کھیل ہاتھ سے نکل رہا ہے


ملک میں مارشل لا نہیں ہے، لیکن سب کی انگلیاں اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہیں، جو کچھ ہو رہا ہے اس کے پیچھے خلائی مخلوق ہے اور جو اس طاقت کی آڑ میں اقتدار کے خواب دیکھ رہے ہیں اور جو اس طاقت کا نشانہ بن رہے ہیں، سب کو خبر ہے۔ عالمی جریدے، اخبارات اور چینلز صاف صاف بتا رہے ہیں، پاکستان میں محکمہ زراعت پس پردہ رہ کر ریاستی معاملات پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کی تگ و دو میں ہے۔ واقعات اتنی تیزی اور حیرت انگیز طریقے سے ہو رہے ہیں، یقین نہیں آتا کس طرح طاقت کے مرکز پنجاب میں محکمہ زراعت اپنی ہمیشہ کی مقبولیت برقرار رکھنے کے لیے اقدامات کرتی نظر آرہی ہے۔ کبھی علما اور گدی نشین اس دور کے نواز شریف یعنی عمران خان کی حمایت میں اکھٹے کیے جا رہے ہیں، کبھی عجلت میں پلان بی پر عمل درآمد کرتے ہوئے آزاد امیدواروں کو جیپ کے نشان الاٹ کرائے جاتے ہیں۔ خود تو بری طرح عیاں ہوئے ہیں اپنے ساتھ دوسرے اداروں کی ساکھ کا بھی بیڑا غرق کر دیا ہے۔

دنیا کو احمق سمجھتے ہیں الیکشن کمیشن نام زدگی کے کاغذات جمع کرانے کی تاریخ میں توسیع کرتا ہے اور مسلم لیگ کے درجن بھر اراکین اپنا ٹکٹ واپس کر کے جیپ کا نشان لے لیتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی آزادی کا بھانڈا سر بازار پھوٹ جاتا ہے۔ کس کے اشارے پر ایک دن کی توسیع کی اور کس کے اشارے پر جیپ کا نشان الاٹ ہوا۔

دنیا کو احمق سمجھتے ہیں چکری کے چکر باز کو ٹکٹ نہیں ملا تو عجلت میں ٹکٹ حاصل کرنے والے کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس تیزی طراری نے نیب ایسے ادارے کی جانب داری کا پردہ چاک کرتے، ان کو بھی ظاہر کر دیا جو چکری کے چکر باز کے پیچھے ہیں۔ فواد حسن فواد اور آشیانہ ہاوسنگ اسکیم کو ملک میں کرپشن کا واحد اسکینڈل سمجھنے والے کیا نہیں جانتے، نیب کے سو سے زیادہ مقدمات برسوں سے زیر التوا ہیں، جب کرپشن کا نام لے کر سیاسی سبقت اور سبق سکھانے کے لیے ریاستی اداروں کو استمال کیا جاتا ہے، اس وقت ملک کو بیرونی دنیا بنانا ریپبلک کہتی ہے۔

عدلیہ کوئی پہلی بار استمال ہوئی ہے؟ جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت سے بھٹو کی پھانسی سے جسٹس ارشاد کی فوجی آمر کو آئین میں تین سال چھوٹ کی اجازت دینے سے منتخب وزیراعظم کو نا اہل کرنے کے اقدامات تک، چاہے وہ یوسف رضا گیلانی ہوں یا نواز شریف؛ ریاست کا یہ ستون بھی ایک سیاسی آلہ کار نظر آرہا ہے اور جب اچانک اصف علی زرداری کے حوالے سے کرپشن کے مقدمات پر نواز شریف جیسی جے آئی ٹی بنانے کی باتیں عدالت عظمی کی طرف سے آنے لگیں، تو سمجھ لینا چاہیے کھیل ہاتھ سے نکل رہا ہے اور ریاستی اداروں کی طاقت کے بے رحمانہ استمال کے باوجود سب اچھا نہیں ہے۔

ایک اور ریاستی ستون میڈیا کو اپنے مقاصد کے لیے استمال کرنا ریاست پر ظلم ہے۔ وہ میڈیا جیسے قوم کو سچ بتانا تھا اس کو نواز شریف اور دیگر سیاسی مقاصد کے حصول پر لگا دیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں یہ غداری ہے اور عوام کے ساتھ دھوکا ہے، جو لوگ اداروں میں بیٹھ کر آئین اور قانون کے ساتھ کھیل رہے ہیں، وہ پاکستانی عوام کے ساتھ ظلم کر ریے ہیں۔ کوئی میڈیا ہاوس افغانستان میں ہونے والی پیش رفت، امریکیوں کی طرف سے داعشیوں کی مدد کے متعلق پروگرام نہیں کر رہا۔ کوئی اینکر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر پروگرام نہیں کر رہا، بھارتی سپریم کورٹ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ سی پیک پر چینیوں کے فنڈز کی بندش پر کوئی پروگرام نہیں ہو رہا۔ اگر ہو رہا ہے تو نواز شریف چور ہے، ایسے پروگرام ہو رہے ہیں۔ جنگ گروپ کا مکو تو ٹھپ دیا، اب ڈان کا مکو ٹھپا جا رہا ہے۔ غلام بنائے گئے اینکر کہاں میڈیا کی آزادی پر کوئی پروگرام کریں گے۔

جس طرح نواز شریف نے سزا کے بعد وطن واپسی کا اعلان کیا ہے، جس طرح پیپلز پارٹی دوبارہ جمہوریت کی طرف رجوع کر گئی ہے؛ صاف نظر آرہا ہے اسٹیبلشمنٹ ہاری ہوئی جنگ لڑ رہی ہے۔ کیا زرداری کو ریاستی اداروں کی طاقت سے بلیک میل کر کے واپس سنجرانی ماڈل پر لانا ہے؟ ہم سمجھتے ہیں چالاک زرداری نے نازک وقت میں اپنا وزن جمہوریت کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔

اب کیا کریں گے؟ جیپ کی مدد سے عمران کو وزیر اعظم بنائیں گے؟ یہ ممکن نہیں رہا۔ اگر مسلم لیگ نون ٹوٹ جاتی پھر مسلہ حل ہو جاتا۔ مسلم لیگ بھی نہیں ٹوٹی، زرداری بھی ہاتھ سے گئے؛ ایم کیو ایم پہلے ہی زخم خوردہ ہے۔ کس طرح اپنی مرضی کا انتخاب کرائیں گے؟ سب الٹ پلٹ ہو گیا ہے نہ ہاتھ باگ پہ ہیں نہ پا ہیں رکاب میں؛ مارشل لا لگا نہیں سکتے، معاشی حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ ہماری خواہش ہے اسٹیبلشمنٹ پاکستان کے بہترین مفاد میں یہ جنگ ہار جائے۔ سی پیک مکمل ہو جائے معیشت مستحکم ہو جائے۔ بھلے جو دل آئے کریں اس وقت جنگ ہارنا ہی پاکستان کی کامیابی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).