہندوستان کی تاریخ پلٹ کر رکھ دی


آٹھ جولائی، 1497، ہفتے کا دن، وہ دن جس کا انتخاب پرتگال کے شاہی نجومیوں نے بڑی احتیاط سے کیا ہے۔ دارالحکومت لزبن کی گلیوں میں جشن کا سا سماں ہے، لوگ جلوس کی شکل میں ساحل کا رخ کر رہے ہیں جہاں چار نئے نکور جہاز ایک لمبے سفر کا آغاز کرنے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔ شہر کے تمام سرکردہ پادری بھی زرق برق لباس پہنے آشیرواد دینے پہنچ گئے ہیں اور ہم آہنگ ہو کر مناجاتیں گا رہے ہیں اور ہجوم ان کی آواز سے آواز ملا رہا ہے۔

بادشاہ دوم مینوئل اس مہم میں ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں اور انھوں نے اس کی کامیابی کے لیے خزانے کے منھ کھول دیے ہیں۔ واسکو دے گاما کی قیادت میں چاروں جہاز طویل بحری سفر کے لیے درکار جدید ترین آلات اور زمینی و آسمانی نقشوں سے لیس ہیں، ساتھ ہی ساتھ ان پر اس دور کی جدید ترین توپیں بھی نصب ہیں۔ جہاز کے عملے کے 170 کے قریب جوؤں نے بغیر آستینوں والی قمیصیں پہن رکھی ہیں، ان کے ہاتھوں میں جلتی ہوئی موم بتیاں ہیں اور وہ ایک فوجی دستے کی طرح جہازوں کی طرف سست روی سے مارچ کر رہے ہیں۔

یہ لوگ اس منظر کی ایک جھلک دیکھنے اور ملاحوں کو رخصت کرنے پہنچے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں غم اور خوشی کے ملے جلے آنسو ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ برسوں پر محیط اس سفر پر جانے والوں میں سے بہت سے، یا شاید سبھی، واپس نہیں آ سکیں گے۔ اس سے بڑھ کر انھیں یہ بھی احساس ہے کہ اگر سفر کامیاب رہا تو یورپ کے ایک کھدرے میں واقع چھوٹا سا ملک پرتگال دنیا کی تاریخ کا ایک نیا ورق الٹنے میں کامیاب ہو جائے گا۔

تاریخ کی نئی کروٹ

یہ احساس درست ثابت ہوا۔ دس ماہ اور 12 دن بعد جب یہ بحری بیڑا جنوبی ہندوستان کے ساحل پر اترا تو اس کی بدولت یورپ کی بحری تنہائی ختم ہو گئی، دنیا کی مخالف سمتوں میں واقع مشرق و مغرب پہلی بار سمندری راستے سے ایک دوسرے سے نہ صرف جڑے بلکہ ٹکرا گئے، بحرِ اوقیانوس اور بحرِ ہند آپس میں منسلک ہو کر ایک شاہراہ بن گئے اور دنیا کی تاریخ نے ایک نئی کروٹ بدلی۔

دوسری طرف یہ کسی یورپی ملک کی جانب سے ایشیا و افریقہ میں نوآبادیات قائم کرنے کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوا، جس کے باعث درجنوں ملک صدیوں تک بدترین استحصال کی چکی میں پستے رہے جس سے نکلنے کی خاطر وہ آج بھی ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔

اس واقعے نے برصغیر کی تاریخ کو بھی یوں جھنجھوڑ دیا کہ آج ہم جو زندگی گزار رہے ہیں، واسکو دے گاما کے اس سفر کے بغیر اس کا تصور بھی ممکن نہیں۔ اس تاریخ ساز سفر کی بدولت برصغیر بلکہ تمام ایشیا پہلی بار مکئی، آلو، ٹماٹر، سرخ مرچ اور تمباکو جیسی فصلوں سے روشناس ہوا جن کے بغیر آج کی زندگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔

پرتگالیوں نے برصغیر کی ثقافت کو کس طرح متاثر کیا؟ اس کی مثال حاصل کرنے کے لیے جب آپ بالٹی سے پانی انڈیل کر صابن سے ہاتھ دھو کر تولیے سے سکھاتے ہیں اور اپنے ورانڈے میں فیتے سے ناپ کر مستری سے ایک فالتو کمرا بنواتے ہیں اور پھر نیلام گھر جا کر اس کمرے کے لیے الماری، میز اور صوفہ خرید لاتے ہیں اور پھر چائے پرچ میں ڈال کر پیتے ہیں تو ایک ہی اردو فقرے میں پرتگالی کے 15 الفاظ استعمال کر چکے ہوتے ہیں۔

ہندوستان میں غیر معمولی دلچسپی

یہ پرتگال کی ہندوستان تک پہنچنے کی پہلی کوشش نہیں تھی۔ مغربی یورپ کا یہ چھوٹا سا ملک کئی عشروں سے افریقہ کے مغربی ساحل کی نقشہ بندی کر رہا تھا، اور اس دوران سینکڑوں ملاحوں کی قربانی بھی دے چکا تھا۔

آخر یورپی پرتگال کو ہندوستان میں اس قدر دلچسپی کیوں تھی کہ وہ اس پر اس قدر وسائل جھونکنے کے لیے آمادہ ہو گیا؟

ابھی کچھ ہی عشرے قبل 1453 میں عثمانی سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ پر قبضہ کر کے یورپ کی بنیادیں ہلا دی تھیں۔ اب مشرق سے تمام تر تجارت عثمانیوں یا پھر مصری مملوکوں کے ذریعے ہی ممکن تھی جو ہندوستان اور ایشیا کے دوسرے علاقوں سے درآمد ہونے والی مصنوعات، خاص طور پر مسالہ جات پر بھاری ٹیکس وصول کرتے تھے۔

دوسری طرف خود یورپ کے اندر وینس اور جینوا نے ایشیا کے ساتھ زمینی راستوں سے ہونے والی تجارت پر اجارہ داری قائم کر رکھی تھی جس سے دوسرے یورپی ملکوں، خاص طور پر سپین اور پرتگال کو بڑی پرخاش تھی۔ یہی وجہ ہے کہ واسکو دے گاما کے سفر سے پانچ سال قبل سپین نے کرسٹوفر کولمبس کی قیادت میں مغربی راستے سے ہندوستان تک پہنچنے کے لیے ایک مہم روانہ کی تھی۔

لیکن پرتگالیوں کو معلوم تھا کہ کولمبس کی منصوبہ بندی خام اور اس کی معلومات ناقص ہیں اور وہ کبھی بھی ہندوستان نہیں پہنچ پائے گا۔ واقعی کولمبس مرتے دم تک سمجھتا رہا کہ وہ ہندوستان پہنچ گیا ہے، حالانکہ وہ حادثاتی طور پر ایک نیا براعظم دریافت کر بیٹھا۔

البتہ پرتگالیوں کی اپنی تحقیقات اور گذشتہ بحری مہمات سے معلوم ہوا تھا کہ اگر بحرِ اوقیانوس میں جنوب کی طرف سفر کیا جائے تو افریقہ کے لٹکتے ہوئے دامن کے نیچے سے ہو کر بحرِ ہند تک پہنچا اور ایشیا سے تجارت میں بقیہ یورپ کا پتہ کاٹا جا سکتا ہے۔

راستے میں پیش آنے والی بے پناہ مشکلات کے بعد واسکو دے گاما یورپی تاریخ میں پہلی بار افریقہ کے جنوبی ساحل کو عبور کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ تاہم ہندوستان ابھی بھی ہزاروں میل دور تھا اور اس کا درست راستہ اختیار کرنا اندھیرے میں سوئی تلاش کرنے کے مترادف تھا۔

خوش قسمتی سے اسے کینیا کے ساحلی شہر مالیندی سے ایک گجراتی مسلمان ناخدا مل گیا جو بحرِ ہند سے یوں واقف تھا جیسے اپنی ہتھیلی کی لکیروں سے۔

واسکو دے گاما کا بحری سفر

اس واقعے کی پانچ صدیوں بعد بھی عرب کشتی ران اس ملاح کی نسلوں کو کوستے ہیں جس نے ‘فرنگیوں’ پر بحرِ ہند کے اسرار کھول کر یہاں قائم ہزاروں سال پرانا تجارتی تانا بانا درہم برہم کر دیا۔

ہندو دیوی کو بی بی مریم سمجھ لیا

اسی ناخدا کی رہنمائی میں 20 مئی سنہ 1498 کو 12 ہزار میل کے سفر اور عملے کے درجنوں افراد گنوانے کے بعد واسکو دے گاما بالآخر ہندوستان میں کالی کٹ کے ساحل تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔

اس زمانے کے یورپ کی ہندوستان سے بےخبری کا اندازہ اس سے لگائیے کہ کالی کٹ میں قیام کے دوران واسکو دے گاما ہندوؤں کو کوئی گمراہ عیسائی فرقہ سمجھتا رہا۔ پرتگالی ملاح مندروں میں جا کر ہندو دیویوں کے مجسموں کو بی بی مریم کے مجسمے اور دیوتاؤں کو عیسائی اولیا سمجھ کر ان کے سامنے جھکتے رہے۔

واسکو دے گاما

واسکو دے گاما سمندری راجہ کے دربار میں

کالی کٹ کے ‘سمندری راجہ’ کہلائے جانے والے نے اپنے محل میں واسکو کا پرتپاک استقبال کیا۔ برستی بارش میں واسکو کو چھتری لگی پالکی میں بٹھا کر بندرگاہ سے دربار تک لایا گیا۔ لیکن یہ خوشگواری اس وقت تلخی میں بدل گئی جب اس زمانے کے دستور کے مطابق واسکو نے راجہ کو جو تحائف پیش کیے (سرخ رنگ کے ہیٹ، پیتل کے برتن، چند سیر چینی اور شہد) وہ اس قدر معمولی نکلے کہ وزیرِ مہمانداری نے انھیں راجہ کو دکھانے سے انکار کر دیا۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مقامی حکام واسکو دے گاما کو کسی امیر کبیر ملک کے شاہی سفیر کی بجائے بحری قزاق سمجھنے لگے۔

لاجواب پرتگالی توپیں

سمندری راجہ نے واسکو کی جانب سے تجارتی کوٹھیاں قائم کرنے اور پرتگالی تاجروں کا ٹیکس معاف کرنے کی درخواست رد کر دی۔ حالات اس نہج تک پہنچ گئے کہ مقامی لوگوں نے ہلہ بول کر کئی پرتگالیوں کو ہلاک کر ڈالا۔

واسکو دے گاما کے غیظ و غضب کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ اس کے جہازوں میں جو توپیں نصب تھیں اس کا سمندری راجہ کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ انھوں نے کالی کٹ پر بمباری کر کے کئی عمارتیں، بشمول شاہی محل تباہ کر دیں، اور سمندری راجہ کو اندرون ملک فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔

سفارتی ناکامی اپنی جگہ، لیکن کالی کٹ میں تین ماہ کے قیام کے دوران یہاں کی منڈیوں سے واسکو کو بیش قیمت گرم مسالہ اتنی مقدار میں اور اتنے سستے داموں ہاتھ آیا کہ اس نے جہاز کے جہاز بھروا دیے۔

تمام عیسائی دنیا کے لیے مسالے

واپسی کا سفر بےحد مشکل ثابت ہوا، نصف عملہ بیماری اور ایک جہاز طوفان کا شکار ہو گیا۔ بالآخر لزبن سے روانگی کے تقریباً ٹھیک دو سال بعد دس جولائی 1499 کو 28 ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد جب پرتگالی بیڑا واپس لزبن پہنچا (واسکو دے گاما اپنے بھائی کی بیماری کے باعث ایک جزیرے پر رک گیا تھا) تو ان کا شاہانہ استقبال کیا گیا۔ یہ الگ بات کہ 170 کے عملے میں سے صرف 54 آدمی زندہ لوٹ پائے تھے۔

شاہ ڈوم مینوئل نے یہ بات یقینی بنائی کہ تمام یورپ کو اس کی کامیابی کی فوری اطلاع مل جائے۔ انھوں نے سپین کی ملکہ ازابیلا اور شاہ فرڈیننڈ کو خط لکھتے ہوئے مذہبی کارڈ کھیلنا ضروری سمجھا: ‘خدا کے کرم سے وہ تجارت جو اس علاقے کے مسلمانوں کو مالدار بناتی ہے، اب ہماری سلطنت کے جہازوں تک منتقل ہو جائے گی اور یہ مسالہ جات تمام عیسائی دنیا کو فراہم کیے جائیں گے۔’

لیکن سوال یہ تھا کہ ایک چھوٹا سا ملک ہزاروں میل دور سے وسیع پیمانے پر قائم تجارتی نیٹ ورک کیسے توڑ پانے کی امید رکھ سکتا ہے؟

پرامن تجارتی رشتے

واسکو نے کالی کٹ میں اپنے قیام کے دوران مسلمانوں کے کم از کم 15 سو جہاز گنے تھے۔ لیکن اس نے ایک دلچسپ بات بھی نوٹ کی تھی: یہ جہاز اکثر و بیشتر غیر مسلح ہوا کرتے تھے۔ بحرِ ہند میں ہونے والی تجارت بقائے باہمی کے اصولوں پر قائم تھی اور محصول اس طرح طے کیا جاتا تھا کہ دونوں اطراف کو فائدہ ہو۔

پرتگال ان اصولوں پر کام نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس کا مقصد طاقت کے ذریعے اپنی اجارہ داری قائم کر کے تمام دوسرے فریقوں کو اپنی شرائط پر مغلوب بنانا تھا۔

جلد ہی اس منصوبے کے خد و خال واضح ہو گئے۔ واسکو دے گاما کی آمد کے چھ ماہ کے اندر اندر جب پیدرو الواریس کبرال کی قیادت میں دوسرا پرتگالی بیڑا ہندوستان کی سمت روانہ ہوا تو اس میں 13 جہاز شامل تھے اور اس کی تیاری تجارتی مہم سے زیادہ جنگی کارروائی کی تھی۔

’ہر ممکن فائدہ‘

کبرال کو پرتگالی بادشاہ نے جو تحریری ہدایت نامہ دیا اس سے عزائم واضح ہو جاتے ہیں:

‘تمھیں سمندر میں مکہ کے مسلمانوں کا جو بھی جہاز ملے اس پر ہر ممکن کوشش کر کے قبضہ کرو، اور اس پر لدے مالِ تجارت اور سامان اور جہاز پر موجود مسلمانوں کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرو، ان سے جنگ کرو اور جتنا تم سے ہو سکے، انھیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرو۔’

ان ہدایات کی روشنی میں مسلح بیڑے نے کالی کٹ پہنچ کر مسلمان تاجروں کے جہازوں پر حملہ کر کے سامانِ تجارت پر قبضہ کر لیا اور جہازوں کو مسافروں اور عملے سمیت آگ لگا دی۔

اسی پر اکتفا نہ کرتے ہوئے کبرال نے کالی کٹ پر دو دن تک بمباری کر کے شہریوں کو گھر بار چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ کوچین اور کنور کی بندرگاہوں پر اترا تو وہاں کے راجاؤں تک افسانے پہلے ہی سے پہنچ چکے تھے، اس لیے انھوں نے پرتگالیوں کو ان کی شرائط پر تجارتی مراکز قائم کرنے کی ‘اجازت’ دے دی۔

کبرال کے مسالہ جات سے لدے جہاز جب واپس پرتگال پہنچے تو جتنے شادیانے لزبن میں بجائے گئے، اس سے زیادہ ماتم وینس میں دیکھنے میں آیا۔ ایک تاریخ دان لکھتا ہے: ‘یہ وینس کے لیے بری خبر ہے۔ وینس کے تاجر صحیح معنوں میں مشکل میں گِھر گئے ہیں۔’

گن بوٹ تجارت

یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔ جب 1502 میں وینس کے جہاز مملوک اسکندریہ کی بندرگاہ پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہاں مسالہ نہ ہونے کے برابر ہے اور جو ہے بھی، اس کی قیمتیں آسمان تک پہنچ چکی ہیں۔

اگلی بار جب واسکو دے گاما نے ہندوستان کا سفر اختیار کیا تو اس کے تیور کچھ اور تھے۔ اس نے افریقہ کے مشرقی ساحلی شہروں کو بلاوجہ اور بلاامتیاز بمباری کا نشانہ بنایا اور خراج وصول کیے بغیر اور یہ وعدہ لیے بغیر کہ وہ آئندہ مسلمان تاجروں سے تجارت نہیں کریں گے، وہاں سے نہیں ٹلا۔

‘گن بوٹ ڈپلومیسی’ بلکہ گن بوٹ تجارت کی اس سے عمدہ مثال ملنا مشکل ہے۔

ہندوستان کے سفر کے دوران جو جہاز اس کے راستے میں آیا، وہ لوٹ کر ڈبو دیا گیا۔ اسی دوران حاجیوں کا ایک ‘مِیری’ نامی جہاز اس کے ہاتھ لگ گیا جس پر چار سو مسافر سوار تھے جو کالی کٹ سے مکہ جا رہے تھے۔

واسکو نے مسافروں کو باندھ کر جہاز کو آگ لگا دی۔ عینی شاہدین کے مطابق جلتے ہوئے جہاز کے عرشے پر عورتیں اپنے بچے ہاتھوں میں اٹھا کر رحم کی بھیک مانگتی رہیں اور واسکو اپنے جہاز سے تماشا دیکھتا رہا۔ مالابار کے ساحلوں پر آج بھی ’میری‘ کی تباہی کے نوحے پڑھے جاتے ہیں۔

اس کا واضح مقصد پورے خطے میں پرتگالی دہشت پھیلانا تھا۔

واسکو اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب رہا۔ یہ خبریں بحری راستوں پر سفر کرتے ہوئے بحرِ ہند کے طول و عرض میں پہنچ گئیں۔ ہندوستان کے ساحلی شہروں کے پاس برتر پرتگالی توپوں کے علاوہ ان کی جارحانہ ذہنیت کا کوئی جواب نہیں تھا۔ ان کے پاس اب تجارتی کنجیاں واسکو کے حوالے کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔

یہ اندھا دھند جارحیت مغربی استعمار کے اطلاق کی عملی مثال تھی۔ مقامی راجاؤں کے لیے یہ بات ناقابلِ یقین تھی کہ کوئی کسی کو سمندر میں سفر کرنے سے کیسے روک سکتا ہے؟

بحری قزاقی

ایشیا میں واسکو کے یہ اقدامات تجارت کی بجائے بحری قزاقی سمجھے گئے لیکن یورپ میں یہ روزمرہ کا معمول تھا۔ پرتگالی دوسرے یورپی ملکوں سے سرتوڑ مسابقت، تجارت میں فوجی طاقت کے عمل دخل اور فوجی طاقت میں جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال کے عادی تھے۔

یہ تمام بحرِ ہند پر پرتگالی اجارہ داری کا آغاز تھا۔ مقامی راجاؤں نے مقدور بھر مزاحمت کی کوشش کی، لیکن ہر مڈبھیڑ میں انھیں ہار کا منھ دیکھنا پڑا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آنے والی ڈیڑھ صدیوں میں پرتگالیوں نے کنّور، کوچین، گوا، مدراس اور کالی کٹ کے علاوہ کئی دوسرے ساحلی علاقوں میں سمندر پار مقبوضہ حکومت قائم کر لی اور وہاں اپنے وائسرائے اور گورنر مقرر کرنے لگے۔

دوسرے یورپی ملک یہ تمام کھیل بڑی دلچسپی سے دیکھ رہے تھے اور یہی عمل بعد میں ولندیزیوں، فرانسیسیوں اور بالآخر انگریزوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت میں دہرایا اور پرتگالیوں کو انھی کے کھیل میں شکست دے کر نہ صرف ہندوستان بلکہ پورے بحرِ ہند پر قبضہ جما لیا۔ صرف گوا، دمن اور دیو کے علاقے برصغیر کی آزادی تک پرتگالیوں کے پاس رہے۔ آخر دسمبر سنہ 1961 میں انڈیا نے فوجیں بھیج کر یہ تینوں علاقے پرتگالیوں سے چھین لیے۔

تجارتی نیٹ ورک

لیکن اس سے قبل کی ڈیڑھ صدیوں تک پرتگالی ہندوستان سے گرم مسالہ، ادرک، الائچی، لونگ اور کپڑا، ملایا سے دارچینی، چین سے ریشم اور برتن یورپ لے جاتے اور وہاں سے اس کے ساتھ ہی وہ یورپی شراب، اون، سونا اور دوسری مصنوعات ایشیا کے مختلف علاقوں میں فروخت کرنے لگے۔ یہی نہیں، بلکہ وہ ایشیا اور افریقہ کے مختلف حصوں کے درمیان تجارتی سرگرمیوں پر بھی قابض ہو گئے اور دوسرے تمام تاجروں سے بھاری محصول وصول کرنے لگے۔

اسی دوران براعظم امریکہ دریافت ہو چکا تھا اور وہاں سپین کے علاوہ خود پرتگال اور دوسرے یورپی ملکوں نے نوآبادیاں قائم کرنا شروع کر دی تھیں۔

پرتگالیوں نے اس نئی دنیا سے مکئی، آلو، تمباکو، ٹماٹر، انناس، کاجو اور سرخ مرچ لا کر ہندوستان اور ایشیا کے دوسرے حصوں میں متعارف کروائیں۔ آج بہت سے لوگوں کو سرخ مرچ ہندوستانی کھانوں کا لازمی جزو معلوم ہوتی ہے، لیکن پرتگالیوں سے پہلے یہاں کے لوگ اس سے واقف نہ تھے۔

مشترکہ زبان

لیکن پرتگالیوں کے ہندوستان کے ساتھ تعلقات صرف فوجی اور تجارتی نہ رہے، بلکہ تہذیب و تمدن کے دوسرے شعبے بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

پرتگالی زبان کئی صدیوں تک بحرِ ہند کی بندرگاہوں کی مشترکہ زبان رہی۔ یہاں تک کہ ولندیزیوں، فرانسیسیوں اور انگریزوں تک ہندوستان آنے کے بعد مقامی لوگوں سے بات چیت کرنے کے لیے اول اول پرتگالی سیکھنا پڑی۔

حتیٰ کہ سراج الدولہ کو شکست دینے والا لارڈ کلائیو بھی مقامی ہندوستانیوں کے ساتھ پرتگالی ہی میں بات چیت کیا کرتا تھا۔ اس زبان کا اثر مقامی زبانوں پر بھی پڑا، چنانچہ برصغیر کی 50 سے زائد زبانوں میں پرتگالی کے الفاظ پائے جاتے ہیں۔

مغل تصویر

یورپی انداز سے متاثر ہو کر 1590 میں اکبر کے دور میں بنائی گئی ایک تصویر

ہم نے اوپر اردو زبان میں مستعمل پرتگالی الفاظ کا ذکر کیا تھا۔ ایسے ہی کچھ اور الفاظ میں چابی، پادری، گرجا، انگریز، انگریزی، پیپا، باسن، گودام، استری، کاج، پرات، بھتہ، پگار (تنخواہ)، الفانسو (آم)، پپایا، تمباکو، مارتوڑ، بمبا، مستول وغیرہ شامل ہیں۔

مغلوں کو سمندر سے دلچسپی نہیں تھی

1526 میں بابر نے جب ہندوستان میں مغل سلطنت کی داغ بیل ڈالی، اس وقت تک پرتگالی تمام ساحلی علاقوں پر قدم جما چکے تھے۔ تاہم مغل خشکی سے گھرے وسطی ایشیا سے آئے تھے اور انھوں نے سمندر کا منھ تک نہیں دیکھا تھا، اس لیے انھوں نے سمندری معاملات کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ پرتگالیوں نے مغلوں سے سفارتی تعلقات قائم کر لیے اور اکبر، جہانگیر اور شاہجہان کو تحفے تحائف بھیجتے رہے۔

خاص طور پر یورپی پینٹنگز نے مغلوں کو متاثر کیا اور ان کا اثر مغلیہ تصاویر پر نظر آتا ہے۔

برصغیر کو پرتگالیوں کی ایک اور دین کے بغیر یہ تحریر نامکمل رہے گی۔ ہم سب بالی وڈ کے سنہرے دور کی موسیقی کے مداح ہیں۔ اس موسیقی کی ترویج میں گوا سے آنے والے پرتگالی نژاد موسیقاروں کا بڑا حصہ ہے جنھوں نے ہندوستانی میوزک ڈائریکٹرز کو میوزک ارینجمنٹ اور آرکسٹرا کا استعمال سکھایا۔

آج بھی اگر آپ شنکر جے کشن، ایس ڈی برمن، سی رام چندر، او پی نیئر، اور لکشمی کانت پیارے لال جیسے موسیقاروں کی فلمیں دیکھیں تو ‘میوزک ارینجرز’ کے ٹائٹل تلے آپ کو گونسالوس، فرنانڈو، ڈی سوزا، ڈی سلوا جیسے کئی پرتگالی نام نظر آئیں گے جو ایک گزرے ہوئے عہد کی داستان سناتے ہیں۔

.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp