آج پروفیسر وارث میر کی 31ویں برسی ہے


پروفیسر وارث میر نے فوجی آمریت کے تہ در تہ اندھیروں میں دل کا چراغ روشن رکھ کر حق کا بول بالا رکھنے کی ایک ایسی نادر و نایاب مثال قائم کی تھی جو صرف دل کی روشنی ہی میں قائم کی جا سکتی تھی۔ ہماری تاریخ کے ایک ایسے بھیانک دور میں جب سیاسی کارکنوں کی ننگی پیٹھ پر کوڑے برسانے کی حکمتِ عملی سکۂ رائج الوقت تھی پروفیسر وارث میر نے فوجی آمرکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لکھا:

(الف) ’’آپ کو کچھ ہی نظر کیوں نہ آرہا ہو، یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں فوج اور فوج کی وساطت سے بیوروکریسی کی حکومت ہے اور بیسویں صدی کی سیاست کے سیانوں کا کہنا ہے کہ جو حکومت فوج کی گردن پر سوار ہو کر قائم ہوتی ہے اس حکومت کو مارشل لا کا شیر نیچے اترنے کی مہلت ہی نہیں دیتا۔ پاکستان کے علاوہ، دوسرے متعدد اسلامی ملکوں میں بھی، حکمرانی کرنے والا فوج کے شیر ہی پر سوار ہے۔ وہ شیر سے نیچے اترنے کے لیے اس وقت تک تیار نہیں ہے جب تک عوام اس شیر کو بھی شریک اقتدار کر لینے کی ضمانت دے کر اس کی جان کو محفوظ نہیں کر لیتے۔‘‘ (….. حقِ حکمرانی اور خدا کی مرضی)

(ب) ’’نظریہ کو ضرورت اور ضرورت کو نظریہ میں تبدیل کرنے کی غرض سے ایک مرتبہ خلیفہ منصور نے امام مالکؒ ، ابن ابی ذوہیبؒ اور ابوحنیفہؒ کو بلا کر اپنی خلافت کے بارے میں پوچھا۔ امام ابوحنیفہ ؒ نے رائے دیتے ہوئے فرمایا: ’’آپ نے ہمیں رضائے خداوندی کے لیے جمع نہیں کیا بلکہ آپ لوگوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ تینوں اہلِ علم میرے حسب مرضی فتویٰ دیتے ہیں، خواہ ڈر کے مارے ہی کیوں نہ ہو۔ آپ خلیفہ تو بن گئے مگر آپ کی خلافت پر دو صاحب فتویٰ عالم بھی جمع نہیں ہوئے حالانکہ خلافت مومنین کے اجماع و مشورہ سے قائم ہوتی ہے۔‘‘ (….نظریۂ ضرورت، خودی اور سیاست)

(ج) صورتِ حال یہ ہے کہ عملی صحافت پر دائیں بازو کے صحافیوں کا قبضہ ہے۔ حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف رکھنے والے ترقی پسندانہ ذہن کو اپنے اظہار کے لیے ادھر ادھر بکھرے ہوئے ذرائع و وسائل کو تلاش کرنا پڑتا ہے۔ ان صحافیوں کو کوئی باقاعدہ اور مستقل پلیٹ فارم مہیا نہیں ہے۔ حکومت نے بھی اپنے پسندیدہ اور ’’مرغوب‘‘ صحافیوں کی ایک فہرست بنا رکھی ہے۔ اسی فہرست کے مطابق عمائدین حکومت کی پریس بریفنگ میں خاص صحافیوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ صحافیوں کی حزبی سیاست کو جس طرح کھلی کھلی سرپرستی موجودہ حکومت کی طرف سے میسر آئی ہی، ماضی میں اس کی مثال نہیں مل سکتی۔‘‘ (…. جگر ہوگا تو عقاب بھی آئے گا)

درج بالا اقتباسات سے یہ حقیقت عیاں ہے کہ ضیاء آمریت کے تسلط میں تاریک اندیشی ،فرقہ پرستی اور تنگ نظری کی سرکاری سرپرستی کے باعث روشن خیالی اور خرد افروزی جرم ٹھہری تھی۔ پروفیسر وارث میر کی غیرتِ ایمانی نے اس صورتِ حال میں باطل کے ساتھ زندہ رہنے کی بجائے حق کی خاطر مرجانے کو ترجیح دی۔ جب تک زندہ رہے حق کی مشعل کو مضبوطی کے ساتھ اپنی گرفت میں رکھا۔ سیاسی آمریت اور فکری تاریک اندیشی کو اسلام اور بانیانِ پاکستان کے تصورِ پاکستان کی روشنی میں ملائیت سے پھوٹنے والے استدلال کی نفی کرنے میں مصروف رہے۔

وہ ایک ایسے دانشور تھے جو ملائیت کو تو رد کرتے تھے مگر اسلام پر جان چھڑکتے تھے۔ اس موضوع پر اُن کی تحریریں اقبال کے ’دینِ مُلّا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہ فساد‘کی تفسیر ہیں۔ اس باب میں وہ اُن دانشوروں کے استدلال کو بھی اپنی حریتِ فکر کے ساتھ رد کرتے ہیں جو مُلا کی بداندیشی کی سزا اسلام کی حقیقی، پاکیزہ روح کو دینے کے عادی ہیں۔ ان کی کتاب’’حریتِ فکر کے مجاہد‘‘کے زیرِ عنوان آٹھ ایسے انتہائی اہم مضامین یکجا کر دیئے گئے ہیں جو عہدِ حاضر کے مسلمانوں میں خردافروزی کی تحریک کے قائدین کے فیضان کا احاطہ کرتے ہیں۔ان مضامین میں اخوان الصفا،الکندی،الغزالی، ابنِ رُشدکے فلسفیانہ اندازِ نظر سے پھوٹنے والی سائنسی حکمت سے لے کر جدید مصر کے سیاسی مفکرین اور روشن خیال دانشوروں سے ہوتی ہوئی شاہ ولی اللہ ، سرسید اور علامہ اقبال تک پہنچتی ہوئی فکری روایت کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ جارج آروَل کے ناول Animal Farm پر ان کا مضمون پڑھتے وقت یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس ناول کا موضوع پاکستان ہو۔ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم سے لے کر ڈاکٹر آغا افتخار حسین تک متعدد روشن خیال دانشوروں کی اسلام شناسی کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔

پروفیسر وارث میر مسلمانوں میں روشن فکری کی اس روایت پر بحث پر اپنے اختتامی کلمات میں ایک انتہائی اہم دینی اور سیاسی مغالطے پر روشنی ڈالتے ہیں:

(الف) ’’میں پاکستان میں پروان چڑھنے والی ایک خاص تنقیدی روایت کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ روایت یہ ہے کہ مجدد الف ثانیؒ ، شاہ ولی اللہؒ ، سرسید احمد خانؒ اور اقبالؒ ، پر برصغیر میں راسخ العقیدگی یعنی مذہب پرستی کو فروغ دینے کا ’’الزام‘‘ لگایا جائے اور پھر یہ ثابت کیا جائے کہ ان لوگوں نے صوفیا کی انسانیت نواز اور عالمگیریت کی حامل تحریکوں کو سبوتاژ کیا اور بین السطور، منطقی طور پر اس تاثر کو ابھارا جائے کہ ان ہی مسلمان مفکرین کی تنگ دلانہ ’’کثرت پسندی‘‘ نے غیر فطری انداز میں ہندوستان کو تقسیم کرایا۔ یہ اندازِ فکر ان لوگوں کا ہے جو مسلمانوں کے الگ قومی وجود اور اس وجود کے حوالے سے جنم لینے والے اقتصادی اور معاشرتی مسائل کو اپنی سوچ کے دائرے سے خارج کر چکے ہیں۔…. بھگتی فکر کے علمبردار مجدد الف ثانیؒ ، شاہ ولی اللہؒ ، سرسید احمدخانؒ اور اقبالؒ کے افکار کو مماثل قرار دیتے ہوئے انہیں برصغیر میں آباد غیرمسلموں کا حریف قرار دیتے ہیں۔‘‘ (…. روشن فکری، شاہ ولی اللہؒ ، سرسیدؒ اور علامہ محمد اقبالؒ )

پروفیسر وارث میر اپنے اس مضمون میں قاضی جاوید کی کتاب ’’سرسید سے اقبال تک‘‘ میں پیش کیے گئے استدلال کو رَد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’گویا اعتراض یہ ہے کہ اقبالؒ ایک صوفی کی بجائے ’’راسخ العقیدہ‘‘ مسلمان کیوں تھے اور ایک شاعر ہو کر مسلمانوں کے مصائب اور مسائل پر کیوں کڑھتے تھے؟ جبکہ اقبالؒ کے پورے کلام پر نظر رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ وہ اس تصوف کے حامی تھے جو صوفی کو جدوجہد پر آمادہ کرتا ہے وہ رسوم کو نہیں بلکہ باطنی تجربے کو مذہب کا نام دیتے تھے۔‘‘بانیانِ پاکستان کے فکر و عمل کو متنازعہ فیہ بناتے رہنے کی یہ عادت پاکستان میں فوجی حکومتوں کے زیرِ اثر پنپتی چلی آ رہی ہے۔ پروفیسر وارث میر نے اپنے متعدد مضامین میں فوجی حکومتوں کے سیاسی کردار سے بحث کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنے ایک مضمون میں افواجِ پاکستان پر امریکی سکالر سٹیفن کوہن کی کتاب کا تنقیدی جائزہ بھی پیش کیا ہے۔اس بحث کے دوران وہ اپنے اس احساس میں قارئین کو شریک کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ:

’’یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان آرمی کے متعلق یہ کتاب پاکستانی قارئین کی بجائے امریکی ماہرین کے لیے لکھی گئی ہے، اس میں فوج اور سول کے باہمی تعلق کی مختلف نوعیتوں پر بحث کے علاوہ بین السطور، فوج کے سیاسی کردار کی ’’وکالت‘‘ بھی کی گئی ہے۔ افغانستان میں روسی قبضے اور ایران میں خمینی کے برسراقتدار آنے کے بعد، نئی امریکی حکمت عملی میں، افواج پاکستان کو ایک خصوصی اہمیت حاصل ہو گئی ہے اور اسی لیے امریکی پالیسی سازوں کے لیے ان افواج کے حسن و قبح سے مکمل طور پر آگاہ ہونا نہایت ضروری ہے۔ یہ کتاب اسی ضرورت کو پوراکرتی ہے۔ ‘‘ (…. دی پاکستان آرمی)

ہم طلوعِ آزادی کے بعد جلد ہی غلامی کی اس شبِ تار تک کیونکر پہنچے ؟ ان تاریکیوں سے نکل کر آفتابِ تازہ کی روشنی میں کیسے پہنچ سکتے ہیں؟ ان سوالات کا جواب بھی پروفیسر وارث میر کے پاس موجود ہے: ’’قیامِ پاکستان سے پہلے مسلمانوں کو فکری اور عملی طور پر خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کے لیے اقبالؒ نے ایسی جرأت مندانہ باتیں کیں کہ ان پر کفر کے فتوے لگنے لگے۔ خیال یہ تھا کہ پاکستان بننے کے بعد مسلمانوں کو ایک ایسی کھلی فضا میسر آئے گی کہ وہ اسلامی فقہ پر جمی صدیوں پرانی گرد کو جھاڑ کر اپنے روشن ضمیر، مفکرین کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ایک نئی دنیا تخلیق کریں گے۔ لکھنے پڑھنے اور سوچنے اور اپنے مطالعہ اور اپنی سوچ کو دوسروں تک پہنچانے کی آزادی ہوگی اور بڑی تیزی کے ساتھ ایک توانا اور ترقی یافتہ معاشرے کی پیدائش کا عمل شروع ہو جائے گا لیکن بدقسمتی سے ہوایہ کہ پاکستان بننے کے تھوڑا عرصہ بعد ہماری سیاسی و حکومتی قیادت کی توانائیاں باہمی چپقلش کی نذر ہونے لگیں اور بین الاقوامی استعمار کے نمائندوں نے اپنے مہروں کے ذریعے مقاصد پاکستان کو شہ مات دینے کی کوششیں شروع کر دیں۔…. مسلم لیگ کی سیاسی لحاظ سے کمزور اور نظریاتی لحاظ سے منتشر حکومتوں کے مقابلے کے لیے روایتی اسلام کی قوتیں، سیاست کا لبادہ اوڑھ کر میدن میں اتر آئیں اور پاکستان کمیونزم اور کمیونزم کے مخالفین کی سیاسی و فکری سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ اس کشمکش نے اسلام کی نئے تعبیرات و تشریحات اور پاکستان میں پروان چڑھنے والے سیاسی مزاج کو بھی متاثر کیا۔ یہ سیاسی مزاج، اتنے سال گزرنے کے بعد رفتہ رفتہ برصغیر اور برصغیر کی سرحدوں کے آس پا س پروان چڑگنے والی بین الاقوامی عسکریت کی ایک سیاسی ضرورت بن چکا ہے، لہٰذا پاکستان میں بوی کھچی روشن خیالی کے لیے بیرونی و اندرونی سرپرستیوں کے سائے میں پختہ تر ہوتے جانے والے اس مزاج کا مقابلہ کرنا روز بروز مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جائے گا۔‘‘ (….مسلمان اور ترقی یافتہ انسانی تصور)

یہ مقالات پاکستان اور اسلامی تہذیب کے باب میں اس مُقدس بے چینی کا حاصل ہیں جس نے پروفیسر وارث میر کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا اور وہ جسم و جاں کی سلامتی سے بے پرواہ ہو کر اپنی آخری سانس تک دادِ شجاعت دیتا چلا گیا۔ یہ کتاب پاکستان کی سیاسی اور روحانی تاریخ بھی ہے اور پاکستان کے تابناک مستقبل کا خواب نامہ بھی۔ پروفیسر وارث میر کے فرزند اس خواب کی تعبیر کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ کاش ہم بھی اپنے اندر اسی تلاش و جستجو کو پروان چڑھانے پر کمربستہ ہو سکیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).