فوج الیکشن کے عمل کو غیر جانبدار ہوکر ادا کرے گی: میجر جنرل آصف غفور


راولپنڈی: پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کا کہنا ہے کہ افواج پاکستان کا انتخابات میں براہ راست کوئی تعلق نہیں اور فوج الیکشن کے عمل کو غیر سیاسی غیر جانبدار ہوکر ادا کرے گی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن سے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار ہوتا رہا ہے، آپ نے دیکھا کہ تمام شکوک و شبہات دم توڑ گئے، 25 جولا ئی کوعوام ملک کو ایک نئی جمہوری حکومت کی طرف لے کر جائےگی۔

انہوں نےکہا کہ 2013 کے انتخابات نسبتاً مشکل تھے، 2013 میں دہشتگردی کے واقعات ہورہے تھے، 2013کے جنرل الیکشن میں 70ہزار185 پولنگ اسٹیشنز کے لئے 75ہزار اہلکاروں نے الیکشن ڈیوٹیز انجام دیں، اب 2018 الیکشن میں پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ پولنگ اسٹیشن ہیں اور ہمیں جو کام بتایا گیا ہے اس کے لیے 3 لاکھ 71 ہزار سے زائداہلکار درکار ہوں گے، الیکشن میں بحریہ اور فضائیہ کے اہلکار بھی ڈیوٹی پر ہوں گے، 20 ہزار سے زائد پولنگ حساس پولنگ اسٹیشنز ہیں، 2 جوان پولنگ اسٹیشن کے اندر اور 2 باہر ہوں گے۔

ان کاکہنا تھا کہ 2018 کے الیکشن میں پہلی بار فوج تعینات نہیں ہو رہی، پچھلے الیکشنز میں بھی فوج خدمات انجام دیتی رہی ہے، 25 جولائی کو الیکشن کمیشن کی معاونت کریں گے، الیکشن کے کنڈکٹ میں پاک فوج کا براہ راست کوئی کردار نہیں ہے، الیکشن کا انعقاد کرنا ہماری ذمہ داری ہے، پاک فوج پر امن اور شفاف ماحول کے لیے فوج معاونت کرے گی تاکہ تمام سیاسی جماعوں کو کسی ناخوشگوار واقعے کے بغیر تمام چیزوں کے لیے محفوظ ماحول دستیاب ہو۔

ترجمان پاک فوج نے کہاکہ ایسا ماحول فراہم کریں گے کہ ووٹر کو کسی بھی دباؤ میں نہ لایا جائے اور وہ اپنی مرضی سے ووٹ دے، الیکشن کا عمل کسی بھی قسم کی بے ضابطگی تعصب اور پسند ناپسند سے بالاتر ہو، بیلٹ باکس میں 100 ووٹ ڈالے گئے ہوں تو 100 ہی نکلیں، کہیں بھی افواج پاکستان کے نمائندے بے ضابطگی دیکھیں گے تو الیکشن کمیشن کو بتائیں گے، افواج کو کوئی اختیار نہیں کہ اس عمل کو سیدھا کرنے کے لیے خود آگے آئے لہٰذا کسی بھی بے ضابطگی کی نشاندہی الیکشن کمیشن کے ذریعے ہی کی جائے گی۔

میجر جنرل آصف غفورنے کہا کہ بیلٹ پیپرز کی ترسیل فوج کی نگرانی میں ہوگی، ہم نے اسے صرف محفوظ طریقے سے پہنچانا ہے، الیکشن کے بعد بیلٹ باکس کو محفوظ طریقے واپس بھیجنے کےلیے بھی فوج سیکیورٹی دے گی، فوج کا کام یہ ہے کہ انتخابی مواد بغیر کسی رکاوٹ کے مقررہ مقامات تک پہنچایاجائے۔

انہوں نے کہا کہ پوری فوج کو ایسا آرڈر جاتا ہے جو کمانڈ کو مضبوط کرتاہے اور ہمیں حکم ہےکہ غیر سیاسی اور غیر جانبدار ہوتے ہوئے الیکشن کمیشن ی مد دکریں، افواج پاکستان اس عمل کو مکمل طور پر غیر سیاسی اور غیر جانبدار ہوتے ہوئے ادا کرے گی اور الیکشن کے عمل میں کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں ہوگی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھاکہ سب سے پہلا کام ملک میں امن وامان ہے، الیکشن سے تین روز قبل سیکیورٹی کی ذمہ داری پوری ہوجائے گی، عوام کو کنٹرول کرنے کی بنیادی ذمہ داری پولیس سمیت سول آرمڈ فورسز کی ہوگی، پولنگ کے اندر موجود جوان کی بنیادی ذمہ داری شفاف الیکشن میں رکاوٹ کا معاملہ دیکھنا ہے، الیکشن کمیشن آف پاکستان سے تصدیق شدہ افراد کو کارڈ دیے جائیں گے اور غیر ملکی مبصرین بھی کارڈ کے مطابق اندر جائیں گے، اندر موجود جوان کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ غیر متعلقہ شخص کو پولنگ بوتھ کے اندر نہ آنے دے۔

میجر جنرل آصف غفور نے کہاکہ کسی کو ووٹر کے ساتھ زبردستی کی اجازت نہیں ہوگی، جہاں کوئی بے ضابطگی ہوگی، پولنگ بوتھ کے اندر کا جوان وہان موجود افسر اور الیکشن کمیشن کو بتائے تاکہ اور مسئلے کے حل تک پولنگ روک دی جائے گی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے میڈیا نمائندوں سے اپیل کی کہ ڈیوٹی پر کھڑے جوان سے سوالات کرنے سے گریز کریں، ہر شہر میں آئی ایس پی آر کے نمائندے ہوں گے ان سے رابطہ کیا جائے اس لیے ڈیوٹی پر موجود جوان تک نہ جائیں کیونکہ جب ایک سپاہی کھڑا ہے اس کا مطلب یہ نہیں وہ ایک ہے، وہ پوری فوج کا نمائندہ ہے، اسے اپنی فوج سمجھ کر تعاون کریں، اس کے ساتھ کوئی ایسا رابطہ نہ کریں جو اس کی ڈیوٹی کی راہ میں رکاوٹ بنے، عوام کی محبت ایک جگہ لیکن فوج اپنے جوانوں کا خیال رکھتی ہے، ان سےمحبت کا اظہار یہی ہے کہ اس کی ڈیوٹی میں خلل نہ ڈالیں۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ہماری کوئی سیاسی جماعت نہیں، صرف پاکستان کی عوام ہی ہمارا مفاد ہے، عوام کے لیے ضروری ہے الیکشن بہت اچھ ےطریقے سے ہوں، جتنی تعداد میں ووٹ ڈلیں اتنے ہی باہر آئیں تو اتنا ہی شفاف الیکشن ہوگا، عوام کی ذمہ داری ہےکہ وہ ووٹ ڈالیں، جو پارٹی اور لیڈر انہیں پسند ہے کسی خوف کے بغیر اسے ووٹ ڈالیں۔

انہوں نے کہاکہ اگر ووٹر سمجھتے ہیں یہ ان کا نمائندہ ہے تو ووٹ ڈالیں، یہ کیسے ممکن ہے ساڑھے تین لاکھ فوج کو کان میں کہہ دیں ایسا کرنا ہے، فوج کی ایک عزت ہے سپاہی ہمارے حکم پر جان دینے کے لیے تیر ہوتا ہے اسے غلط حکم نہیں دے سکتے، اس سیاسی عمل کو سیاسی رہنے دیں، ہم 25 جولائی تک اور برداشت کریں گے، آپ دیکھیں گے جیسے باقی الزام غلط ثابت ہوئے یہ بھی ہوں گے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھاکہ پاکستان میں ایسا کون سا الیکشن تھا جس میں کسی جماعت یا سیاستدان نے نہ کہا ہو دھاندلی ہورہی ہے، کوئی ایک ایسا الیکشن بتایا جائے جس سے پہلے مختلف جماعتوں کےلوگوں نے پارٹی تبدیل نہ کی ہو، بدقسمتی سے سیاسی جماعتیں دوسری جماعتوں کو نیچا دکھا کر الیکشن لڑنے کی کوشش کرتی ہیں۔

انہوں نےکہاکہ پچھلے سالوں میں قومی فریضہ کامیابی سے انجام دیا ہے، پاک فوج پچھلے 15 سال میں بہت اہم اور بقائے پاکستان کی جنگ لڑرہی ہے، جب آپ دل یا دماغ کی سرجری کررہے ہوں تو چھوٹی بیماریوں کی طرف توجہ نہیں دی جاتی، ان سب چیزوں کا مقصد ہے کہ فوج کی توجہ مین ایشوز سے ہٹائی جائے۔

میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھاکہ جس طرح قربانی دے کر امن قائم کیا اس میں ہم نے وہ چیزیں بھی برداشت کیں جو عام حالات میں نہیں کرتے، ان پر بھی رد عمل نہیں دیا جو نام لے کر کہا گیا، بطور ترجمان افواج پاکستان اس طریقے سے بات نہیں کرسکتا جیسے باہر ہوتی ہے، روز ٹاک شوز ہوتے ہیں ہر بندے کو اجازت ہوتی ہے جس کا جو دل چاہے کہے جارہا ہے، یہ باتیں کوئی نہیں نہیں، یہ وقت ایسا ہے جس میں ہماری توجہ اہم مسائل پر ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہاکہ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ میں فون کرکے کہوں ایسا کردیں تو آپ کردیں گے، بہت ساری چیزیں الیکشن مہم کا حصہ ہوتی ہیں جس میں فوج کو ڈالا جارہا ہے، ہم یہ سب اس لیے برداشت کررہے ہیں کہ ہمیں پتا ہے ہمیں کہاں جانا ہے، کروڑوں ووٹرز ہیں کیا اتنے پاکستانیوں کو کوئی کہہ سکتا ہے کہ اسے ووٹ ڈالیں، عوام جسے چاہیں ووٹ ڈالیں، الیکشن پر فوج سے زیادہ کوئی مطمئن اور خوش نہیں ہے۔

جنرل فیض حمید سے متعلق سوال پر ان کاکہنا تھاکہ جو لوگ ان کانام لیتے ہیں انہیں ان کے کام ہی نہیں پتا، ان کا دہشت گردی کے خلاف بہت کردار ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے ملتان واقعے سے متعلق سوال پر واقعے میں آئی ایس آئی کے کسی کردار کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ محکمہ زراعت سے پتا کریں پچھلے ایک سال سے مذکورہ شخص کے خلاف کارروائی کررہے تھے یا نہیں، اسے یہ رنگ دینا کہ الیکشن لڑنے کی وجہ سے ایسا ہوا تو اس میں ایسی کوئی بات نہیں۔
بشکریہ جیو نیوز۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).