’غلطی یا تو پھول بیچنے والوں کی یا پھر حلوائی کی ہے‘


انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی

دنیا میں 193 ملک ہیں جن میں سے 189 کا دورہ یا تو خود وزیر اعظم کر چکے ہیں یا ان کے وزرا

اگر آپ یہ سمجھ رہے تھے کہ دنیا کا کوئی کونا ایسا نہیں ہے کہ جہاں وزیر اعظم نریندر مودی یا ان کے وزرا نہ پہنچے ہوں، تو آپ غلط بھی تھے اور نہیں بھی۔

دنیا میں 193 ملک ہیں جن میں سے 189 کا دورہ یا تو خود وزیر اعظم کر چکے ہیں یا ان کے وزرا۔ یہ حکومت کی مہم تھی جس کے تحت ہر چھوٹے بڑے ملک سے رابطہ کیا جانا تھا، اور لوگ تو یہ تک کہنے لگے تھے کہ وزیر اعظم کو کبھی انڈیا کا دورہ بھی کرنا چاہیے!

اب بس چار ملک بچتے ہیں لیکن ریکارڈ چیک کرنے کے بعد ہو سکتا ہے کہ صرف تین کا ہی سفر کرنے کی ضرورت پڑے کیونکہ گزشتہ چار برسوں میں آتے جاتے انڈیا میں تو وہ ایک آدھ مرتبہ رکے ہی ہوں گے۔

ایک رپورٹ کے مطابق مارشل آئلینڈز، ٹوالو اور مائکرونیشیا ہی ایسے ملک ہیں جہاں اب تک کوئی نہیں پہنچ سکا ہے۔ لیکن دنیا کے نقشے پر انہیں ڈھونڈنے کی کوششیں جاری ہیں اور ملتے ہی وہاں وزرا روانہ کر دیے جائیں گے۔

وزرا کے مسائل کو بھی کچھ کم مت سمجھیے!

انہیں اکثر ایسی جگہ جانا پڑتا ہے کہ جہاں وہ اپنی خوشی سے جانا نہیں چاہتے۔ مثال کے طور پر اتر پردیش کے وزیر سریش رانا جن پر مظفرنگر کے فسادات بھڑکانے کا الزام لگایا جاتا ہے لیکن وہ اس الزام سے انکار کرتے ہیں۔

 

سریش رانا ستمبر 2013 میں پولیس کی حراست میں

سریشن رانا کو 2013 میں مظفرنگر میں فسادات پر گرفتار بھی کیا گیا تھا (2013)

وزیر اعظم نریندر مودی نے بی جے پی کے رہنماؤں کو ہدایت دی ہے کہ (چھوٹے بڑے ملکوں کی طرح) وہ دلتوں یا نام نہاد نچلی ذاتوں سے رابطے بڑھانے کے لیے ان کے گھروں میں کچھ وقت گزاریں۔ اسی پروگرام کے تحت چند ہفتے قبل سریش رانا علی گڑھ میں ایک دلت کے گھر پہنچے تھے لیکن وہاں انہوں نے جو کھانا کھایا وہ ایک حلوائی کی دکان سے منگوایا گیا تھا! (کچھ ہندو دلتوں کو اچھوت مانتے ہیں لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ کھانا حلوائی کی دکان سے کیوں منگوایا گیا تھا)

دلت شخص رجنیش کمار نے بعد میں ٹی وی چینلوں کو بتایا کہ انہیں تو معلوم ہی نہیں تھا کہ وزیر موصوف تشریف لانے والے ہیں اور مقامی لوگوں کے مطابق کھانے اور برتنوں کا تمام انتظام سریش رانا کی ٹیم نے ہی کیا تھا!

وزیر موصوف اس الزام سے انکار کرتے ہیں لیکن کھانے میں دال مکھنی، تندوری روٹی، پلاؤ اور گلاب جامن تھے! اگر یہ کھانا حلوائی کے یہاں سے نہیں آیا تھا تو رجنیش کمار کو اپنا ہوٹل کھول لینا چاہیے۔

اس سے معاشرے میں ذات پات کا فرق بھی ختم ہوگا اور دلتوں کے معاشی حالات بھی بہتر ہوں گے۔

وفاقی وزیر جینت سنہا

وفاقی وزیر جینت سنہا گاؤ کشی کے نام پر قتل کے جرم میں سزا پانے والوں کو پھولوں کے ہار پہنانے کی وجہ سے تنازع کا شکار ہیں

لیکن حلوائیوں کی وجہ سے مشکل میں گھرنے والے سریش رانا اکیلے وزیر نہیں ہیں۔ وفاقی وزیر جینت سنہا بھی ایک حلوائی اور ایک پھول والے کی وجہ سے تنازع میں گھر گئے ہیں۔

وہ ہارورڈ سے پڑھ کر آئے ہیں، بڑے انویسٹمنٹ بینکر رہ چکے ہیں اور سابق وزیر خزانہ یشونت سنہا کے بیٹے ہیں۔ لیکن آجکل وہ کچھ پھولوں اور مٹھائی کی وجہ سے تنازع کا شکار ہیں۔ گاؤ کشی کے نام پر قتل کے جرم میں سزا پانے والے کچھ لوگ ضمانت پر چھوٹ کر سیدھے ان کے گھر آئے تو جینت سنہا نے انہیں پھولوں کے ہار پہنائے، اپنے ہاتھ سے مٹھائی کھلائی اور پھر ان کے ساتھ ایک تصویر بھی کھنچوائی۔

فوٹو وائرل ہوئی تو لوگ یہ سوال پوچھنے لگے کہ آخر وہ کیا پیغام دینا چاہ رہے تھے؟ اپنے دفاع میں خود جینت سنہا کا کہنا ہے کہ وہ ہر قسم کے تشدد کے سخت خلاف ہیں اور قتل کے کیس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ کیس ابھی زیر سماعت ہے!

لیکن اعتراض کرنے والے کہاں باز آتے ہیں۔ ان کا سوال یہ ہے کہ جن لوگوں کو قتل کے جرم میں سزا ہوئی ہو، انہیں ہار پہانے سے ان لوگوں کو کیا پیغام جائے گا جو گاؤ کشی کے نام پر قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے میں دیر نہیں لگاتے؟

اب ان لوگوں کو کون سمجھائے کہ ’کیس زیر سماعت ہے‘ اور اگر کسی کی غلطی ہے تو پھول والے اور حلوائی کی۔ نہ پھول ہوتے، نہ مٹھائی ہوتی نہ تنازع ہوتا۔

جینت سنہا تو سیاست کے نئے کھلاڑی ہیں اس لیے ان کا دفاع بی جے پی کے سابق صدر اور وزیر ٹرانسپورٹ نتن گڈکری نے کیا ہے جو آر ایس ایس کے بہت قریب مانے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’پچیس لوگ فوٹو کھنچوانے آتے ہیں، کس کو منع کروں؟ اب کس نے کس کو مالا پہنائی، کون کس سے ملا، یہ ملک کے اتحاد، سالمیت اور مستقبل کے سوال ہیں کیا؟ آئین نے سب کو آزادی دی ہے۔۔۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم لوگوں کی نجی زندگی میں گھس رہے ہیں۔‘

تو یہ ہیں وزرا کے مسائل، انہیں اکثر ایسی جگہ جانا پڑتا ہے جہاں عام حالات میں شاید وہ جانا پسند نہ کرتے ہوں۔

اور ہاں، ان تین ملکوں کا نام کیا تھا جہاں وزرا کو ابھی جانا ہے؟

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32499 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp