مقبول ہوتی ”ایم بی ایس ماڈل“ سوچ


آج جس موضوع کو چھیڑنا چاہتا ہوں اس کی طرف آنے سے پہلے یہ واضح کردینا چاہتا ہوں، کہ میرا تعلق شہری متوسط طبقے سے ہے۔ 1960ءکی دہائی میں ہوش سنبھالا تو ہمیشہ یہ خطرہ لاحق رہا کہ حالات کی سختی کسی بھی لمحے نچلے متوسط طبقے کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ جو تھا اس کو بڑھانے کے بجائے اسے بچانے پر ہی توجہ مرکوز رہی۔ محض تعلیم، ایمان داری اور مسلسل محنت کی بدولت زندگی کو معاشی اعتبار سے چالیس برس گزر جانے کے بعد ہی تھوڑا راحت بخش بنا سکا اور اس مقام کو برقرار رکھنے کے لئے بھی میں اور میری بیوی مستقل کسی نہ کسی مشقت میں مصروف رہتے ہیں۔

بظاہر بغیر کسی محنت کے راتوں رات اپنے عہدوں، اختیارات یا رسوخ کی وجہ بے تحاشہ دولت جمع کرکے اسے شرم ناک انداز میں اپنے طرز حیات کے ذریعے نمایاں کرنے والوں سے لہٰذا فطری طورپر گھن آتی ہے۔
میرے دل میں ان کے لئے کوئی ہمدردی نہیں۔

شاید اپنے مخصوص ذاتی حالات ہی کی وجہ سے طالب علمی کے زمانے سے مجھے سوشل ازم کا تصور بہت بھاتا رہا۔ تعلیم مکمل کرلینے کے بعد بھی سرمایہ دارانہ نظام کو ایک سوشلسٹ کی نگاہ سے دیکھتا رہا۔ سرمایہ دارانہ نظام مگر اب روس اور چین جیسے ممالک پر بھی حاوی ہو چکا ہے۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ دنیا بھر کے معاشروں میں اس نظام کا متبادل کہیں موجود ہی نہیں۔ برطانیہ اور خاص کر ناروے اور سویڈن جیسے ممالک میں لیکن ریاست نے ایسے انتظامات کررکھے ہیں جہاں اُمرا سے جمع کیے ٹیکسوں کے ذریعے معاشرے کے غریب ترین طبقات کو رہائش، تعلیم اور صحت کے حوالے سے چند بنیادی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ اقتصادی حوالوں سے مکمل مساوات مگر اب بھی ان ممالک میں موجود نہیں۔ کم از کم برطانیہ کے بارے میں یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ وہاں طبقاتی تقسیم بہت نمایاں اور ناقابل برداشت ہے، جسے ختم کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔

مجھے یہ طویل تمہید باندھنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کیوں کہ گزشتہ چند ہفتوں سے ہماری حکمران اشرافیہ کے بیش تر حصے میں ایک تصور مقبول ہو رہا ہے۔ اس تصور کو مہمیز میری دانست میں سعودی شاہزادے محمد بن سلمان نے پہنچائی جس نے اقتدار پر مکمل گرفت حاصل کرنے کے چند ہی روز بعد اپنے کئی امیر و کبیر قریبی رشتے داروں کو ایک پنچ ستاری ہوٹل میں زمین پر بچھی میٹرسوں پر سلا دیا۔ ہوٹل میں محبوس ہوئے افراد کو واضح طورپر بتادیا گیا کہ سعودی حکومت کی جمع شدہ معلومات کے مطابق ان کی جمع شدہ دولت کی جو تفصیلات ہیں، ان کا بیش تر حصہ وہ ایک چیک کی صورت لکھ کر اس سے دست بردار ہوجائیں تو انہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ وگرنہ تمام عمر انہیں مذکورہ ہوٹل ہی میں محبوس رہنا پڑے گا۔

سعودی عرب میں میڈیا آزاد نہیں۔ ریاست اپنے پاس موجود اعداد و شمار کو منظرِ عام پر بھی نہیں لاتی۔ ٹھوس اعداد و شمار کے ساتھ؛ لہٰذا کسی ماہر معیشت کے لیے یہ طے کرنا ناممکن ہے کہ محمد بن سلمان کے اقدامات سے سعودی حکومت نے محبوس ہوئے افراد سے کل کتنی رقوم وصول کی۔ وہ رقم اب کون سے منصوبوں پر لگائی جارہی ہے جو سعودی معیشت کو بے تحاشہ متحرک اور جان دار بنا دیں گے۔

سعودی عرب کا عام آدمی مگر اپنے شاہزادے کے اقدامات سے بہت خوش ہوا بتایا جارہا ہے۔ عالمی میڈیا ویسے بھی محض اس امر پر بہت شاداں نظر آرہا ہے کہ سعودی عرب میں عورتوں کو گاڑی چلانے کاحق حاصل ہوگیا ہے۔ محض یہ سہولت سعودی عورتوں کو کتنا ”خود مختار“ بنائے گی اس بارے میں کوئی تحقیق نہیں ہوئی۔

بہرحال سعودی عرب کے حالیہ واقعات کو بھلا کر پاکستان کی طرف لوٹتے ہیں جہاں ہماری حکمران اشرافیہ کے بیش تر افراد اس سوچ کی طرف مائل ہو رہے ہیں کہ پا کستان کے چند افراد کو جنہوں نے بینکوں سے بھاری قرضے معاف کروائے ہیں۔ سیاسی عہدوں کی بدولت ملے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مبینہ طورپر اربوں روپے جمع کیے اور غیر ممالک میں قیمتی جائیداد خریدیں۔ ان میں سے نمایاں ترین افراد کو گرفتار کر کے ایسی جیلوں میں بند کردیا جائے، جہاں پینے کو ٹھنڈا پانی بھی میسر نہ ہو۔ حوائج ضروریہ کے لیے ”کھڈی“ استعمال کرنا پڑے۔ زمین پر کمبل بچھا کر سونا پڑے۔ نہانے کو کیا منہ ہاتھ دھونے کو بھی پانی اور صابن نہ ملے۔

یہ سب ہوجائے تو امید دلوائی جارہی ہے کہ پاکستان قید کیے افراد سے چند ہی دنوں میں اتنی رقوم جمع کرسکتا ہے جو نا قابلِ برداشت حد تک پہنچے بیرونی قرضوں سے یک دم نجات دلوانے کے بعد بھی ریاستِ پاکستان کو اتنی دولت فراہم کردے گی جس سے بھاشا جیسے دو تین ڈیم بنائے جا سکیں گے۔

مذکورہ بالا سوچ جسے میں ”ایم بی ایس ماڈل“ کا نام دوں گا، اب میڈیا کی بدولت مزید مقبول ہو رہی ہے۔ عالی جناب چیف جسٹس آف پاکستان بھی اپنے کچھ اقدامات کے ذریعے اس تصور پر عمل درآمد کرتے محسوس ہورہے ہیں۔ ملکی معیشت کی زبوں حالی پر پریشان ہوئی عسکری قیادت بھی اس سوچ کی بھرپور حمایت کرتی نظر آئے تو ایم بی ایس ماڈل پر عمل درآمد نسبتاََ آسان اور یقینی ہو جائے گا۔

اپنی مشقت بھری زندگی کو ذہن میں رکھتے ہوئے جب بھی پاکستان کے لیے ایم بی ایس ماڈل کا جائزہ لیتا ہوں تو ”لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے“ یاد کرتے ہوئے دل اس تصور پر عمل درآمد ہوتا دیکھنے کو مچل جاتا ہے۔ ذہن میں البتہ کچھ یادیں ہیں جو مزا کرکرا کردیتی ہیں۔

پاکستان دولخت ہوجانے کے بعد 1971 میں ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو صنعتوں کو قومیالیا گیا تھا۔ ان دنوں چند سیٹھوں کو ہتھ کڑیاں لگا کر جیل بھی بھیج دیا گیا تھا۔ سچی بات ہے ان دنوں ایسے واقعات سے میں بہت خوش ہوا تھا۔ 1980ء کے بعد سے مگر جس بھی ماہر معیشت کا کوئی مضمون پڑھا یا اس کی لکھی کتاب پڑھنے کی کوشش کی تو ہر ایک نے اپنی بات کا آغاز اس دعوے سے کیا کہ بھٹو نے صنعتوں کو قومیانے کے بعد اس ملک کی معیشت کا ہمیشہ کے لیے بھٹا بٹھادیا تھا۔ حسن عابدی جیسے ذہین و فطین افراد ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ ٹیلنٹڈ لوگوں نے طے کرلیا کہ ان کے لیے پاکستان میں رہنے اور کام کرنے کی گنجایش موجود نہیں رہی۔

بھٹو صاحب کی بات پرانی ہو گئی۔ ہماری حالیہ تاریخ میں اقتدار سنبھالتے ہی جنرل مشرف نے 1999ء‌ میں احتساب بیورو بنایا۔ اس کے سربراہ جنرل امجد نے چند ”بدعنوان سیاست دانوں اور کاروباری افراد“ کو تھانوں میں ”ایم بی ایس“ ہی کی مانند بند کردیا تھا۔ ملکی معیشت مگر ان اقدامات سے جام ہوگئی۔ بالآخر جنرل امجد کی جگہ جنرل خالد مقبول کو لا کر پلی بارگین کا تصور متعارف کروایا گیا۔

جنرل امجد نے جن ”بدعنوان سیاست دانوں“ کو احتساب کے شکنجے میں ڈالا تھا، ان میں سے کئی ایک 2002ء کے بعد جنرل مشرف کے طاقت ور ترین وزرا بھی رہے۔ ملکی معیشت مگر پھلی پھولی تو صرف اس لیے کہ پاکستان نے امریکی صدر بش کی وار آن ٹیرر کا سانجھے دار بننے کا فیصلہ کرلیا۔ میں سمجھ نہیں پا رہا ہوں کہ جنرل امجد کے دنوں کا احتساب بیورو سپریم کورٹ کی سرپرستی میں ایم بی ایس ماڈل پر سختی سے عمل کرنا شروع ہوجائے، تو ہمارے گزشتہ تجربات سے کیسے مختلف ہوگا۔ کاش کوئی ماہر معیشت اس ضمن میں میری رہ نمائی فرمائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).