ایک جھوٹی کہانی کا سچ اور دوسرے افسانے


معروف افسانہ نگار اور علم و ادب نواز جناب اسرار گاندھی کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے۔مختصریہ کہ شہرسنگم یا شہر اکبرو فراق اور شمس الرحمان فاروقی،الہ آباد سے ان کا تعلق ہے۔ ان کا شمار 80کی دہائی میں ابھرنے والی ان ہستیوں میں ہوتا ہے جنھوں نے تجرید سے ماوریٰ جدید افسانے کی بنیاد ڈالی اور اسے پروان چڑھایا۔یہ دور سرمایہ داری،جدید ٹیکنالوجی ،صنعتی انقلاب ،دنیا کی بڑی طاقتوں کے چھوٹی طاقتوں کو ثابت نگل جانے اور ان کے وجود کو مٹانے کے حربوں و منصوبوں نیز سماجی اقدار کی پامالی کا دور تھا۔ایسے وقت میں ہردن نت نئے مسائل و مصائب نے بالخصوص ایشیا کی مشرقی اقدارو روایات کو نگلنا شروع کردیا اور مشرقی اقوام اس یلغار کا مقابلہ نہ کرسکیں۔ نتیجتاً ایک بڑا طبقہ اس طوفان بلا خیز کی زد میں آکر بہتا چلاگیا۔ایسے وقت میں سماج کے حساس طبقات یعنی ادیبوں اور شاعروں نے قوم و ملک کی قیادت کا عزم کیا۔انھوں نے قدروں کی بحالی کے ساتھ ساتھ مغربی چمک دمک کی اصلیت سے آگاہی بخشی اور اپنے قلم،اپنی کاوشیں ،اپنی محنتیں و جدو جہد سب اس کے لیے وقف کردیں۔سامراجی قوتوں کے ناپاک منصوبوں اور صنعتی و ٹیکنالوجی کے انقلاب کی آڑ میں کی جانی والی غیر انسانی منصوبہ بندیوں کا قلع قمع کیا۔بین الااقوامی طبقاتی و انسانی نابرابریوں کی خلیجوں کو پاٹا اور اس عمل نامناسب کے مرتکبین کو درس انسانیت و اتحاد دیا۔انھیں بتایا کہ افریقہ کے کالے بھی انسان اور ریڈ انڈینس کی رگوں میں بھی لال خون گردش کررہا ہے۔ایشیا میں بسنے والے افراد بھی آدم اور منو کی اولاد ہیں اور کیتھولک و آسٹرولک طبقات و مذاہب کے پیروں کاروں کو ان پر کسی بھی قسم کی افضلیت و برتری حاصل نہیں ہے۔ہاں انسانیت کا دوسرا مذہب یکسانیت اور برابری ہے۔اس کے علاوہ کوئی اور مذہب نہیں۔ چنانچہ اس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے اور مشرقی قدریں مغربیت کی زد میں مکمل آنے سے بچ گئیں۔

اسرار گاندھی اسی کارواں کے راہی بلکہ نمایاں حیثیت کے مالک ہیں۔ان کے افسانے دل کی آواز اور ہمارے اندرون کا آئینہ ہیں۔انھوں نے چھوٹے چھوٹے اوربالعموم نظر کر دیے جانے والے موضوعات اور ایشوز کو اٹھاکر انھیں زبان احساس دی ہے اور شرح آرزو کا موقع فراہم کیاہے۔”ایک جھوٹی کہانی کا سچ اور دوسرے افسانے” ایسے ہی افسانوں اور کہانیوں کا مجموعہ ہے۔یہ کہانیاں اپنی ترجمانی خود کرتی ہیں اور اپنا مدعا آپ ہی بیان کرتی ہیں۔کیوں کہ افسانہ نگار نے بھی انھیں زبان دی ہے اور انھیں ہنر تکلم سکھا یا ہے۔وہ خود بھی کہتے ہیں:

“میں اس انتخاب میں شامل اپنی کہانیوں کے تعلق سے کوئی بات نہیں کروں گا۔یہ کہانیاں خود آپ سے مکالمہ کریں گی اور آپ کو کسی نتیجے پر پہنچنے میں مدد کریں گی۔یقین ہے آپ جن نتائج پر پہنچیں گے،ان کا اظہار ضرور کریں گے۔”(اسی کتاب سے۔ص:6)
اس اقتباس کی آخری شرط کی ادائیگی قاری پر قرا ¿تی فریضہ ہے۔کیوں کہ ایک مصنف چاہتا ہے کہ اس کا درد سانجھا ہو۔اس کی بپتا سب کی بپتا بنے اور اس کے کرب کو سب اپنا کرب مانیں ۔وہ اپنے احساسات،وہ اپنے جذبات اور اپنا وقت اپنے لیے نہیں بلکہ قاری اور سماج کے ہرفرد کے لیے صرف کرتا ہے۔چنانچہ اس کی تحریر سے متاثر ہونے،اسے اپنانے اور اسے آفاقی حیثیت دینے میں سب کو حصے داری نبھانی چاہیے۔

اس مجموعے میں شامل کئی افسانے تو جگر چیر گئے۔”پرت پرت زندگی”۔”وہ جو راستے میں کھو گئی”۔”مارکٹنگ”۔”خلیج”۔”نالی میں اگے پودے”۔”شاور کا شور”۔”کھلی آنکھوں کا خواب” یہ ان سے سوا ہیں ۔

کہانی کی بنت ،ہیئت،نفس مضمون،واقعے کی تحلیل نفسی،نفس الامر میں اس کا وجود،اسلوب بیاں،غیر معروف جزیات کا عرفی حیثیت سے بیان،مختصر لفظوں میں بڑی بات کہہ جانا،جمادات کو بھی آمادہ ¿ اظہار خیال کرنا وغیرہ اسرار گاندھی کے فکشن اور افسانوں کے خصوصی اوصاف و امتیازات ہیں۔ان کی تحریروں بولتی ہیں کہ اسرار گاندھی میں زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے بلکہ اس کا نام پتا بھی پوچھا ہے۔اس کا آغاز و انجام بھی جانا ہے اور اسے متعدد مقامات پر بھٹکنے سے بھی بچایا ہے۔کہیں کہیں تو ایسا لگتا ہے کہ زندگی ان کا ہاتھ تھام کر چلی ہے اور کہیں کہیں اس نے ان سے راستہ پوچھا ہے۔”کہرے سے ڈھکی ایک رات”زندگی کے ایک ایسے ہی رنگ کی کہانی ہے ۔زندگی بھٹک گئی تھی۔زندگی کے سامنے اندھیرے آگئے تھے اور وہ دیواروں سے سرٹکراتی پھررہی تھی۔شہروں کی آلودگی،اس کی فضا پر جمی کثافت کی تہیں اور اداس ہوائیں ۔اندھیرا ایسا کہ اپنا وجود ہی انسان کو اجنبی لگے اور وہ اپنے ہی ہیولے سے ڈرجائے۔ایسے وقت میں ہی زندگی تھک کر بیٹھ جاتی ہے یا چاروں طرف پیشانی پر ہاتھ کا چھجا بنا کر راہیں تلاش کرتی ہے۔اسرار گاندھی کہرے سے ڈھکی رات کی منظر کشی اس اچھوتے ڈھنگ سے کی ہے کہ وہ انداز یادگار اور ناقابل فراموش بن گیا۔ایک منظر دیکھیے:

“دم گھٹنے کا یہ تجربہ اس کے لیے نیا نہ تھا۔نہ جانے کتنی بار اس نے پہلے بھی اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس کیا تھا اور نہ جانے کتنی بار پھڑپھڑاہٹ محسوس کی تھی لیکن اس وقت کی گھٹن اور پھڑپھڑاہٹ بڑی جان لیوا ثابت ہورہی تھی ۔اس نے پوری قوت سے اپنے پھیپھڑوں میں جان بھر نے کی کوشش کی لیکن اس عمل سے اس کی تکلیف کم ہونے کے بجائے اور بڑھ گئی۔(اسی کتاب سے۔ص:17)
حالانکہ یہ کیفیت افسانے کے کردار سائیکل سوار کی ہے مگر یہ بھی بعید نہیں کہ اسے زندگی کا استعارہ تصور کر لیا جائے۔جو کسی ایسے مقام پر آکر حواس باختہ ہوجاتی ہے اور اس کا دم اس کے اندرون میں ہی گھٹتا محسوس ہوتا ہے۔اسی دم کوئی مسیحا یا خضر راہ آتا ہے اور اس کی سانسیں درست کرکے اسے نشان رود بتاتا چلا جاتا ہے۔اسرار گاندھی نے یہ دونوں امور نہایت حسن خوبی سے انجام دیے ہیں اور تھکی تھکی سی ،اداس اداس سی زندگی نے متعدد بار ان کے فکرو فن سے نئی زندگی اور نئی رفتار حاصل کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).