سورۃ رحمان سے علاج اور سروسز ہسپتال میں آئی سی یو کے مریض


سروسز ہسپتال کے ایک ڈاکٹر محمد جاوید احمد کی کچھ ویڈیوز دیکھنے میں ملیں جن میں وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح وہ سروسز ہسپتال کے آئی سی یو وارڈ میں داخل مریضوں کو سورۃ رحمان سناتے ہیں تو بہت سارے مریض، جو باقی علاج سے صحت یاب نہیں ہوتے، کو شفا ملتی ہے۔ وہ ان ویڈیوز میں بتاتے ہیں کہ وہ یہ سورۃ غیر مسلموں کو بھی سُناتے ہیں اور وہ بھی اس کے سننے سے شفاپاتے ہیں۔ آئی سی یو میں عموماً وہ مریض داخل کیے جاتے ہیں جن کی حالت بے حد تشویشناک ہوتی ہے۔ بعض مریضوں کو مصنوعی تنفس کی مشین کے ذریعے سانس دلایا جاتا ہے۔ کچھ کوما (گہری بے ہوشی) کی حالت میں ہوتے ہیں۔

میری امّی کو سورۃ یاسین بہت پسند تھی۔ وہ کہتی تھیں کہ یہ قرآن کا دِل ہے اور اس سے مشکل آسان ہوتی ہے۔ میرے نانا کو دمے کا مرض تھا۔ یہ 70 کی دہائی تھی اور دمے کے لئے کوئی موثر دوائیں موجود نہیں تھیں۔ جب اُن کو دمے کا دورہ پڑتا تھا تواُن کے سانس لینے کی دشواری پر دیکھنے والوں کو بھی تکلیف ہوتی تھی۔ ایک بار میں اُنہیں تکلیف میں دیکھ کر سورۃ یاسین پڑھنے لگی تو میرے نانا کہنے لگے ” بچو میں تمہیں سورۃ یاسین پڑھنے سے منع نہیں کرتا مگر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں ابھی فوت نہیں ہو رہا‘‘۔ اس سے مجھے معلوم ہوا کہ اکثر لوگ اس سورت کو مریض کو حالتِ نزع میں دیکھ کر پڑھتے ہیں تاکہ جان آسانی سے نکل جائے۔

امّی نے مجھے پھر کچھ اور سورتیں پڑھنے کو کہیں اور اُن کی دوائی پر یا شافی، یا کافی پڑھنے کو کہا۔ میری امّی آیتِ کریمہ کی بھی بہت معتقد تھیں اور اُس کے ورد کو بھی ہر مشکل کا حل سمجھتی تھیں۔ میرا بھی مندرجہ بالا سورتوں اور آیات اور باقی قران پر مکمل اعتقاد ہے۔ میری اپنی کچھ پسندیدہ آیات بھی ہیں جو کہ سورۃ فاتحہ، آیت الکرسی اور چار قل پر مشتمل ہیں۔

میرے ایک کیتھولک کولیگ، جان نے اپنی میز پر اپنے والد کی تصویر رکھی ہے جس میں اُن کے والد مدر ٹریسا کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جان بتاتے ہیں کہ اُن کے والد کو خون کا کینسر ہو گیا تھا اور اُس وقت اُسکا کوئی موثر علاج نہیں تھا۔ اُنہیں ڈاکٹروں نے صرف چند ہفتے جینے کا بتایا تھا۔ اُن کے والد کی خواہش تھی کہ وہ اپنے بیٹے کو ہائی سکول سے گریجویٹ ہوتا دیکھ سکیں۔ اُنہیں کسی نے بتایا کہ مدر ٹریسا نیویارک آئی ہوئی ہیں اور وہ اُن سے جان کے والد کی ملاقات کروا سکتے ہیں۔ جان بتاتے ہیں کہ اُن کے والد نے مدر ٹریسا سے ملاقات کی اور اُن کی دعا کی وجہ سے اُن کے والد ڈیڑھ سال مزید زندہ رہے اور جان کی گریجویشن میں شامل ہوئے۔

میری ایک پروٹسٹنٹ دوست سِنڈی بتاتی ہے کہ ماضی میں اُس پر اتنی مصیبتیں آئیں کہ اُس کو لگتا تھا کہ اُس کے گھر پر ایک گہرے تاریک بادل کاسایہ ہے۔ اُس کے پادری نے اُسے بائبل کی چند آیات کا ورد کرنے کے لئے کہا۔ سنڈی کے بقول اُن آیات کے ورد کرتے رہنے سے اُس پر مصیبتوں کا بادل چھٹتا گیا اور اب اُس پر خدا کا بہت کرم ہے۔

میں ایک بیوٹی پارلر میں جاتی تھی جہاں ایک ہندو بیوٹیشن، شانتی، کام کرتی تھی۔ میں نے ایک بار اُس کو منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتے دیکھا تو حیرت کا اظہار کیا۔ وہ کہنے لگی کہ اُس کے بیٹے کو بخار ہے۔ اگرچہ اُس کے ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اُسے ایک عام سا وائرس ہے اور دوا کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر وہ احتیاطاً وید میں لکھی صحت کو بحال کرنے والی دعاؤں کا ورد کر رہی ہے۔ میرے ایک ہندو کولیگ کی بیوی جو سرجن ہے کے خیال میں اُس کی سرجریاں اُس وقت بہت کامیاب ہوتی ہیں جب وہ آپریشن تھیٹر میں اپنے ساتھ شری گنیش کے مجسمے کو لے کر جاتی ہیں۔

میں نے ڈاکٹری کے علاوہ پبلک ہیلتھ میں بھی ماسٹرڈگری لی ہے۔ اس کے لئے Epidemiology کے بنیادی اصولوں کو پڑھنا اور سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔ اس میں کسی دوائی یا کیمکل کے اثرات کو معلوم کرنے کے لیے سٹڈی کے قواعد و ضوابط کے بارے میں بھی پڑھایا جاتا ہے۔ آپ ان اصولوں کو مدنظر رکھ کر ہی کسی دوائی یا کیمیکل کے اثرات کے نتیجے کو اخذ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ ان قواعد وضوابط اور اصولوں کو مدنظر نہیں رکھتے تو آپ کی کی گئی سٹڈی کے رزلٹ کو سائنسی طور پر کوئی ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔

مثال کے طور پر اگر میں ایک دوا کو سٹڈی کرنا چاہوں اور یہ ثابت کرنا چاہوں کہ یہ دوا کسی مرض کا علاج ہے توسب سے پہلے مجھے ہسپتال کے اخلاقیات کے بورڈ سے اجازت لینا ہو گی کہ آیا یہ سٹڈی اخلاقی اعتبار سے بھی درست ہے کہ نہیں۔ پھر ہر مریض سے یہ اجازت لینا پڑے گی کہ وہ اپنی مرضی سے اس سٹڈی میں شامل ہوں۔ اس کے بعد مجھےایک ماہر شماریات کی مدد سے سٹڈی ڈیزائن کرنا ہو گی۔ بہتر یہ ہو گا کہ یہ سٹڈی مختلف کلینکس میں ایک ساتھ کی جائے تاکہ یہ معلوم ہو کہ یہ ہرطرح کے مریضوں کے لئے موثر ہے۔ فرض کریں ہم اپنے مریضوں کو دو گروپ میں تقسیم کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک گروپ کو وہ دوا ملے گی اور دوسرے کو ایک بے ضرر مادہ جو کہ اُسی دوا کی شکل کا ہو گا دیا جائے گا۔ اس کو پلاسیبو (Placebo) کہتے ہیں۔ بعض دفعہ دوسرے گروپ کو اس مرض میں پہلے سے استعمال ہونے والی دوا دی جاتی ہے تاکہ دونوں کے پُر اثر ہونے کا مقابلہ کیا جا سکے۔

اس سٹڈی میں مریضوں کو یہ علم نہیں ہوتا کہ وہ دوا لے رہے ہیں یا پلاسیبو لے رہے ہیں۔ ڈاکٹروں اور نرسوں کو بھی علم نہیں ہوتا کہ کون سا گروپ کون سی دوا یا پلاسیبو لے رہا ہے۔ بعض اوقات اس سٹڈی کے نتائج کا حساب کرنے والے سٹیٹسٹیشن کو بھی علم نہیں ہوتا کو مریضوں کا کون سا گروپ دوا لے رہا ہے۔ وہ صرف ان گروپس کے ان دوائیوں کے نتیجے میں ہونے والے اثرات کو شمار کرتے ہیں۔ پھر تھرڈ پارٹی اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ کون سے گروپ کی صحت دوسرے گروپ سے زیادہ بہتر ہوئی ہے۔

ان ساری احتیاط کی وجہ یہ ہے کہ اس سٹڈی میں مختلف قسم کے تعصب، یک طرفہ رجحان شامل نہ ہوں۔ مثلاً کچھ مریض اس دوا کو زیادہ موثر جان کراپنے آپ کو زیادہ بہتر سمجھنا شروع کر سکتے ہیں۔ کچھ ڈاکٹر اپنے شخصی تعصب کی وجہ سے مریض کے معائنے کے نتیجے کو زیادہ بہتر بنا کر پیش کر سکتے ہیں۔ یہ تعصبات لا شعوری بھی ہو سکتے ہیں اور سٹڈی کے نتائج پراثر انداز ہو سکتے ہیں جن کو دور کرنے کے لئے یہ احتیاط کی جاتی ہیں۔

اس کے علاوہ بہت سے اور بھی پیچیدہ اصو ل وضوابط ہیں جن پر سختی سے چلنے ہی سے آپ کی سٹڈی درست مانی جاتی ہے۔ اس کے باوجود اس سٹڈی پر باقی سائنسدان گہری تنقید ی نظر سے اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہیں۔ اس کے بعد یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ اور لوگ بھی اس دوا کو سٹڈی کر رہے ہوں اور اُن کے نتائج ہماری سٹڈی سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات سائنس کی دنیا میں ایک بات کو ثابت کرنے کے لئے سالہا سال لگ جاتے ہیں اور بعض اوقات بہت سی سٹڈیز کرنے کے بعد کسی بات کو حتمی طور پر نہیں قرار دیا جا سکتا۔

ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے میں ڈاکٹر محمد جاوید احمد کی اس بات پر یقین رکھتی ہوں کہ سورۃ رحمان میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے شفا رکھی ہے۔ مگر باقی سائنسی کمیونٹی کو اپنی اس بات پر قائل کرنے کے لئے اگر میں ڈاکٹر جاوید احمد کی سٹڈی کا ریفرنس دیتی ہوں تو مجھے یہ معلوم کرنا ہو گا کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے آئی سی یو کی اس سٹڈی کے لئے کن قواعد وضوابط کو لاگو کیا ہے۔ کیا اُنہوں نے اپنے سب مریضوں یا اُن کے لواحقین سے پہلے اجازت لی ہے؟ کیا اُنہوں نے ان مریضوں کو دو گروپس میں تقسیم کر کے ایک کو دعا سنائی ہے اور دوسرے کو دعا کی طرح کوئی عبارت پلاسیبو کے طور پر سنائی ہے اور پھر اُن نتائج کا موازنہ کیا ہے؟

کیا یہ سٹڈی Double Blinded ہے؟ مطلب یہ کہ مریض اور ڈاکٹر دونوں کو علم نہیں کو کون سا گروپ دعا سن رہا ہے اور کون سا نہیں۔ اس کے علاوہ اُنہوں نےسٹیٹسٹک کے کون سے ٹیسٹ استعمال کیے ہیں اور اُن کی اصل شمار اور نمبر کیا ہیں؟ کتنے فیصد مریض ایک گروپ میں شفایاب ہوتے ہیں اور کتنے دوسرے میں؟ کیا ہر گروپ کے مریض ایک ہی بیماری سے آئی۔ سی۔ یو میں داخل ہوتے ہیں یا مختلف بیماریوں سے؟ ان کی عمر یں کتنے سے کتنے تک ہیں؟ سب سے پہلی بات کہ اُنہوں نے ہسپتال کے اخلاقیات کے شعبے سے اس کی اجازت لی ہے؟ اگر لی ہے تو کیا اُنہوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ غیر مسلموں کو اسلامی دعائیں کیوں سُنائی جا رہی ہیں۔ کیا انہوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ آئی۔ سی۔ یو کے کچھ مریضوں کو خاموشی کی ضرورت ہے اور اونچی آواز میں دعا سنانے سے اُن کے آرام میں خلل پڑ سکتا ہے؟

میں اگر یہ تجربہ امریکہ میں کرنا چاہوں تو مجھے یہ کہا جا سکتا ہے کہ میں اپنے مریضوں کو تین یا چار گروپس میں تقسیم کروں اور اُن گروپس میں ایک کو ہندو اور ایک کو مسیحی دعائیں پڑھ کر سُناؤں تاکہ ساری دعاؤں کو موازنہ ہو سکے۔ اگر اس سٹڈی کے نتائج خدانخواستہ میری مرضی کے مطابق نہ آئے تو سٹڈی کرنے والے ڈاکٹروں پر ہتک ِ مذہب کا الزام لگ سکتا ہے۔

فرض کریں میں یہ سٹڈی پاکستان کے ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر کر رہی ہوں تو پاکستان میں رہنے والے ڈاکٹروں کی جان ہتکِ مذہب کے الزام کی وجہ سے خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اس کے بچاؤ کے لیے کیا مجھے علما سے بھی فتوی لینا ہوگا؟ کیا اس کے لیے خصوصی علما کی ضرورت ہوگی جن کو سائنس اور اپیڈیمیولوجی کے شعبوں میں بھی مہارت ہوگی۔ کیا یہ علما اس بات پر راضی ہوں گے کہ اس سٹڈی میں کچھ مسلمانوں کو ہندو یا کرسچن دعائیں سنائی جا نے کا بھی امکان ہے؟ اگر وہ اس سٹڈی کی اجازت دے دیں تو فرض کریں کہ باقی علما ان کے اس فتوے سے اتفاق نہ کریں تو ان علما کی جان بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

اگر ڈاکٹر محمد جاوید نے ڈبل بلائنڈڈ سٹڈی نہیں کی اورصرف اوبزرویشنل سٹڈی کی ہے تو انہوں نے اپنی سٹڈی کے نتائج کا کس سے موازنہ کیا ہے؟ کیا انہوں نے اپنے ہی آئی سی یو کے ایک گروپ کو سورت رحمان سنائی ہے اور دوسرے کو نہیں سنائی یا اپنے مریضوں کا مقابلہ کسی دوسرے ہوسپٹل کے آئی سی یو کے مریضوں کے ساتھ کیا ہے؟ اور اس موازنے کے لیے کن ٹسٹوں کا استعمال کیا ہے؟ اس طرح کی سٹڈیرز میں بیشمار اس قسم کے سوال اٹھائے جاتے ہیں جن کا بیان اس طرح کے کالم کے لیے ممکن نہیں ہے۔

سا ئنس میں سوال اور تنقید کرنے کو بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس مذہب کی بنیاد ایمان اور عقیدے پر ہے۔ ایک مشہور فزکس کے ماہر، رچرڈ فینمین نے ایک بار کہا تھا کہ مذہب کا کلچر یقین ہے اور سائنس کا کلچر شک ہے۔ آپ مذہب کو سائنس کی کسوٹی پر نہیں پرکھ سکتے کہ دونوں کے معیار مختلف ہیں۔ میرا اپنی دعاؤں پر ایمان ہے اور مجھے اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ میری ان دعاؤں کے بارے میں سائنس کیا کہتی ہے۔ میرے اعتقاد کو اس سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ یہ دعائیں آئی۔ سی۔ یو کی لیب میں تجربے کے بعد موثر ثابت ہوئی ہیں یا نہیں۔ مجھے تو یہ بات بہت بری لگے گی کہ کوئی سائنس دان میری دعا کو غیر موئثر ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ میرا ذاتی تجربہ اس دعا کے لیے مختلف ہے۔

ڈاکٹر محمد جاوید احمد کے آئی۔ سی۔ یو میں ایسے مریض بھی ہوں گے جو سورۃ رحمان سُننے کے باوجود جانبر نہ ہو سکتے ہوں گے۔ مجھے یہ ڈر ہے کہ ایسے مریضوں کے رشتہ داروں کا دعا سے اعتقاد بھی اُٹھ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ غیر مسلم مریض مسلمان ڈاکٹروں اور دوسرے مسلمان عملے کے خوف سے ڈاکٹر جاوید احمد کو سورۃ رحمان سُنانے سے منع نہ کر سکتے ہوں مگر وہ اپنے لئے صرف اپنے ایمان اور عقیدے کے مطابق ہی دعائیں پڑھنا چاہتے ہوں۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ کچھ مسلمان مریض اور اُن کے رشتہ دار آیتِ کریمہ کا ورد کرنا چاہتے ہوں۔ کچھ سورۃ یاسین پڑھنے کو اُس وقت زیادہ مناسب سمجھتے ہوں مگر ہتکِ مذہب کے الزام کے خوف سے ہسپتال کے عملے کو سورت رحمان کی تلاوت کو بند کرنے کا نہ کہہ سکتے ہوں۔

مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر جاوید احمد میڈیکل سائنس میں ہونے والے تیزی سے بدلتے علم پر عبور رکھتے ہوئے اپنے مریضوں کا علاج کرتے ہوں گے۔ لوگ ان کے پاس شدید مرض میں مبتلا اپنے پیاروں کو اس لیے لے کر آتے ہیں کہ وہ ان کا علاج اپ ٹو ڈیٹ میڈیکل نالج کے مطابق کریں۔ مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر جاوید احمد کا سورۃ رحمان پر پکا اعتقاد ہے کہ وہ شفا کا اثر رکھتی ہے۔ لیکن اگر وہ یہ نہیں چاہتے کہ اُن کے اس تجربے پر سائنسی کمیونٹی اپنے معمول کے اعتراض کرے اور تنقید کرے اور خدانخواستہ کچھ اس تجربے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کریں تو اُن کو چاہیے کہ وہ دعاؤں کے اس کام کو مریضوں اور اُن کے لواحقین یا ان کے پیروں فقیروں کے حوالے کر دیں۔ اور صرف اپنی میڈیکل کی ٹریننگ سے ہی لوگو ں کو شفا پہنچانے کا کام جاری رکھیں۔

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Dr. Ghazala Kazi practices Occupational Medicine (work related injuries and illnesses) in USA. She also has a master’s degree in Epidemiology and Preventive Medicine.

dr-ghazala-kazi has 35 posts and counting.See all posts by dr-ghazala-kazi