آج کہیں اس قوم کا نشاں نہیں ملتا


شہر کا کوتوال ایسا قوی تھا، اور ایسا رُعب داب والا، کہ اُس کی اجازت کے بغیر، قلعے کے آسمان پر چڑیا تک بھی پر نہ مارتی تھی۔ بستی کے کس مکان میں جوے کا اڈا ہے، کہاں چوری ڈکیتی کا مآل چھپایا جاتا ہے، کہاں شراب کے مٹکے تیار ہوتے ہیں، کس بالا خانے میں دمڑی کی سی ارزاں چمڑی ہے؛ وہ سب کی خبر رکھتا تھا؛ کنجڑوں سے لے کر کے کسبیوں تک کا احوال جانتا تھا۔ خبر کیوں کر نہ ہوتی، کوتوالی میں سب جرائم اس کی نگرانی میں ہوتے تھے، سب کی آمدن میں اُس کا بھی حصہ تھا۔ اس کے علاوہ شہر کا ہر بڑا کاروبار کوتوال ہی کا تھا، جہاں سے اسے خوب آمدن ہوتی تھی۔ تمام تر خامیوں کے باوجود نام نہاد عبادت گزار کوتوال، شہر بھر میں نیک نام تھا؛ بد نام تھے، تو وہ جو رعایا کی نظر میں ان دھندوں میں ملوث تھے، انھی کو برا سمجھا جاتا تھا۔

یہ کہانی اب کی نہیں ہے؛ بہت پرانے زمانے کا ذکر ہے، جب سماج ایسا ترقی یافتہ نہ تھا، آج کے زمانے کے سے ذرائع آمد و رفت نہ تھے۔ کوتوال شہریوں کی نفسیات سے کما حقہ آگاہی رکھتا تھا، حال آں کہ ابھی نفسیات کا علم بھی دریافت نہ ہوا تھا؛ ہاں! یہ ہے کہ مذاہب منصہ شہور پر آ چکے تھے۔ غاصب اور پروہت جانتے ہیں، کہ انسان ڈر کے خمیر سے پیدا ہوا ہے۔ اُس کے اندر کے ڈر کو جگائے رکھو گے تو وہ تابع رہے گا۔ ڈر وہ چابک ہے، جس سے غلاموں کو ہنکایا جاتا ہے۔ رعایا میں ڈر جگائے رکھنے کے لیے کوتوالی کو پروہتوں کا سہارا بھی تھا۔

پروہت کی کمائی کا بڑا حصہ نذرانوں پر مشتمل ہوتا تھا؛ بڑا حصہ کیا، ساری کی ساری کمائی نذرانوں ہی کی صورت تھی، اور عقیدت و احترام اس کے سوا۔ پروہت اور کوتوال کے مخبر، رعایا کو بتاتے تھے کہ کوتوال ہی ہے، جو شہر کی بقا کا ضامن ہے۔ بچے بچے کے اذہان میں یہ بات، ”کوتوال شہر کی بقا کا ضامن ہے“ اس طرح راسخ کر دی گئی تھی، کہ اب یہ جملہ ان کے ایمان کا حصہ معلوم ہوتا تھا۔

چوں کہ اس شہر میں مختلف مذاہب، مختلف اقوام بستی تھیں، تو ان میں تنازِع بھی بہت تھے۔ رعایا کا احوال اچھا نہ تھا؛ بھوک ننگ تھی، عزت نفس معنی کھو چکی تھی؛ رعایا کی اکثریت بھکاریوں کی سی یا غلاموں کی سی زندگی جیتی تھی، اور غاصبوں کا مخصوص ٹولہ زمانے کی ہر نعمت سے مستفید ہوتا تھا۔ ہر برادری، ہر قبیلے، ہر مسلک کے اپنے اپنے رہ نما تھے، جو شہر کی مرکزی انتظامیہ کا حصہ تھے؛ وہ اپنی برادری، اپنے مسلک، اپنی قوم کے مفاد کا خیال رکھنے پر مامور تھے۔ رعایا کو اتنا اختیار تھا، کہ وہ اپنے نمایندے خود چنیں۔

یہ بدعت ان پر ایک ایسی قوم مسلط کر گئی تھی، جس نے اُن پر بہت عرصے حکومت کی تھی؛ اور اب انھیں آزادی کے نام پر کوتوالی کی غلامی میں دے گئی تھی۔ اس سے پہلے یہاں بادشاہی کا نظام تھا، پادشاہی نظام میں رعایا اپنے حقوق کا مطالبہ تو تب کرتی، جب وہ آشنا ہوتی کہ اُن کے بھی کوئی حقوق ہوتے ہیں۔

اب جب رعایا جان گئی تھی کہ ان کے بھی حقوق ہوتے ہیں تو وہ اپنے چنیدہ نمایندوں سے اپنے ان حقوق کا مطالبہ بھی کرتی تھی۔ ایک طرف یہ احوال تھا، تو دوسری طرف کوتوالی کا ”سیاسی مکتب“ ان نمایندوں کی کردار کشی میں مصروف رہتا، تا کہ رعایا اپنے نمایندوں کے بارے میں شکوک و شبہات، یا ابہام کا شکار رہیں۔ ان نمایندوں کی، پروہتوں کی، قاضیوں کی، حتا کہ با اثر شہریوں کی ہر وقت نگرانی ہوتی رہتی؛ جاسوسی کا ایسا نظام تھا، کہ کوئی زرا سی لغزش کا شکار ہوا نہیں، فائل میں اس کی لغزش کا ثبوت محفوظ کر لیا گیا؛ تا کہ جب چاہا، فائل دکھا کر اس پر اپنی مرضی چلائی جا سکے۔ ضرورت پڑنے پر پنڈتوں سے کہلوایا جاتا کہ یہ نمایندہ دھرم کا باغی ہے؛ ایسے رعایا کو ان کے نمایندوں سے بد ظن کیا جاتا۔

یہی وجہ تھی کہ رعایا کے یہ نمایندے کوتوالی کا دم بھرتے تھے، پھر یہ بات بھی تھی، کہ کوتوال ہی نے ایک منصوبے کے تحت ان نمایندوں کو اپنی اپنی قوم کے لیڈر کے طورپر متعارف کروایا تھا۔ جیسا کہ بتایا گیا ہے، کہ ہر نمایندے کے گناہوں کی ایک فائل کوتوالی میں محفوظ تھی، جب کوئی نمایندہ اپنی قوم کے لیے کوئی ایسا فیصلہ کرنا چاہتا، جس کی منظوری کوتوال دینا پسند نہیں کرتا، تو وہ اس نمایندے کو وہ فائل دکھا کر ڈراتا کہ تمھاری قوم پر تمھارے کرتوتوں کی احوال ظاہر کر دوں گا۔

کوئی بہت ہی جی دار بننے کی کوشش کرتا، تو کوتوال اسے قوم دشمن یا غدار مشہور کر دیتا، پھر بھی قابو نہ آتا، تو اسے قاضی کے آگے ڈال دیا جاتا، وہ قاضی جن کے گناہوں کی فائل کوتوالی میں محفوظ ہو، وہ فیصلہ بھی کوتوالی ہی کا لکھا پڑھتے۔ فیصلے کے بعد بھی من چاہے نتائج نہ حاصل ہوتے تو رعایا کے ان مقبول نمایندوں کو پالتو قاتلوں کے ہاتھ مروا دیا جاتا۔ کوتوال کو ایسا کوئی نمایندہ نہیں بھاتا تھا، جو رعایا میں مقبول ہو جائے، رعایا کی اکثریت اسے پسند کرنے لگے۔

کوتوالی اور عبادت گاہوں، مکتبوں سے ہر وقت یہ صدا سنائی دیتی تھی، کہ ہم عظیم قوم ہیں، سچے مذہب کے رکھوالے ہیں، دُنیا کا ہر بادشاہ ہمارے قلعے کا دشمن ہے، قلعے کو برباد کرنا چاہتا ہے۔ اس کام میں سرکاری پرچا نویس بھی کوتوالی کے مددگار تھے، جو رعایا کے نمایندوں کو رعایا کے سامنے مسخ صورت بندر بنا کے پیش کرتے، اور اس خدمت کے عوض کوتوالی سے تن خواہ پاتے تھے۔

حقیقت یہ تھی کہ اس شہر کے باسی اس حد تک ذلت کے مارے ہوئے تھے، کہ اپنے ہی بھائیوں کا لہو پیتے تھے۔ ذخیرہ اندوزی، رشوت، نا جائز منافع خوری، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی، اختیار کا غلط استعمال، عہدوں کی بندر بانٹ، الغرض ہر خرابی ان میں بہ اَتم موجود تھی۔ پھر بھی یہ سمجھتے تھے، کہ یہ سب قوموں سے افضل قوم ہیں، کیوں کہ انھیں یہ رٹا دیا گیا تھا۔ ماجرا یہ ہے کہ غلاموں کو سوچنے کی عادت ہی نہیں ڈالی جاتی، بس وہ سنتے ہیں، اور ایمان لے آتے ہیں۔ حق کی تلاش کا جوکھم کون اٹھائے۔

ایسی اقوام جو سوچنے سمجھنے کی قوت سے عاری ہو جائیں، ہر افواہ کو خبر سمجھ کر آگے بڑھا دیں؛ کوئی موقع نہ جانے دیں، کہ اپنے سے کم زور کو آزار پہنچائیں، ایک دوسرے کی جائداد پر قبضہ جمانے کی عادت ہو، ایک دوسرے کی نجی زندگیوں کی ٹوہ میں لگی رہیں، ایک دوسرے کے ایمان کی پیمایش کر کے دیکھیں، جھوٹ بولنے کی عادی ہوں، موقع پرستی میں پڑی ہوں، بھائی کا گوشت کھا کے زندہ ہوں؛ ایسی اقوام اپنے لیے ایسے نمایندوں کو کیوں کر چن سکتی ہیں، جو انھی کی طرح موقع پرست، بد عنوان نہ ہوں۔

ایسی اقوام غلام بننے کے لیے ہوتی ہیں۔ ان پر کوئی دور دیس سے آ کے حکمرانی کرے، یا شہر کا محافظ ہی انھیں اپنا غلام بنا کے رکھے، کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ قوم پتا نہیں کہاں ہے، آج کہیں اس کا نشاں نہیں ملتا۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran