کیا نواز شریف کی سزا پر لہور بھی خوش تھا؟


اس وقت جب 25 جولائی کو جنرل الیکشن ہونے جارہے ہیں، پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک بڑا فیصلہ یوں آیاہے کہ احتساب عدالت اسلام آباد نے ایوان فلیڈ ریفرنس میں نوازلیگی قائد نوازشریف کو مجموعی طورپر 11 سال قید بامشقت، آٹھ ملین پاونڈ جرمانہ اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو مجموعی طورپر 8 سال قید بامشقت اور دوملین پاونڈ جرمانہ جبکہ ان کے داماد کپیٹن (ر) صفدر کو جعلی ڈیڈ میں گواہی دینے کے جرم میں ایک سال کی سزا سنائی ہے۔

اسی طرح لندن میں نوازشریف کے فلیٹس بحق سرکار ضبط کرنے، نوازشریف، اس کیبیٹی اور داما د کو آئندہ دس سال کے لئے نا اہل قراردے دیا ہے۔ نوازشریف فیصلہ کے وقت عدالت میں موجود نہیں تھے بلکہ اپنی بیگم کلثوم نوازشریف کے پاس لندن میں تھے، ان کے سیاسی مخالفین ان کی اس بیگم کارروائی کو ڈھونگ قراردیتے ہیں لیکن وہ اس بات پر ضد کرتے ہیں کہ وہ ہسپتال میں لیٹی بیگم کلثوم نوازشریف کو چھوڑ کر پاکستان کس طرح جاسکتے ہیں؟ اب ان کی بیگم صاحبہ کو مشکل وقت میں ضرورت ہے۔

نوازشریف کی اس بات میں وزن تو تھا، لوگ اس طرف مائل ہورہے تھے لیکن پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے نوازشریف کی بات کو مذاق قراردیتے ہوئے کہا کہ جب بیگم کلثوم نوازشریف بیماری کے باوجود بات چیت کررہی تھیں اور اپنے ہوش حواس میں تھیں اسوقت نوازشریف پاکستان میں اس بات پر ڈرامہ کررہے تھے کہ ”مجھے کیوں نکالا“ووٹ کو عزت دو، وغیر ہ وغیرہ۔ مطلب میاں صاحب کو فکر نہیں تھی کہ بیگم کلثوم نواز دیار غیر میں ہسپتال میں پڑی ہیں اور ان کو اسوقت اپنوں خاص طورپر شوہر اور بیٹی کی تیمارداری ضرورت ہے لیکن وہ اقتدار کو بیگم کی بیماری پر ترجیج دے رہے تھے۔

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے سیاسی مقاصد ہوسکتے ہیں لیکن سچ تو یہ بھی ہے کہ نوازشریف بڑی دیر سے بیگم کلثوم نوازشریف کو ہسپتال میں چھوڑ کر پاکستان میں موجود تھے اور اپنی کارروائیوں میں مصروف تھے۔ ادھر جب فیصلہ آنے کا وقت قریب آیا تو نوازشریف کو بیگم صاحبہ کی یادآگئی اور بیٹی کو ساتھ لے کر لندن چلے گئے۔ ادھر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا کہ جمعہ کو سنایاجائے گا لیکن نوازشریف نے واپسی موخر کردی مطلب عدالتوں اور پورے نظام کو گولی کروا دی۔ لیگی قائد اور قیدی نوازشریف اس بات کو تسلیم کریں یا پھر اپنی ضد پر ڈٹ جائیں لیکن احتساب عدالت کے فیصلہ کے بعد وہ بند گلی میں پہنچ گئے ہیں۔ وہ اپنی کارروائیوں کی بدولت خود بھی ڈوبے ہی تھے لیکن اپنے بچوں کو بھی اس قابل نہیں چھوڑ اکہ وہ ان کی سیاسی وراثت کو سنبھال کر ان کے ایجنڈے ”ووٹ کو عزت دو“ کو لے کر آگے بڑھتے۔

موصوف کے دونوں بیٹے حسن اور حسین نوازشریف تو پہلے ہی اشتہاری تھے جبکہ بیٹی مریم نوازشریف اور داماد کپیٹن (ر)صفدر قیدی کے ساتھ نا اہل قراردیے گئے ہیں۔ ادھر بڑی آفت یوں بھی نوازشریف پر آن پڑی ہے کہ لندن فیلٹس بھی بحق سرکار ضبط کا حکم عدالت کی طرف سے فیصلہ میں دیا جا چکا ہے۔ جن فلیٹس کے لئے موصوف نے سب کچھ داؤ پر لگادیا مطلب اپنے سیاسی مستقبل کے علاوہ بچوں کو اس دھندے میں جھونک دیا وہ بھی ہاتھ نکل گئے ہیں۔

احتساب عدالت اسلام آباد کے فیصلہ کے دن میں بھی نوازشریف صاحب کی طرح اسلام آباد میں نہیں تھا بلکہ لہور میں تھا۔ ہمارے صحافی دوست طاہر مہر، ورد سلیم اس بات پر حیرت زدہ تھیں کہ لہور لیگی قائد نوازشریف، مریم نوازشریف اور کپٹین صفدر کی سزا پر کوئی بندہ بھی احتجا ج کے لئے باھر نہیں نکلا تھا بلکہ یوں لگ رہا تھا کہ وہ اس فیصلہ پر خوش ہی نہیں بلکہ بہت خوش ہیں۔ ان کا تبصرہ تھا کہ بڑی دیر بعد عدالتوں کی طرف سے کسی بڑے کے خلاف فیصلہ آیا ہے۔ اس طرح فیصلہ عدالتوں کی طرف سے آئینگے تو تبدیلی آئے گی اور ملک آگے بڑھے گا۔

راقم الحروف کی لہور میں ایک رکشہ ڈرائیور سے بات ہوئی تو اس کا کمال تبصرہ تھا کہ شریف برادران نے لہور کی ترقی کا ڈرامہ کیا ہے جبکہ حقیقت میں انہوں نے ان ترقیاتی منصوبوں کی آڑ میں قوم کا پیسہ کھایا ہی نہین لوٹا ہے۔ اور سارا مال باہر لے گئے ہیں۔ اس کی بات تسلیم کرنے کے علاوہ میرے پاس کوئی چارہ یوں نہیں تھا کہ اگر لہور یاپھر پنجاب کے عوام ان کی کارکردگی سے خوش ہوتے تو نوازشریف اور اس کی صاحبزادی سزا کیخلاف کوئی بڑا احتجاج تو کرتے جس سے دنیا کو پیغام تو جاتاکہ قیدی نوازشریف کے متوالے میدان میں آگئے ہیں۔

راقم الحروف کو لہور کے رکشہ ڈرائیور نے اپنی خوبصورت ماں بولی پنجابی میں ایک واقعہ سنایا جوکہ کچھ یوں تھا کہ ایک صاحب حیثیت بندہ تھا جوکہ چوری چکاری کے علاوہ دوسرے کے مال پر ہاتھ صاف کرتا تھا۔ اس کی بیوی اس کو سمجھاتی تھی کہ اس طرح نہ کیا کرو۔ تہماری انہی حرکتوں کی وجہ سے معاملہ خراب ہوجائے گا۔ چور اچکے بدمعاش کی بیوی نے اس کی بڑھتی ہوئی واردتوں کو دیکھ کر اس کے شریف دوستوں کو بھی کہا کہ اس کو سمجھاؤ بڑی واردتیں ڈال رہا ہے، کہیں پکڑا گیا تو ساری عزت ہی جاتی رہے گی اور خاص طورپر ہمارے بچے ہیں، لوگ ان کو طعنے ماریں گے، ان کے مستقبل کا کیا بنے گا؟

دوستوں نے بھی اس کو سمجھایا کہ اس کام کو چھوڑ دو، ایویں خواہ مخواہ اپنے لیے مصبیت کیوں ڈھونڈ رہے ہو؟ ا پنے مال پر گزار کرو، اللہ کا دیا بہت کچھ ہے، تم سے ختم ہونے والا نہیں ہے۔ بیوی سمیت سب کی نصحیتوں کے باوجود موصوف نہ بدلنے والے تھے اور نہ ہی بدلے تھے۔ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ واردات کے دوران میاں صاحب کو لوگوں نے رنگے ہاتھوں دھر لیا۔ پہلے منہ کالا کیا، پھر گلے میں جوتوں کا ہار ڈالا اور درگت بنائی اور پھر آخری ذلت آمیز سلوک یوں کیا کہ منہ کالا کرکے گدھے پر بیٹھایا اور محلہ کا چکر لگوانا شروع کردیا۔

ہوا یوں کہ دوگلیوں کے بعد اس کے اپنے گھر کی گلی آگئی، شور شرابہ میں اس کی اپنی بیوی بھی گھر سے باہر نکلی اور اپنے شوہر کی حالت دیکھ کر ایسی تیسی کرنی شروع کردی کہ میں تمہیں کہتی نہیں تھی کہ اس دھندے میں نہ پڑو۔ آخر وہی ہوا نہ جس کا ڈر تھا۔ اب اس ذلت کے بعد بچوں اور میرے لیے جینے کے لئے بچا ہی کیا ہے۔ ہم تو جیتے جی مرگئے ہیں۔ دیکھو تم کس حالت میں جوتوں کے ہار کے ساتھ منہ کالا کرواکر گدھے پر موجود ہو۔ تمہیں شرم نہیں آرہی ہے۔ تو میاں کا جواب تھا کہ جا جا تو اندر چلی جا، ایسے ہی بات کو بڑھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان سازشیوں نے تین چار گلیوں کا چکر لگوا لیا ہے، اب ایک دو گلیاں بچی ہیں، جیسے ہی چکر مکمل ہوتا ہے تو میں منہ دھو کر واپس آ رہا ہوں۔ تم ایسے ہی پریشان ہو رہی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).