مشاعرہ، بارش کا پانی اور ہماری داد


\"bakhtمشاعرہ سننے کراچی آرٹس کونسل جانا تھا۔ اپنی کلاس کے چند ساتھیوں کے ساتھ نکلا۔ بسیں بدل بدل کر، ڈھونڈتے ڈھوندتے آخر پہنچ ہی گئے۔ مشاعرہ شروع ہونے میں ابھی کافی وقت تھا۔ لوگ کرسیوں اور ان کے درمیان واقع فرشی نشستوں، آس پاس کے کوریڈور اور کینٹین میں بکھرے ہوئے تھے، ابھی تک ہر تقریب کی طرح یہاں بھی اپنی اپنی فیشن نمائی کا کیٹ واک چل رہاتھا۔ عشاء کی نماز کا وقت ہونے لگا تھا۔ اذانیں ہورہی تھیں۔ ساتھیوں نے آپس میں ایک دوسرے کو دیکھا۔ سب نے وضو کیا۔ مسجد؟شکل سے جون ایلیا ایسے بالوں والے ایک بڈھے نے بتایا وہ بیرونی حصے کے کونے میں ایک چھوٹی سی دیوار کا حلقہ ہے نا؟ مولوی صاحب یہی یہاں کی مسجد ہے۔ ہاں کر کے میں اسی طرف بڑھا۔ مشاعرہ معروف ٹی وی چینل اور اخبار کی جانب سے تھا، ایکوساونڈ کا کرایہ پورا کرنے کے لیے ’فیشن شو‘ کا یہ وقت بھی اپنی آشا کا پرومو چلا کر سامعین کی مغز خوری کی جارہی تھی۔ چیختے چنگھاڑتے میوزک میں نماز کیسے ادا کریں۔ سٹیج تک پہنچنا اور وہاں سب کو سمجھانا، اس کے لیے لمبے پراسس اور سر دردی کی ضرورت تھی۔ ساتھی نے مشورہ دیا کہ اذان دی جائے، سو اذان دی گئی۔ اذان کی آواز کے ساتھ ہی شور تھم گیا۔ اذان کے بعد نماز باجماعت پڑھی تو سلام پھیرتے ہوئے پتہ چلا پیچھے لمبی صفیں کھڑی تھیں۔

خیر مشاعرہ شروع ہوا۔ بلا کیسے شروع ہوتا اتنی آسانی سے۔ شمعیں جلائی بجھائی گئیں، شازیہ خشک نے لوگوں کا دائرہ بنوا کر دھمال ڈالا، بھارتی شاعر سردار جی خوشبیر سنگھ دھمال میں اپنے پنجابی سٹائل میں کچھ زیادہ نمایاں رہے۔ مہدی حسن وہیل چیئر پر آئے تھے۔

خدا خدا کرکے مشاعرہ شروع ہوگیا۔ مشاعرہ کے شرکاء پاکستان اور بھارت کے چوٹی کے شعراء تھے۔ ندا فاضلی صدر مشاعرہ تھے۔ پاکستانی شعراء میں سے امجد اسلام امجد، حمایت علی شاعر، افتخار عارف، انور مقصود، انور شعوراور بہت سے شعراء تشریف لائے۔ ریحانہ روحی پاکستانی خاتون شاعرہ تھیں۔ ’یوں ہے یوں ہے‘ کی ردیف کے ساتھ انہوں نے ایک غزل پڑھی جس کے ایک شعر:

آج پھر کل کی طرح دیر سے گھر آئے گا وہ

پھر بہانے وہی دہرائے گا یوں ہے یوں ہے

 پر ندا فاضلی سے لے کر انور شعورتک سبھی نے بے ساختہ داد دی، مکرر مکرر کی آوازیں بار بار آئیں۔ شعر وسخن کا سلسلہ رات گئے تک دراز ہوتا چلا گیا۔ کھانا نہیں کھایا تھا اور شعر سے پیٹ بھلا کہاں بھرتا ہے۔ کینٹین میں باسی پچکے ہوئے سموسوں اور کچھے مکان کے پرنالے سے گرے ہوئے بارش کے پانی ایسی چائے کے علاوہ کچھ بسکٹ بھی مل رہے تھے۔ مگر کیا کیجیے کہ گرم چائے پلاسٹک کے ڈسپوزیبل گلاسوں میں مل رہی تھی اس طرح مٹی کی سوندی خوشبو کے ساتھ پلاسٹک کا ذائقہ بھی زبان تک آجاتا تھا، ساتھیوں نے اٹھ کر اپنی اپنی مرضی سے ’ماحضر‘ حاضر کیا۔

وہیں بیٹھے بیٹھے کھاتے بھی جاتے تھے اور داد بھی دیتے جاتے تھے۔ کھانے کے تسلسل میں بسکٹ، سموسے اور چاکلیٹ میں ایک نمبر پاپ کارن کا بھی آیا۔ ایسے موقع پر پاپ کارن کھانا فیشن ہے مگر اس وقت ہماری مجبوری تھی۔ ایک بھارتی خاتون شاعرہ کی دلوں کو چھو کر گذرنے والی غزل پورے آب وتاب سے جاری تھی۔ ضعیف العمر شاعرہ، ریحانہ روحی کی طرح ترنم سے تو نہ سنا سکیں مگر شاعری واقعی کمال کی تھی، سامعین تھے کہ شعراء، سبھی اچھل اچھل کر داد دے رہے تھے۔ کھانے میں مصروفیت کے باوجود ہماری توجہ بھی اسی جانب تھی۔ ایسے میں ایک تڑپتا پھڑکتا شعر سماعتوں کو نوازتا ہوا گذرا، سامعین تو جیسے واہ کے ساتھ ایک ایک فٹ ہوا میں اچھلے اور بیٹھے۔ ہمارے ہاتھوں میں اس وقت پاپ کارن کے چند دانے تھے، منہ تک جاتا ہوا ہاتھ بے اختیار داد دینے کو اٹھا اور ہم پاپ کون لہرا لہرا کر داد دینے لگے۔ پیچھے بیٹھے لیڈیز اینڈ جینٹلمین نے دیکھا اور ہماری والہانہ داد پر داد دینے لگے اور ہم نے جھینپ کر گردن اپنی گود میں اڑس لی۔ اچھے شعر پر اچھی داد دے کر ہی اس کا سرور حاصل ہوتا ہے مگر ہماری داد یوں ہی بیکار چلی گئی اور ہم شعر کا سرور حاصل نہ کرسکے۔

رات کے آخری پہر تک مشاعرہ چلتا رہا۔ انور مقصود کا کلام دل کو لبھانے والا تھا۔ سب سے آخر میں افتخار عارف اور ندا فاضلی نے اپنا کلام پیش کیا۔ مشاعرہ ختم ہوا باہر نکلے تو سڑکوں پر ہو کا عالم تھا۔ پیدل گھومتے گھامتے مٹر گشت کرتے پشتونوں کے ایک ہوٹل پر پہنچے۔ خود کو مصروف رکھنے کے لیے چائے کا آرڈر دیا، وہیں بیٹھے بیٹھے فجر کی نماز کا انتظار کیا۔ جب خوب اندھیرا چھٹا، روشنی ہوئی اور ٹریفک رواں دواں ہوئی تب ہم روانہ ہوئے اور بسیں بدل بدل کر واپس مدرسے پہنچے۔ نیند کا خمار آنکھوں میں تیر رہا تھا، آنکھیں سرخ ہورہی تھیں مگر کلاس میں حاضری بھی ضروری تھی سو حاضری دینے بیٹھ گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments