وسعت اللہ خان۔ معذرت تو بنتی ہے


\"hashirانا کا زنداں بھی عجیب ہے۔ اسیر کو گھسیٹ کر بھی باہر کھینچو تو وہ نکلنے کو تیار نہیں ہوتا۔ قفس سے محبت نہیں، عشق ہوتا ہے اور ہم ہوئے تم ہوئے کہ وسعت اللہ خان ہوئے، یہ عشق سب کے سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ہاں مگر وہ جو اس کی فریب آرائی جان لیں ہر ایسے کم ہوتے ہیں۔

کبھی کبھی اپنے الفاظ اپنے گلے میں پھنسی وہ ہڈی بن جاتے ہیں جسے نگلنا بھی مشکل ہوتا ہے اور اگلنا اس سے بھی مشکل۔ جاوید احمد غامدی اور ڈاکٹرخالد ظہیر جیسے نابغہ روزگار لوگوں کو بھی میں نے اس کا شکار دیکھا۔ علی سینا کے ساتھ مکالمے میں ایک قرآنی آیت تشریح پر مکالمہ شروع ہوا تو ابتدا میں غامدی صاحب اور ڈاکٹرخالد ظہیر ایک غیر منطقی اور کمزور موقف سے شروع ہوئے۔ شاید یہ ایک وقتی غلطی تھی اور اس سے جلد ہی رجوع کر لیا جانا چاہئے تھا۔ بہتر تشریحات میسر تھیں اور نتیجے کو ایک طرف رکھ کر ایک بہتر مکالمہ بہت ممکن تھا پر وہاں بھی شاید یہی انا کا خدا آڑے آیا کہ ایک دفعہ جب اتنے تیقن سے ایک بات کہہ دی گئی تو پھر اس سے پلٹا کیونکر جائے۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ مکالمے میں علی سینا کا موقف ہر غیر جانبدار شخص کو منطقی اور درست نظر آیا اور مذہب کا روایتی بیانیہ اپنے ہی زور میں زمیں بوس ہوتا دکھائی دیا۔ اس سارے قضیے میں اصل قصور شاید بیانیے کی کمزوری کا کم تھا اور ایک فریق کی انا کا زیادہ۔ ایسے اور بہت سے مظاہر آپ کو روز نظر آتے ہیں پر وہ لوگ جنہیں آپ عبقری گردانتے ہیں ان سے آپ کی توقع یہی ہوتی ہے کہ وہ اس جال سے بچ نکلیں گے اور جب وہ ایسا نہیں کر پاتے تو تھوڑا افسوس تو ہوتا ہے۔

وسعت اللہ خان کا اسلوب آج کے تمام کالم نگاروں سے منفرد ہے، اچھوتا ہے اور دل نشین ہے۔ کون ہے جس پر ان کی تحریر کا جادو سر چڑھ کر نہیں بولتا۔ بیان پر ایسی دسترس اور ایسی نکتہ آفرینی کسے نصیب ہے۔ اب کچھ عرصے سے ٹیلی ویژن پر اپنے دو ساتھیوں جناب مبشر علی زیدی اور جناب ضرار کھوڑو کے ساتھ ایک پروگرام بھی کر رہے ہیں جو واقعی بہت ہٹ کے ہے۔ دھیمے انداز میں طنز کی ہلکی ہلکی آنچ پر چڑھا ایک سہہ رخی مکالمہ حالات حاضرہ کی کئی ایسی پرتیں اتارتا ہے جو دوسرے اینکرز کو یا تو نظر نہیں آتیں یا اس سے صرف نظر کرنا ان کی پالیسی کا حصہ ہوتا ہے۔

اقرار الحسن نامی ایک نوجوان اینکر نے کچھ روز پہلے سندھ اسمبلی کے بظاہر ناقابل تسخیر حفاظتی انتظامات کا بھانڈا پھوڑنے کی ایک کوشش کی اور اس میں کامران ٹہرا۔ اس پر حکومت اور قانون کے رکھوالے اداروں کی جو بھد اڑی وہ اپنی جگہ پر اس کے ساتھ ساتھ دانشوروں نے اپنی بحث چھیڑ دی۔ چونکہ کہا یہ جا رہا تھا کہ اقرارالحسن نے اپنی شہرت اور شناخت کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اسمبلی میں ہتھیار پہنچائے اس لئے اس سے صحافی برادری کی ساکھ اور اعتبار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ جناب وسعت اللہ خان نے بھی اسی بنیاد پر ایک پروگرام کیا اور اس سارے آپریشن پر شدید تنقید کی۔ وسعت صاحب کا مقدمہ تقریبا وہی تھا جو صحافی قبیلے کی اکثریت کا تھا اور اس کے چار بنیادی ستون تھے۔

1۔ اقرارالحسن نے اپنے صحافی ہونے کا فائدہ اٹھایا اور یوں وہ اسلحہ اسمبلی میں لیجانے میں کامیاب ہوئے۔ یہ طریق کسی بھی طرح اسٹنگ آپریشن کی مروجہ تعریف پر پورا نہیں اترتا۔
2۔ پہلے سے ہی مربوط دوسرا نکتہ یہ کہ اس سے صحافیوں کی ساکھ کو کافی بڑا بٹا لگا اور ان پر کیا جانے والا اعتبار مجروح ہوا۔
3۔ صحافی تنظیموں سے تعلق رکھنے والی بھاری اکثریت نے اس آپریشن پر تنقید کی۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ یہ بہرحال ایک قابل ستائش کام نہیں گردانا گیا۔
4۔ اگر صاحب مذکور کو حفاظتی رخنے ڈھونڈنے کا اتنا ہی کیڑا ہے تو وہ رینجرز ہیڈ کوارٹر کیوں نہیں گھسے۔

وسعت اللہ خان کو بہرحال یہ داد دینی چاہئے کہ دو روز گزرے انہوں نے اقرار الحسن کو اپنے پروگرام میں مدعو کیا یا اقرار نے خود آنا چاہا اور انہوں نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ جو بھی صورت رہی بہرحال یہ ان کی اعلی ظرفی اور صحافیانہ اقدار کی پاسداری کہلائے گی۔ اقرار اپنے ساتھ ویڈیو ثبوتوں کا ایک پلندہ لائے جسے اسکرین کی زینت بھی بنایا گیا۔ اس وقت تک بہرحال اس پروگرام کے علاوہ بھی پوری تصویر سامنے آ چکی تھی اور یہاں محض اعادہ مقصود تھا۔ اقرار الحسن کا رویہ انتہائی مہذب اور مثبت نظر آیا اور انہوں نے ثبوتوں کی روشنی میں جنہیں بظاہر کسی نے نہ جھٹلایا نہ اس پر سوال اٹھایا، ان چار اعتراضات کے جوابات دیئے۔

سب سے پہلے اقرار نے یہ ثابت کیا کہ اس سارے آپریشن میں انہوں نے اپنی حیثیت، شناخت اور شہرت کا کوئی استعمال نہیں کیا۔ ایک غیر متعلقہ آدمی نے اسلحہ اندر پہنچایا اور حفاظتی انتظامات اسے روک نہیں پائے۔ سندھ اسمبلی کے اپنے کیمروں کی گواہی اس ضمن میں چشم کشا تھی۔

اقرار نے یہ تسلیم کیا کہ صحافی برادری اس سے خوش نہیں ہے کیونکہ شاید اب ان پر بھی اندھا اعتماد نہیں کیا جائے گا لیکن کسی کا خوش ہونا یا نہ ہونا حق سچ کا پیمانہ کہاں سے بن گیا۔ اگر اس آپریشن میں کوئی اخلاقی یا پیشہ ورانہ کجی ہے تو وہ گناہ گار وگرنہ یہ تنقید بے جا ہے۔ اور چونکہ اس سارے آپریشن میں وہ بطور ایک صحافی کسی بھی طرح سہولت کار نہیں رہے اس لئے یہ سمجھنا کہ اس سے کوئی صحافیانہ اقدار مجروح ہوئی ہیں محض ایک خیال غلط ہے۔

رہا آخری نکتہ تو اس پر کوئی مدلل بات نہ ہو سکی کہ اس وقت تک جھنجلاہٹ نظر آنے لگ گئی تھی پر عرض یہ ہے کہ یہ بہرحال ایک استحقاق کا مسئلہ ہے۔ اگر آپ سندھ اسمبلی کے حوالے سے کوئی مسئلہ منظر عام پر لانا چاہیں تو یہ تو بہت بودی دلیل ہے کہ جاؤ پہلے مہران بیس کے اندر گھس کر دکھاؤ یا پہلے رینجرز ہیڈکوارٹر کا حفاظتی حصار توڑو تو جانیں۔ اور اگر وسعت اللہ صاحب ٹھنڈے دل سے سوچیں تو سندھ اسمبلی میں اسلحے کا پہنچ جانا بہرحال ان تمام قانون کے رکھوالوں کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ ہے جن کے ذمے کراچی کی حفاظت ہے۔ ایوان میں تشریف فرما شخصیات کے ذاتی کردار سے قطع نظر یہ بہرحال ایوان نمائندگان ہے جہاں عوام کی تقدیر کے فیصلے ہوتے ہیں۔ آپ اس کے مکینوں پر سنگ زنی کر سکتے ہیں پر اس کے اپنے مکانی تقدس سے صرف نظری نہیں کر سکتے۔ تو اگر رینجرز اور پولیس اسے محفوظ نہیں رکھ سکتے تو عوام کو تحفظ کی وہ کیا نوید دیں گے۔ محافظ کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے بنکر کی دیواریں ناقابل شکست بنا کر بیٹھ جائے لیکن گھر کی دیوار میں بنے رستے اس کی نگاہ سے اوجھل رہیں۔ ایسے رینجرز، فوج اور پولیس کا کیا کرے کوئی، جن کے گھروں کی دیواریں شہر پناہ کی فصیلوں سے اونچی ہو جائیں۔

اقرار نے اپنا مقدمہ لڑا اور خوب لڑا۔ سچ پوچھئے تو تنقید کے تیر چلانے والوں کے لشکر میں ہم بھی شامل تھے پر اس وقت تک جب تک حقیقت مستور تھی۔ جب بات کھلی تو غلطی کا احساس بھی ہوا۔ امید یہ تھی کہ ایسا ہی احساس جناب وسعت اللہ خان اور مبشر علی زیدی کو بھی ہو گا کیونکہ بہرحال ان کے مفروضے آخر میں غلط ثابت ہوئے۔ اقرار نے پروگرام کے اختتام میں بڑی لجاجت سے کہا کہ ’وسعت صاحب، معذرت تو بنتی ہے‘ لیکن وہی انا کی اسیری آڑے آئی۔ افسوس اس کا کہ اب کے اس کا شکار وہ لوگ تھے جو خود مشعل راہ ہیں۔ جن سے لوگ سیکھتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اپنی انا کی مسند سے وہ ایک لحظہ نیچے اترتے۔ اپنی غلطی تسلیم کرتے اور خوشدلی سے اپنے امکانات اور مفروضات سے رجوع کر لیتے۔ ہم ان کے مداح پہلے بھی تھے۔ اب بھی ہیں۔ پر ایسا کرتے تو ان سے محبت اور سوا ہو جاتی۔

آپ سچ کے علمبردار ہیں۔ اقرار جیسے کتنے ہی آپ سے سیکھتے ہیں۔ آپ ہی انہیں یہ سکھائیے کہ اپنی غلطی تسلیم کرنے سے قد چھوٹا نہیں ہوتا بلکہ بڑھ جاتا ہے۔ دیر اب بھی نہیں ہوئی۔ سوچئے ضرور کیونکہ میرے عزیز وسعت اللہ خان ’معذرت تو بنتی ہے‘۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

Subscribe
Notify of
guest
16 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments