سیکس پر بات کے لیے لطیفوں کا سہارا


ویت نام ایک انتہائی قدامت ملک ہے جہاں جنس ایک انتہائی حساس موضوع ہے۔ چوبیس سالہ ونہ کا کہنا ہے کہ ان کے والدین نے کبھی ان سے سیکس کے بارے میں بات نہیں کی۔ تاہم ان کے مطابق’وہ اس کے بارے میں لطیفے سناتے ہیں تاکہ میں سمجھ جاؤں کہ وہ مجھ سے کیا چاہتے ہیں‘۔

ونہ کے مطابق ان کے والدین کبھی کہتے ہیں کہ ’اگر تم نے اپنی ساتھی کو شادی سے پہلے حاملہ کر دیا تو تم دونوں کو گھر کے داخلی دروازے سے گھر میں آنے کی اجازت نہ ہو گی‘۔ یا پھر یہ کہ ’انہیں سور کے باڑے کے قریب ان لوگوں کے لیے جھونپڑا بنانا پڑے گا‘۔

ونہ کا تعلق ہیو سے ہے جو ویتنام کے سب سے زیادہ روایتی شہروں میں سے ایک ہے۔ .تاہم ویت نام میں جنس اور جنسی رویوں پر پچاس برس میں ہونے والے پہلے سروے کے مطابق اس قسم کے ’قدامت پسند‘ رویے کا مظاہرہ صرف ویت نام کے انہی علاقوں میں نہیں بلکہ ملک بھر میں عام ہے۔

جنس کے بارے میں لطائف سنا کر کچھ والدین اور بچے یہ آسان سمجھتے ہیں کہ وہ بنا شرمندہ ہوئے سیکس کے بارے میں باآسانی بات کر سکتے ہیں۔ یہ رویہ ویت نام میں چھوٹوں بڑوں سب کا ہے۔ لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جن کے لیے یہ موضوع مزاحیہ نہیں ہے۔

تاہم معاشی آزادی اور ترقی نے ویت نام کو ایک نسبتاً کھلا معاشرہ بنایا ہے اور اب وہاں جنسی رویوں میں بھی قابلِ ذکر تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ نوعمری میں جنسی تعلقات کے واقعات کی وجہ سے ویت نام میں غیر شادی شدہ لڑکیوں کے اسقاطِ حمل میں اضافہ ہوا ہے جبکہ غیر محفوظ سیکس کی وجہ سے ایچ آئی وی کے مریضوں کی تعداد میں بھی اضافےکا اندیشہ ہے۔

اس سروے کے دوران محققین نے چھ برس کے دوران ویتنام کے شہری اور دیہاتی علاقوں میں دو سو پینتالیس افراد سے بات چیت کی۔ اس دوران انہیں پتہ چلا کہ نوعمر لڑکوں یا لڑکیوں نے یا تو اپنے والدین سے جنس کے موضوع پر کبھی بات نہیں کی یا ایسی بات چیت ایک آدھ بار ہی ہوئی۔ ان بچوں کے والدین نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ انہوں نے بھی اپنی اولاد سے اس موضوع پر بات نہیں کی ہے۔

دو بچوں کے والدہ دیپ ہوا کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی سترہ سالہ بیٹی کو خط لکھ کر سیکس کے بارے میں بات کی۔ ان کے مطابق ’جس دن وہ گھر چھوڑ کر تعلیم کے لیے باہر جا رہی تھی تو میں نے اسے خط دیا اور بتایا کہ میں چاہتی ہوں کہ دورانِ سفر وہ اسے پڑھ لے‘۔.

ان کا کہنا ہے کہ ’میں نے اس خط میں بہت سی باتیں کیں جن میں سیکس اور تعلقات بھی شامل تھے۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ سمجھ لے کہ پیار اور جنسی تعلقات کیا چیز ہیں اور یہ کہ جب کوئی اپنی جنسی خواہشات پر قابو نہیں رکھ سکتا تو اس کے کیا نتائج نکلتے ہیں‘۔

اس سروے سے یہ بھی پتہ چلا کہ ویت نام میں جو مرد کے لیے جائز ہے وہ عورت کے لیے نہیں۔ بائیس سالہ ہونگ ہنہ ریڈیو پر ایچ آئی وے اور ایڈز کے بارے میں لائیو پروگرام کرتے ہیں جس کا ہدف نوجوان آبادی ہے۔ ہنے کے مطابق ’اس پروگرام میں حصہ لینے والے تمام مرد شادی سے قبل سیکس کو عام اور صحیح سمجھتے ہیں لیکن وہ کسی ایسی لڑکی سے شادی کو تیار نہیں جو شادی سے قبل جنسی تعلق قائم کر چکی ہو‘۔

.اس تحقیقاتی رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک ڈاکٹر کھواٹ تھو ہونگ کے مطابق ’ویت نامی لوگ سیکس کے بارے میں بہت کمزور اور یک طرفہ نقطۂ نظر رکھتے ہیں کیونکہ اس موضوع پر کوئی سنجیدگی سے بات نہیں کرتا ہے‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ یہ بہت خطرناک ہے کیونکہ اس سے جنس کے بارے میں غلط خیالات جنم لیتے ہیں‘۔

اس قسم کے مسائل کے سامنے آنے کے بعد ویت نام میں جنسی تعلیم کو ابتدائی تعلیمی نصاب میں شامل کرنے.پر بات ہو رہی ہے اور حالیہ سیکس سروے کے بعد کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ برا خیال نہیں ہے۔ تاہم سکولوں کے اساتذہ بھی اس موضوع پر بات کرنے سے کتراتے ہیں اور وہ بھی اس موضوع پر بات کو مزاحیہ رنگ دینے کے حق میں ہیں۔

اس بارے میں ڈاکٹر ہونگ کا کہنا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ویت نامی لوگ سیکس کے بارے میں کھلے عام بات کرنا سیکھ لیں اور انہیں امید ہے کہ ملک میں نصف صدی میں کیا جانے والا پہلا سیکس سروے اس نازک موضوع پر لوگوں کے نقطۂ نظر اور سمجھ کو بدلنے میں معاون ثابت ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).