دیامیر بھاشا ڈیم کے لئے چندے اور گلگت بلتستان


گلگت بلتستان کی پاکستان میں ایک منفرد حیثیت صرف اس لئے نہیں کہ یہاں سیاح آتے ہیں، یہاں کے ٹو سمیت دنیا کی کچھ بلند و بالا چوٹیاں ہیں، دریائےسندھ یہاں سے گزر کر وادی مہران کے ساحلوں میں گرتا ہے یا پھر سی پیک یہاں سے گزر کر گوادر کو کاشغر سے ملاتا ہے۔ گلگت بلتستان پاکستان کے زبانی بیانیے کے مطابق ایک صوبہ ہوتے ہوئے بھی اس کی مقننہ کے لئے منعقد ہونے والے انتخابات میں حصہ نہیں لیتا اور یہاں کے لوگوں کو اس سپریم کورٹ میں جانے کا حق نہیں جس کا چیف جسٹس اس خطے میں واقع دیامر بھاشا ڈیم بنانے کے لئے پیسے اکھٹے کرنے کی مہم میں مصروف ہے۔

گلگت بلتستان کی پاکستان کے ساتھ وابستگی یہاں کے لوگوں کی 1947 ء میں الحاق کی کوشش کے علاوہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تحت بالالتزام ہے۔ اقوام متحدہ کی قرار داد کے مطابق مطابق مسئلہ کشمیر کے آخری فیصلے تک کشمیر کے تینوں حصوں (ہندوستانی مقبوضہ جموں و کشمیر، پاکستان کے زیر انتظام آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان) کے لوگوں کی معاشی اور اقتصادی خوشحالی کے علاوہ یہاں ایک با اختیار مقامی انتظامیہ کے قیام کی ذمہ داری ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں کے اوپر ڈالی گئی ہے۔

با اختیار مقامی حکومت کی تشریح ہندوستان نے اپنے زیر تسلط علاقے میں اپنے وفاق یا ریاستوں کی یونین میں بطور ایک عبوری ریاست کے کی ہے۔ جموں و کشمیر کے ڈوگرہ مہاراجہ کو معزول کرکے ریاستی اسمبلی کے تحت وزیر اعلیٰ اور کابینہ کے زیر انتظام کردیا ہےاور ہندوستان کی مققنہ میں نمائندگی بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ ہندوستان اپنے موقف میں جموں و کشمیر کو ہندوستان کا اٹوٹ انگ سمجھتا ہے۔

پاکستان نے اپنے زیر انتظام کشمیر کو ایک عبوری آئین کے تحت ایک نیم خود مختار ریاست کا درجہ دیا جس کا اپنا صدر، وزیر اعظم، ریاستی اسمبلی اور کابینہ ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو عرف عام میں آزاد جموں و کشمیر کہا جاتا ہے جس کا اپنا تشخص اور جھنڈا ہے۔ پاکستان اپنے موقف میں جموں و کشمیر کو ایک خود مختار ریاست سمجھتا ہے جب تک اس کا اقوام متحدہ کے زیر اہتمام استصواب رائے کے ذریعے ہاکستان یا ہندوستان سے الحاق نہیں ہوتا۔

پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان کے بارے میں روز اول سے ایک گومگو کی کیفیت ہے جس کا اظہار حکومت پاکستان کے مختلف اداروں کے بیانات میں تضادات کے علاوہ ان کےعملی اقدامات سے نمایاں طور پر ہوتا ہے۔ مثلاً اگر دفتر خارجہ کہتا ہے کہ گلگت بلتستان مسئلہ کشمیر کا حصہ ہے تو وزارت داخلہ اس خطے کو پاکستان کی ایک اکائی قرار دے کر تمام قوانین کا نفاذ کرتا ہے۔ پاکستان کے سپریم کورٹ میں حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان میں مسئلہ کشمیر کے حتمی فیصلے تک کسی قسم کی تبدیلی کے امکانات سے معذوری ظاہر کی ہے تو دوسری طرف یہاں بننے والے بڑے منصوبوں دیامر بھاشا ڈیم اور سی پیک کے لئے کسی سے پوچھنے کی زحمت کو گوارا نہیں کیا۔

تمام تر ناموافق سیاسی اور معاشی حالات کے باوجود گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے لوگوں نے انسانی وسائل کی ترقی کے لئے بڑی جدوجہد کی ہے۔ شرح خواندگی اور تعلیمی معیار میں یہ دونوں خطے اسلام آباد شہر کے بعد پورے پاکستان میں سب سے اوپر ر ہے ہیں۔ الف اعلان کی جس رپورٹ کا ذکر ہوتا ہے اس کے مطابق اسلام آباد وفاقی دارالحکومت کے بعد آزاد کشمیر دوسری پوزیشن کے لئے پنجاب کے مقابلے میں رہا ہے تو گلگت بلتستان نے ہمیشہ تیسری پوزیشن برقرار رکھی ہے۔ لیکن اس ترقی کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم اور انسانی وسائل کی مقامی طور پر کھپت نہ ہونے کی وجہ سے یہاں سے بڑے پیمانے پر ہجرت ہوئی ہے جس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد بیرون ملک کے علاوہ پاکستان کے مختلف شہروں میں آباد ہے جو پاکستان کے عام انتخابات میں حصہ لیتی ہے اور اپنا ووٹ کاسٹ کرتی ہے۔

پاکستان میں رہنے والے گلگت بلتستان کے باشندوں کی سیاسی عمل میں شراکت کے علاوہ 1994ء کے بعد مقامی طور پر بھی پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں متحرک ہیں اور قانون ساز سمبلی کے لئے اپنی جماعتوں کے منشور پر ووٹ لیتی ہیں۔ چونکہ تمام سیاسی جماعتوں نے یکے بعد دیگرے اپنے انتخابی منشور کا اعلان کیا ہے تو گلگت بلتستان کے حوالے سے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا موقف معلوم کرنا قارئین کے لئے دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے سب سے پہلے عام انتخابات 2018ء کے لئے اپنے منشور کا اعلان کیا۔ اس منشور میں گلگت بلتستان کے بارے میں پارٹی نے اپنے عزائم اور اہداف کا ذکر کیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان کی پہلی سیاسی جماعت ہے جس نے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں کے لئے راہ ہموار کی ہے۔ گلگت بلتستان میں ستر کی دہائی میں کی گئی اصلاحات، 1988ء، 1994ء اور اس کے بعد 2009ء کی اصلاحات پیپلز پارٹی کا اس علاقے کے بارے موقف اور اس کی نیت کی عکاسی ہے۔

پیپلز پارٹی کسی حد تک گلگت بلتستان کو پاکستان کے وفاق میں ادغام کی حامی ہے اس لئے اس کے سارے اقدامات کا مطمع نظر یہاں بتدریج مقامی خود مختاری کے ساتھ وفاق میں ادغام نظر آتا ہے۔ اس دفعہ کے منشور میں بھی پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی بطور مبصر دینے کی نیت کا اظہار کیا گیا ہے جو بتدریج وفاق میں ادغام کی طرف ایک قدم نظر آتا ہے۔ گلگت بلتستان کو اٹھارویں ترمیم کے تناظر میں صوبے کا درجہ دینے یا عبوری صوبہ بنانے کا ہدف بھی شامل ہے جو اس کی بتدریج مقامی خود مختاری کی طرف پیشقدی ہے۔ سڑکوں کی تعمیر کے علاوہ وفاق سے زیادہ سے زیادہ اقتصادی وسائل کی فراہمی کا وعدہ بھی ہے۔ پیپلز پارٹی نے وفاق کے ساتھ ہی یہاں انتخابات کرانے کو وعدہ کیا ہے شاید اس کی وجہ مقامی انتخابات کے دوران پاکستان کی وفاقی حکومتوں کی بے لگام اور بے جا مداخلت کو روکنا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف نے بھی اپنے منشور میں گلگت بلتستان کو اہمیت دی ہے۔ منشور میں کیے گئے وعدوں اور اہداف سے یوں لگتا ہے کہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے موقف میں کوئی زیادہ فرق نہیں ما سوائے الفاظ میں ردو بدل کے۔ تحریک انصاف یہاں کی تمام تر مشکلات کی ذمہ دار افسر شاہی کو سمجھتی ہے اور قانون ساز اسمبلی کو زیادہ اختیارات دینے میں اس کا حل دیکھتی ہے۔ تحریک انصاف نے گلگت بلتستان کے لئے سی پیک میں زیادہ سے زیادہ نمائندگی کا ذکر کیا ہے مگر سینٹ یا قومی اسمبلی میں نمائندگی پر خاموش ہے۔ سیاحت، معدنیات اور تونائی کے شعبوں میں سرمایہ کا وعدہ بھی کیا ہے۔ پاکستان کے ساتھ وابستگی کے سوال پر بٹی ہوئی رائے عامہ کے پیش نظر تحریک انصاف نے گلگت بلتستان کی وفاق میں نمائندگی کے بارے میں انتہائی محتاظ موقف اپنا یا ہے تاکہ اس کی حتمی رائے سے کوئی فریق یا اسٹیک ہولڈر ناراض نہ ہو۔

جاتے جاتے گلگت بلتستان آرڈر 2018 ء کے ذریعے 2009ء کے آرڈر میں دیے گئے حقوق بھی سلب کرنے والی ”ووٹ کو عزت دو“ کی علمبردار مسلم لیگ ن نے اپنے انتخابی منشور میں لفظ گلگت بلتستان کو لکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ صرف سی پیک کے اپنے کارنامہ میں خنجراب تک آپٹک فائبر بچھانے کو ذکر ہے یا سوست ڈرائی پورٹ سے لائے گئے چینی ٹرکوں کا جس کا گلگت بلتستان سے نہ تعلق ہے نہ واسطہ۔ مسلم لیگ جس کی اب بھی گلگت بلتستان میں حکومت ہے اس کے اس خطے کے بارے میں ایسی بے اعتنائی اس کی نیت کا اظہار ہے۔

پاکستان کی سیاسی جماعتیں گلگت بلتستان کی معاشی ترقی کو ہی مسائل کا کلی حل سمجھتی ہیں جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ آج گلگت بلتستان میں ایک اعلیٰ تعلیم کا تناسب بہترین ہے جس میں حکومت سے زیادہ لوگوں کی اپنی سرمایہ کاری ہے۔ صرف اسلام آباد میں گلگت بلتستان کے ہزاروں طلبہ مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں جس پر کروڑوں روپے کا ماہوار خرچہ لوگ اپنا پیٹ کاٹ کر اٹھاتے ہیں۔ صرف ایک قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی بنائی گئی تھی جو روز اول سے سفارشی ملازمین بھرتی کرنے اور فرقہ واریت کو ہوا دینے کے علاوہ کوئی کارنامہ سرانجام نہ دے سکی۔ ایک اور یونیورسٹی بنانے کی خبریں ہیں مگر نتائج اس سے بہتر نہیں ہوں گے۔ دیامر بھاشا ڈیم یا سی پیک سے کیا معاشی ترقی ہوگی اس کے بارے میں کسی حکومت یا ریاستی ادارے نے کوئی وعدہ نہیں کیا، لوگوں کو صرف آسرے پر رکھا گیا ہے۔

گلگت بلتستان میں جس سطح پر شرح خواندگی یا اعلیٰ تعلیم کی شرح ہے اسی سطح پر سیاسی، معاشی اور معاشرتی شعور بھی نوجوانوں میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹس اور جریدوں میں اپنے افکار کا اظہار کرنے والوں کی بھی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔ بد قسمتی سے گزشتہ کچھ سالوں سے حق اظہاررائے پر شدید قدغنیں لگائی گئی ہیں جن کا ذکر اقوام متحدہ کی جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر حالیہ رپورٹ میں بھی ہوا ہے اور تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ وزارت داخلہ حکومت پاکستان کی طرف سے انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت یہاں سیاسی کارکنوں، سماجی انصاف مانگنے والے انسانی حقوق کے کارکنوں کی گرفتاریاں اور نقل و حرکت پر بے جا پابندیاں لگائی گئی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے پورے خطے میں تشویش پائی جاتی ہے۔ اگر ریاستی جبر کا یہ سلسلہ نہیں رکا تو نوجوان یہاں سے ہجرت کرنے یا اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے پر مجبور ہوں گے۔

پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے اپنے انتخابی منشور میں گلگت بلتستان میں اظہار رائے کی آزادی پر لگائے گئے قدغنوں اور پابندیوں کا ذکر نہ کرنا اور یہاں سیاسی و سماجی انصاف کی رکاوٹوں کو تسلیم نہ کرنا ماسوائے اتمام حجت کے کچھ نہیں۔ بہتر ہوتا کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشور میں گلگت بلتستان کے حقیقی مسائل اجاگر کرتیں اور ان کا حل ڈھونڈ نکالتیں۔ مگر ایسا نہیں ہوسکا۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan