حکمران ہمیں پارسا چاہیے


ہم ایک عام شہری ہیں روٹی کپڑا مکان کے چکروں میں پڑنے والے۔ ملکی سیاست، بحث مباحثہ، کون صحیح او ر کون غلط، ان چکروں میں ہم کھبی نہیں پڑے، زندگی میں ایک دفعہ ووٹ ڈالنے گئے اس کام کی امید اب ہمیں خود بھی نہیں ہے بہرحال بڑے بڑے دعوے ہم نہیں کرتے کیا پتا یہ غلطی دوبارہ ہوجائے ویسے بھی آپ تو جانتے ہیں انسان خطا کا پتلا ہے۔

خیر ہم بتا رہے تھے کہ سیاست سے ہمارا تعلق ’ صفر ’ کی حد تک ہے لیکن فی زمانہ لا تعلق ہونا اتنا آسان بھی نہیں ہے ذر ا سکون کا سانس لینے کے بعد فیس بک کھولو تو ایک سے بڑھ کر ایک خبر، ایک سے بڑھ کر ایک سیاست دان کسی نے کچھ کر دیا تو کسی کا ماضی اتنا برا کہ الامان الحفیظ۔ اب تو کچھ نہیں چھپا۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اتنی جانکاری کے باوجود بھی انہیں میں سے کوئی حکمراں بن جائے گا۔ ہم اتنے باخبر ہونے کے باوجود اتنے مجبو ر کیوں ہیں؟ ہمیں کو ئیں ڈھنگ کا حکمران کیوں نہیں ملتا؟

ہم ابھی اسی سوچ میں ڈوبے تھے کہ ہماری بیٹی صاحبہ نے کہا ”مماّ آپ نے آج سگنل توڑا ہے تو آپ نے جرم کیا نا؟“ بیٹی کی اس بات نے ہمیں بری طرح چونکا دیا دراصل کچھ دن پہلے صبح کے وقت جب ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھا لال بتی پر ہم نے گاڑی آگے بڑھا دی ہماری بیٹی صاحبہ ساتھ میں ہی تھیں اس وقت بھی اس نے یہ کہا کہ مما آپ نے سگنل توڑ دیا اور ہم نے ہنس کے جواب دیا ہاں بیٹا دیر ہورہی ہے کوئی ہے بھی تو نہیں اور اتنا لمبا سگنل ہے کتنی دیر رکنا پڑتا اور یہی بات اس نے دوبارہ کہی اور لفظ‘جرم ’ استمال کیا تو ہم بالکل ہوش میں آگئے اور سوچا کہ ہم کیسی قوم ہیں؟ کہ حکمراں ہمیں پار سا چاہیے ہم جیسے ہیں ویسے ہی حکمراں ہوں گے نا۔

ذرا اپنے آس پاس، دائیں بائیں نظر دوڑایئیں تو احساس ہوگا کہ سچائیں اور شفّافیت تو اب ہم میں بھی نہیں۔ ہم دکھاوے کے پہناوے پہن کر دوسروں کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے والی قوم ہیں، ہم عیب چھپا کر مال بیچنے والی قوم ہیں، ہم دوسروں کا راستہ روک کر آگے بڑھ جانے والی قوم ہیں، ہم عید کے دن ہسپتال میں ڈیوٹی دینے کی بجائے چٹھیاں منا کر جنازے اٹھوانے والی قوم ہیں، ہم قاتل کو بچا کر کیس جیت کر جشن منانے والی قوم ہیں، تعلیم اور اسکول کے نام پر کامیاب بزنس کرنے والی قوم ہیں، ہم پھل سبزی سڑا کر نالے میں بہا دینے والی قوم ہیں ہم انہیں سستا نہ بیچ کر غریب کے منہ سے نوالہ چھینّے والی قوم ہیں، ہم ملازمین کی تنحواہوں کو روک کر افطار پارٹی منانے والی قوم ہیں، ہم عبادت کے بہانے سڑکوں کو بند کرنے والی قوم ہیں، اور حد تو یہ ہے کہ ہم آپس کے رشتوں میں بھی سچّے نہیں ہم ان میں بھی مادہ پرست ہو گئے ہیں۔ ہم اپنے ان رشتے داروں سے دور رہتے ہیں جن کا معیار زندگی ہم سے کمتر ہو۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو فرسٹریشن اور ڈپریشن جیسی بیماریاں اتنی عام نہ ہو رہی ہو تیں۔ ہم ٹریفک خود جام کر کے دوسرے کو الزام دینے والی قوم ہیں۔

ہم ایک ایسی قوم ہیں جس کی شخصی اخلاق اور شائستگی مر چکی ہے۔ کہتے ہیں کہ جیسی روح ویسے فرشتے جیسے ہم ہیں ویسے ہمارے حکمران ہیں۔ پھر رونا کس بات کا۔
بقول سرسید احمد خان کے؛
یہ ایک نیچر کا قاعدہ ہے کہ جیسا مجموعہ قوم کے چال چلن کا ہوتا ہے یقینی اسی کے موافق، اسی کے قانون، اسی کے مناسب حال گورنمٹ ہوتی ہے۔ ( بحوالہ : مضمون:اپنی مدد آپ)
اگر ہم انفرادی طور پر اپنے اخلاقی اقدار بلند کر لیں تو بہت سے مسائل اپنے طور پر ہم خو د بھی حل کر سکتے ہیں۔ پہلا قدم تو ہم سب نے خود ہی اٹھانا ہے

ثمینہ صابر
Latest posts by ثمینہ صابر (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).