انسان ہونا بےمعنی ہے، اصل چیز نسل اور خاندان ہے


’’ تمہارا بلڈ گروپ کیا ہے؟‘‘
’’ اے نیگیٹو۔‘‘
’’پھر تو میرا اندازہ بالکل درست نکلا۔‘‘
’’کون سا؟‘‘
’’یہی کہ تم منفی مکتبہ ہائے خون سے تعلق رکھتے ہو۔‘‘
’’منفی مکتبہ ہائے خون؟ یہ کیا بکواس ہے؟ یعنی خون نہ ہوا، معاشرتی علوم ہو گئے؟ـــــ‘‘
’’ لو! معاشرتی علوم اور کیا ہوتے ہیں بھلا؟ خون کا مطالعہ ہی تو تاریخ کا مطالعہ ہے، یہی تو نفسیات اور سماجیات کی بنیادی اکائی بھی ہے، اسی کے سہارے تو سیاسیات اور اخلاقیات کی بنیادیں ٹکی ہوئی ہیں،اِس خون کے علاوہ ہمارے پاس اور ہے کیا؟‘‘
’’ ہمارے پاس عقل اور شعور بھی تو ہے!‘ ‘
’’وہ بھی ہے مگر سب سے پہلے تو خاندان اور قبیلہ ہوا نا!‘‘
’’تو بات خون سے ہوتی ہوئی خاندان اور قبیلے تک جا پہنچی، اب دیکھئے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں؟‘‘
’’نظر بھی ٹھہر جائے گی، پہلے کچھ ٹھہرنے لائق تو ہو…… یہ بتاؤ اپنی پچھلی ایک درجن پشتوں کے بارے میں کیا جانتے ہو؟‘‘
’’ زیادہ نہیں…… بس اتنا کہ سب کے سب انسان تھے۔‘ ‘
’’ لو! محض انسان ہونا تو کوئی اتنی قابلِ فخر بات نہیں……‘‘
’’ واہ…… اگر انسان ہونا بھی قابلِ فخر بات نہیں تو پھر قابلِ فخر بات ہے کیا؟…… بھیڑیا ہونا……مگرمچھ ہونا…… چھچھوندرہونا؟ ‘‘
’’ بات کو جلیبی کی طرح ٹیڑھا میڑھا مت گھماؤ ……میں بس یہ کہہ رہا ہوں کہ انسان تو سبھی ہوتے ہیں، اہم بات ان کا نسلی اور خاندانی ہونا ہے۔ ‘‘
’’ ویسے تو کتوں اور بھینسوں کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے ناں……؟‘‘
’’ محض کتے اور بھینسیں ہی نہیں، کائنات کی ہر شے کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے…… ویسے تم نے بتایا نہیں کس قبیلے سے ہو؟ خاندان کون سا ہے؟ ذات برادری کیا ہے؟‘‘
’’ لو! تو پھر سنو! ……میں موچی اور نائی ہوں، میراثی اور قصائی ہوں، ماشکی ہوں، چمار ہوں، کمہار ہوں؛ میں بھیل، کوہلی اور دراوڑ ہوں‘‘۔
’’ اوہو!…… تو پھر کمّی ہوئے نا…… کب سے اگلوا رہا تھا…… بول ہی نہیں رہے تھے‘‘
’’ہاں میں کمّی ہوں اور کمیں بھی…… مجھے میرے تھکے ہوئے کاندھے سے پہچانا جا سکتا ہے، میری بجھی ہوئی آنکھوں سے پہچانا جا سکتا ہے، چہرے کی سنولاہٹ سے پہچانا جا سکتا ہے، بدن کی نیلاہٹ سے پہچانا جا سکتا ہے…… تم کیا مجھے تو کوئی بھی پہچان لیتا۔ ‘‘
’’ تو پھر یہ بھی مان لو کہ خون، قبیلہ اور خاندان ہی اصل سوشل سائنس ہے، باقی سب تو محض کہانیاں ہیں‘‘۔
’’جہاں سے میں دیکھتا ہوں صاحب ! وہاں سے تو قبیلہ، خون اور خاندان بھی محض کہانیاں ہیں۔‘ ‘
’’یعنی انگور ہاتھوں کی پہنچ سے دور تھے، لہٰذا اس بار بھی کھٹّے ہو ئے …… خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے……‘‘
’’پھول کاغذ کے بھی ہوں تو سنہری کانٹوں سے عظیم تر ہیں…… مگر یہ بات تم کیا سمجھ پاؤ گے!…… تم کہ جس نے خوشیاں بانٹنے والوں کو حقیر بنا ڈالا اورخوشیاں چھیننے والوں کو عظمت کے تمغے پہنائے…… تم کہ جس نے بہیمانہ طاقت، جبر اور بے ضمیری کو سراہا اور غاصبوں، آمروں اور ظالموں کی پشت پناہی کی…… تم کہ جس نے محبت اور عاجزی کو کمزوری جانا، مروت اور اخلاص کو مجبوری گردانا…… تم کہ جس نے محنت کرنے والے ہاتھوں کی مسلسل تذلیل اور بے حرمتی کی اور اِس د ھرتی کے اصل اور اصیل باسیوں کو زمین پر رینگتے ہوئے کیڑے بنا ڈالا۔ــ‘‘
’’ بہترین! …… خطابت تو بہت عمدہ کرتے ہیں آپ! …… المیہ مگر یہ ہے کہ آپ کے لفظوں سے نفرت، کم ظرفی اورپست نظری کی بو آتی ہے، لہٰذا میں اسے تمام تر عزت دینے کے باوجود پوری طرح سے رد کرتا ہوں۔ ‘‘
’’ ارے! تم کیا رد کرو گے!…… رد تو مجھے کرنا ہے تمہاری اِس خون، قبیلے اور خاندان کے اشتراک سے جنم لینے والی سماجی تشکیل کو ، جس نے انسان کو ذلت، تقسیم اور شرمندگی کے علاوہ اور کچھ نہیں دیا……‘‘
’’تمہارے رد کرنے یا نہ کرنے سے کیا ہوتا ہے بچے جمہورے!…… اس وسیع و عریض کائناتی نظام میں تمہاری بساط ہی کیا ہے؟……ریت کے ایک ذرے سے بھی کم تر……‘‘
’’میں ایک آواز ہوں اور یاد رکھو جب تک ایک بھی آواز زندہ ہے، تب تک ایک امکان زندہ ہے، ایک خواب زندہ ہے، ایک امید زندہ ہے……‘‘

٭٭٭

جتنے منہ اتنی باتیں۔ ہر شخص نئی داستان سناتا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں، اِس آواز کا گلا گھونٹ کر اِسے مار دیا گیا۔ کچھ کا اصرار ہے محض ٹانگیں اور بازو توڑنے پر ہی اکتفا کر لیا گیا۔ ایک مکتبہ فکر پورے وثوق سے کہتا ہے کہ بیلوں کی جوڑی اور چار ایکڑ زمین کے عوض اِس آواز کو خرید لیا گیا تھا۔ بعض افراد تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ایسی کوئی آواز تھی ہی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).