پارٹی از نیور اوور !


کارل مارکس نے کہا تھا کہ تاریخ خود کو پہلے ٹریجیڈی اور پھر مضحکہ خیز کامیڈی کے طور پر دہراتی ہے۔ نواز شریف کا سارا ٹرائیل ایسی ہی مضحکہ خیز کامیڈی ہے۔ یعنی اگر آ پ کسی کو قتل کرنے کی سزا نہ دے سکیں تو اشارہ کاٹنے پر پھانسی دے کر انصاف کا بول بالا کریں۔ اقامہ اور دس سال کی قید بامشقت ایسی ہی سزائیں ہیں۔

دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے

آغاز بھی رسوائی انجام بھی رسوائی

مجھے حیرت عمران خان سے مریضانہ محبت کے شکار ان بزرگوں پر ہے جو یہ سارا کھیل پچھلی دہائیوں میں دیکھ چکے ہیں اور پھر بھی انقلاب کی امید لگائے بیٹھے ہیں ۔

ہم کہ ہیں کب سے در امید کے دریوزہ گر

یہ گھڑی گزری تو پھر دست طلب پھیلائیں گے۔

سزا کا اعلان ہونے کے بعد پارٹی از اوور کا گیت کہیں گونجا اور کہیں مٹھائیاں بٹیں۔ کچھ نے تو مٹھائی کی دوکان خالی ہونے کی نوید بھی دی۔

” کامیابی کی زیادہ خوشی وہ مناتے ہیں جو کبھی کامیاب نہیں ہوتے” ۔

اب تو لگتا ہے اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہی نواز شریف کے فلیٹ تھے۔

ہم سادہ ہی ایسے تھے کی یوں ہی پذیرائی

جس روز خزاں آئی سمجھے کہ بہار آئی

ہمارے بہت سے تجزیہ نگار ایکا ایکی نواز شریف کے بیانیہ پر تبرے بھیجنا شروع ہو گئے ہیں کہ پہلی غلطی یہ ہوئی دوسری غلطی یہ ہوئی ۔ سیدھی سی بات ہے نواز شریف کو بھارت کے ساتھ ورکنگ ریلیشنز، ملٹری بجٹ کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے پیش کرنے، بڑے میز کے پیچھے بیٹھنے، ڈان لیکس اور سب سےبڑھ کر مقبول ہونے کا خراج بہر حال ادا کرنا تھا۔ عمران خان سے مریضانہ محبت کے مارے، سیاستدانوں کے ہاتھوں قوم کے لٹنے کا واویلا کرنے والے، اغیار کی سازشوں سے متنبہ کرنے والے، نواز شریف کی شکل دیکھ دیکھ کر تھک جانے والے، ایون فیلڈ فلیٹوں کو قبضہ میں لے کر مناسب کرایے پر چڑھانے والے، کرپشن کے کرتاروں کو کراہتا اور چکی پیستا دیکھنے والے ایک بہت ہی جائز سوال اٹھاتے ہیں کہ شریف خاندان نے آخر منی ٹریل کیوں نہیں دی ۔ بہت آ سان جواب ہے کہ ان کے پاس منی ٹریل ہے ہی نہیں ۔ پھر وہ کیس عدالتوں میں گئے ہی کیوں ؟ ظاہر ہے ریلیف لینے کے لیے۔ اگر ایسا ہی تھا تو باہر آ کر اپنی عدالتیں کیوں لگاتے رہے۔ ظاہر ہے انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ جے آئی ٹی کسی اور کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔ نواز شریف کے پاس جی ٹی روڈ کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ اگر جی ٹی روڈ احتجاجی سیاست نہ ہوتی آج نواز شریف کے نام پر ووٹ بھی نہ ہوتا۔ سہیل وڑائچ صاحب ایک بات درست کہتے ہیں کہ ترقی کا ووٹ اضافی ہوتا ہے۔ سیاست کا اپنا وقت ہوتا ہے۔ آج ایک طرف عمران خان کا بیانیہ ہے کہ نواز اور زرداری نے پاکستان کو لوٹا ہے اور وہ پاکستان کو طاقتوروں سے نجات دلا کر بدل دیں گے۔ سیاسی بیانیے کی حد تک یہ بات بہت اچھی ہے۔ صرف بلاول، مریم، حمزہ، ترین، اسد عمر اور علیم خان کی جائیدادیں اس لوٹ کھسوٹ کا ثبوت ہے۔ عمران خان کی 168 ایکڑ زمین اور تین سو کنال کا محل بھی اربوں روپے میں ہے اور عمران خان بھی اس کی منی ٹریل کبھی یادداشت کی کمزوری کے زیر اثر، کبھی وکیل کی کمزور دلیل کی وجہ سے ثابت نہیں کر سکے اور جو کچھ وہاں جمع کروایا گیا ہے وہ کسی بھی وقت ٹیریان وائٹ کی طرح گلے پڑ سکتا ہے۔

دوسری طرف نوز شریف کا بیانیہ ہے یعنی ووٹ کو عزت دو۔ کبھی طاقت شریف خاندان سے نیچے ٹرانسفر نہیں ہوئی۔ کچے پکے نالوں کے افتتاح سے لے کر موٹر ویز تک میاں شہباز ہی ہر جگہ نظر آ تے ہیں۔ مشرف کے معتقد آج بھی ساتھ ہیں اور ماریں کھانے والے ڈان لیکس پر قربان ہوتے رہے۔

یہ مضحکہ خیز کیس کسی پر کبھی بھی چلائے جا سکتے ہیں ۔ زیادہ دن نہیں گزرے جب وجاہت مسعود صاحب نے آصف زرداری پر عرصہ حیات تنگ کیے جانے کا امکان ظاہر کیا تھا کیونکہ آ صف زرداری نے الیکشن ملتوی کرنے کے بھونڈے خیال کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ تاریخ پھر اپنے آ پ کو دہرائے گی۔ 25 جولائی کے بعد چند تناظر سامنے ہوں گے۔ ایک تو یہ کہ شہباز اور زرداری مل کر ایک کمزور لیکن لاڈلی حکومت کے خلاف اپوزیشن میں بیٹھیں اور نئی حکومت کو طاقت کے مراکز کے ساتھ مل کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں گے۔ انعام کے طور پر احتساب عدالت کا کمزور عدالتی فیصلہ پلٹ دیا جائے گا اور نواز شریف دلوں کے امیر المومنین بن جائیں گے۔ دوسری صورت یہ ہوگی کہ تمام پارٹیاں متفقہ طور پر کسی عمران خان سنجرانی کو وزیر اعظم بنا دیں گی اور پنجاب بدستور مسلم لیگ ن کے پاس رہے گا جس کی اہمیت و ضرورت مرکز میں عبداللہ دیوانہ کی وجہ سے بڑھ جائے گی اور احتساب عدالت کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے جو پٹیشنز آ ج جمع کروائی جا رہی ہیں وہ بار آور ثابت ہوں گی۔ عین ممکن ہے تحریک انصاف سادہ اکثریت لے لے، لیکن پھر بھی خاں صاحب وزیر اعظم نہیں بنیں گے۔ البتہ قرعہ فال کسی شاہ محمود قریشی کے نام نکل سکتا ہے کیونکہ خان صاحب کے راستے میں زرداری صاحب حائل ہو ں گے اور زرداری صاحب کے اپنے پیر صاحب بہت تھوڑے ہیں لہذا پیروں کی کرامات کا ٹکراؤ مقصد کے حصول تک پہنچنے کو نیوٹرلائز کر دے گا۔

چھ ارب ڈالرز کا خسارہ پورا کرنے کے لیے آ ئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا، لوگ ایک کروڑ نوکریاں مانگیں گے اور نئی  حکومت اداروں کے خسارے پورے کرنے میں لگی ہوگی، گھر بنانے کی سکیمیں شروع ہوں گی اور پراجیکٹ کے شروع میں ہی گالم گلوچ شروع ہو جائے گی کیونکہ اندھا بے چارہ کس کس کو ریوڑیاں بانٹے گا ۔ ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹک رہی ہوگی اور نئی حکومت لبرل ہونے کا تاثر دینے میں کوئی ڈان لیکس کر بیٹھے گی۔ فیصلے کہیں ہو رہے ہونگے، حکم نامے کہیں جاری ہو رہے ہوں گے، درد کہیں اٹھ رہا ہو گا اور دوا کہیں سے مل رہی ہوگی۔ ایسے میں نواز شریف پر بنے کیس ایسی بلا نظر آرہے ہوں گے جس نے پوری قوم کو یرغمال بنا رکھا ہو گا ۔ کسی احمد شجاع پاشا نے دبئی میں کسی زرداری سے معافی مانگی تھی اور اب بھی کوئی پاشا جاتی عمرہ جائے گا ۔ میاں صاحب پھر دودھ سے دھل جائیں گے اور ہم جیسے کنفیوزڑ پھر کہتے پھر رہے ہونگے کہ ان کو ووٹ اؤٹ ہونے دو ۔ زبردستی آؤٹ نہ کرو۔ انہیں ہر بار نئی زندگی مل جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).