لندن فلیٹس تماشائیوں پر کھول دیئے جائیں


احتساب عدالت کی جانب سے نواز شریف کے خلاف فیصلہ سنائے جانے میں ”تاخیر پہ تاخیر“ اعصاب شکن تھی۔ جو حکم ہمیں جمعے کی نماز سے قبل سنانے کا وعدہ تھا بوقتِ عصر منظر عام پر آیا اور عصر ہی وہ وقت ہے جس کی قسم کھاتے ہوئے رب ذوالجلال نے کہہ رکھا ہے کہ ”بے شک انسان خسارے میں ہے“۔

نیب کے پراسیکیوٹر کے لئے مگر یہ فخر و انبساط کا لمحہ تھا۔ آنکھوں پر دھوپ سے بچانے والی فیشنی عینک چڑھائے وہ انگریزی محاورے کے مطابق Dressed for the Occasion تھے۔ ٹی وی چینل کے کیمرے ان پر فوکس کرنے کو مجبور تھے۔ کیونکہ فیصلہ کھلی عدالت میں نہیں بلکہ بند کمرے میں فریقین کے وکلا کے رو برو سنایا گیا تھا۔اس فیصلے کی تفصیلات نواز شریف کے وکلا سنانے کی تاب نہیں لاسکتے تھے۔ سر جھکا کر پتلی گلی سے نکل لئے تھے۔

یہ دن احتساب والوں کا دن تھا اور اس محکمے کے پراسیکیوٹر بارہا اس امرپر مسرت کا اظہار کرتے رہے کہ جج محمد بشیر نے لندن کے ایون فیلڈ فلیٹس کو اب حکومتِ پاکستان کی ملکیت قرار دیا ہے۔ قرقی کے حکم کے ذریعے ان پر قبضے کے بعد حکومتِ پاکستان ان فلیٹس کو نیلامی کے ذریعے بیچنے کا اعلان کرے گی۔ فلیٹس کی فروخت سے جمع ہوئی خطیر رقوم قومی خزانے میں آئیں گی۔ شاید ان رقوم سے بجلی پیدا کرنے والوں کا کئی برسوں سے جمع ہوا سرکلر ڈیٹ یک مشت ادا کردیا جائے گا۔ لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے ہمیشہ کے لئے نجات مل جائے گی۔

میرے دل میں لیکن نجانے کیوں یہ خواہش پھڑپھڑائی کہ ایون فیلڈ فلیٹس کو اپنے قبضے میں لینے کے بعد حکومتِ پاکستان ان کی نیلامی میں جلدی نہ دکھائے۔ ان فلیٹس کو کچھ عرصے کے لئے نمونہ عبرت کی صورت دے کر تماشائیوں کے لئے کھول دیا جائے۔ برطانیہ اور یورپ میں ہزاروں پاکستانی آباد ہیں۔ وہ نسبتاََ مہنگی ٹکٹ لے کر بھی ان فلیٹس کو دیکھنا چاہیں گے تا کہ شریف خاندان کے ”شاہانہ انداز“ کا اپنی نظروں سے جائزہ لے سکیں۔

اس خاندان کو ”لکھ سے ککھ“ بنانے کا سیاسی طورپر کریڈٹ عمران خان اور ان کے سیاسی گرو یعنی راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر کو دیا جائے گا۔ ان کی جہدِ مسلسل کی وجہ سے تحریک انصاف جولائی 25 کے دن ہونے والے انتخابات کو Sweep کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد عمران خان صاحب ان فلیٹس کو کچھ عرصے کے لئے نمائش کے لئے کھولنے کا اعلان کرتے ہوئے کئی دنوں تک اپنی حکومت کے بارے میں Feel Good Factor پیدا کر کے اسے برقرار رکھ سکتے ہیں۔

مجھے یاد آیا کہ 1996میں ایک بار فلپائن گیا تھا۔ منیلا میں سابق صدر مارکوس کی سرکاری رہائش گاہ عام افراد کے لئے کھول دی گئی تھی۔ اس کی بیوی کا کمرہ اس ضمن میں خاص توجہ کا مرکز تھا۔ خاص کر جوتوں کی الماریاں جو ہزاروں قیمتی جوڑوں سے بھری ہوئی تھیں۔ پتہ نہیں امیلڈا مارکوس کو قیمتی جوتے خریدنے کا خبط کیوں لاحق تھا۔ کوئی نفسیات دان ہی اس کی وضاحت کر سکتا ہے۔

ایون فیلڈ فلیٹس کی ”قرقی“ والا حکم سن کر لیکن میرے خبطی ذہن میں تھوڑی دیر کو جو خوش کن خیالات آئے تھوڑی ہی دیر میں پھس ہوگئے۔ اچانک یاد آگیا کہ ایون فیلڈ فلیٹس پر قبضے کے لئے ہماری احتساب عدالت کا حکم ہی کافی نہیں۔ حکومتِ پاکستان کو ان فلیٹس کی چابی لینے کے لئے برطانیہ کی عدالتوں سے بھی رجوع کرنا پڑے گا اور حسن اور حسین نواز شریف اتنے بھی بے وقوف نہیں کہ اپنے دفاع کے لئے تگڑے وکلا کا بندوبست نہ کرسکیں۔

1997سے سوئس بینکوں کے حوالے سے محترمہ بے نظیر بھٹو کے ایک نیکلس کا بھی بہت ذکر رہا تھا۔ اس نیکلس کے حصول کے لئے طویل قانونی جنگ لڑی گئی تھی۔ اس نیکلس کے ساتھ مبینہ طورپر آصف علی زرداری نے غالباََ 60 ملین ڈالرز بھی سوئس بینکوں میں جمع کروا رکھے تھے۔ جسٹس افتخار چودھری نے ہمیں باور کروایا کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی فقط سوئس حکومت کو ایک سرکاری چٹھی لکھ دیں تو مذکورہ نیکلس ڈالروں سمیت قومی خزانے میں آ جائے گا۔ گیلانی صاحب نے وہ چٹھی لکھنے سے انکار کر دیا۔ توہینِ عدالت کے جرم میں فارغ ہوئے۔ ان کے بعد آئے راجہ پرویز اشرف نے بالآخر وہ خط بھی لکھ دیا۔ نیکلس اور ڈالر مگر ابھی تک قومی خزانے میں نہیں آئے۔ اب تو ان کا ذکر بھی شاذ ہی سننے کو ملتا ہے۔ رات گئی بات گئی والا معاملہ ہو چکا ہے۔

برطانیہ کے ایک کھوجی صحافی Owen Jones نے ایک زمانے میں کراچی کی مالک سمجھی جماعت کے ”بانی“ کے بارے میں Money Laundering کا بہت ذکر کیا تھا۔ عمران فاروق کے لندن میں قتل ہو جانے کے بعد منی لانڈرنگ والی یہ کہانی مزید ڈرامائی ہوگئی تھی۔ ”بانی“ مگر اب بھی لندن میں خیر و عافیت سے رہ رہا ہے۔ اس کے جلال بھرے خطاب سے اگرچہ ہمیں نجات مل چکی ہے۔ برطانیہ کا ”مثالی“ ٹھہرایا نظامِ انصاف لیکن ابھی تک اس کا کچھ بگاڑ نہیں پایا ہے۔

نیب کے پراسیکیوٹر نے جمعے کے روز آئے فیصلہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے مگر ہمارے لئے امید کا ایک اور دروازہ کھول دیا ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھے بغیر کہ احتساب عدالت کے جج کا ایون فیلڈ کے بارے میں فیصلہ ہماری حکومت کے لئے ایون فیلڈ فلیٹس کی ملکیت حاصل کرنے کے لئے کافی نہیں۔ اس فیصلے کو برطانوی عدالتوں کے رو برو بھی برحق ثابت کرنا ہوگا اور اس کام میں لگتی ہے محنت زیادہ۔ اگر چہ مذکورہ فیصلے پر عمل درآمد کے نام پر کئی وکلا کی لاٹری نکل آئے گی۔ NAB کے چند افسران لندن کے دورے کریں گے۔ TA/DA حاصل کریں گے۔ اپنے بچوں کے لئے Harrods میں شاپنگ کریں گے۔ رونق لگی رہے گی۔

میں امید ہی کرسکتا ہوں کہ عمران خان صاحب کی حکومت ان وکلا اور افسروں کے جھانسے میں نہیں آئے گی۔ ویسے بھی وہاں ایک قانون حال ہی میں متعارف ہوا ہے۔ UWO کے نام سے مشہور ہوا ہے۔ Unexplained Wealth Order اس کا پورا نام ہے۔ اس قانون کے تحت پاکستانی احتساب عدالت کی جانب سے جمعے کے روز آئے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے شریف خاندان سے ایون فیلڈفلیٹس کی ملکیت کے بارے میں سوالات یقینا پوچھے جاسکتے ہیں۔ بری خبر مگر یہ ہے کہ وہ ان سوالات کے تشفی بخش جوابات نہ دے پائے تو ان فلیٹس کی ممکنہ نیلامی سے حاصل شدہ رقوم پاکستان نہیں آئیں گی۔ انہیں برطانوی خزانے میں جانا ہوگا۔ عمران خان کی جہدِ مسلسل اور ہماری JIT والوں کی محنت کا ثمر برطانوی حکومت کو ملے گا۔ ہم فقط کھلونے دے کر بہلائے ہوئے نظر آئیں گے۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).