شہید ساز (جدید)


آپ نے اس نام سے ملتا جلتا ایک فحش نگار کا لکھا افسانہ پڑھا ہو گا۔ منٹو نام کا یہ فحش نگار بندہ تو جیسا تھا، ویسا تھا، لیکن مجھے اب یہ گمان ہو تا ہے کہ یہ افسانہ اس نے شاید میرے لیے لکھا تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہاں یہ کام ایک شخص نے اپنے ذمے لے رکھا تھا اور میرے افسانے میں قریب قریب وہی کام میں نے اپنی ذمہ داری اور فرض مان کر خود ہی اپنے سپرد کر لیا ہے۔ وہاں بات ایک شخص کی تھی، یہاں بات ایک ادارے کی ہے، ایک ریاست کی ہے، خیر میں تفصیل میں نہیں جاتا، لوگوں کی عادت ہے کہ بات کا بتنگٹر بنا لیتے ہیں۔

میرا نام ، نام میں کیا رکھا ہے، کچھ بھی کہہ لیں، کچھ نا ہنجار مجھے محکمہ ڈاک کہتے رہے، پھر بعض غداروں نے مجھے محکمہ زراعت لکھنا شروع کیا اور کل پرسوں ہی ایک گستاخ بلاگر، جسے میں سبق سکھا چکا ہوں، مجھے محکمہ انہار و آبپاشی کہہ رہا تھا، ہاں بات ہو رہی تھی نام کی، تو مجھے اپنے لیے جو نام پسند ہے وہ ہے حساس ادارہ، وضاحت کرتا چلوں کہ اس کا تعلق کسی اصلی ادارے سے نہیں، اور یہ نام میں نے محض افسانے کے لیے رکھا ہے لہٰذا اسے افسانوی ہی سمجھا جائے، اس کا حقیقت سے چنداں تعلق نہیں، کس شخص یا ادارہ سے مشابہت محض اتفاقیہ ہو گی اور نہ میں اور نہ یہ افسانہ چھاپنے والا ادارہ اس کا قصور وار ہے۔

میں اپنا تعارف کرواتا چلوں، ظاہر ہے کہ بات تعارف کی ہو تو تاریخ  و جائے پیدائش وغیرہ جیسی فضولیات کا ذکر ضروری ہوتا ہے۔ بٹوارے سے، معاف کیجیے گا، تقسیم سے، پھر معاف کیجیے گا، میری ریاست کی آزادی سے قبل ہی میرا جنم ہو چکا تھا اور میری آنکھ ایک کافر ملک میں کھلی جو کہ اس وقت فرنگیوں کے قبضے میں تھا، آزادی کے کافی عرصہ بعد تک میرے کرتا دھرتا چند فرنگی ہی رہے۔

خیر آزادی ملی تو کوئی اور کام تو تھا نہیں، میری رگوں میں خالص مسلمانی خون دوڑ رہا تھا جبکہ میری باگ دوڑ ایک فرنگی کے ہاتھ میں تھی تو میں خود تو کچھ کرنے سے قاصر تھا، خیر اپنا اصلی کام کرنے سے تو اب بھی قاصر ہی ہوں، لیکن وہ بات بعد میں، تو میں نے اپنے تئیں اپنے لیے کام پیدا کرنے کی کوششیں شروع کر دیں، آزادی کے فورا بعد ہی میں نے ایک بہادر، جنگجو قوم کی غیرت کو للکارا اور ایک علاقہ فتح کرنے کی کوشش کی، پورا فتح تو نہ ہو سکا، کچھ ہی ہاتھ آیا، لیکن کوشش تو کی ناں؟

بات کوشش کی ہے، کامیابی و ناکامی تو اوپر والے کے ہات ٹھہری۔ آپ بور تو نہیں ہو رہے ناں، چلیں بات مختصر کرتا ہوں۔

تو آزادی کے بعد ہی میں نے اپنے لیے جگہ بنانا شروع کر دی، شروع شروع میں مجھے کوئی خاص عزت نہیں دی گئی لیکن جلد ہی میری اہمیت کا اندازہ میں نے خود کروانا شروع کر دیا، ہمت مرداں مدد خدا کے مصداق جلد ہی مجھے ریاستی کابینہ کے اجلاسوں میں مستقل جگہ مل گئی، ملک بنانے والے کا حادثاتی طور پر انتقال ہو گیا، بیچارا بوڑھا آدمی تھا، عمر کے اس حصے تک سنکی ہو چکا تھا، بیمار تھا، لاغر تھا اور بات بات پر اصول کی بات کرتا تھا، فرنگیوں کی سی عادتیں تھیں، ہاں ایک بات اس کی بہت پسند ہے کہ میں اس کا نام اور اس کے اقوال کمال مہارت سے استعمال کر کے اپنے عوام کا خون گرماتا رہتا ہوں۔

ہاں تو الزام لگانے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اس بڈھے کھوسٹ کی موت میں کسی کا ہات تھا، ابے ایسا کیسے ہو سکتا ہے، اگر ایمبولینس کا پٹرول ہی مک جاوے، ٹائر پنکچر ہو جائے، تو کسی کا کیا دوش؟ اسے کس نے کہا تھا کہ کراچی سے اس قدر دور جا کر آرام کرو، کہا ناں کہ سنکی تھا، کسی کی سنتا کب تھا خیر مر گیا۔ مجبوراً مجھے اس کے جنازے کو سلامی دینی پڑی، وفاداری بصورت اداکاری بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔

 پھر اس کا ایک اور دست راست تھا، جو اس دھرتی کا تھا ہی نہیں، خواہ مخواہ ہمدرد بنتا تھا اور بات بات میں ٹانگ اڑانا اس کا محبوب مشغلہ تھا، ملک کے شمال وسطی علاقے میں کسی اسٹیڈیم یا گراونڈ ٹائپ جگہ پر جلسہ کر رہا تھا، کسی نے گولی مار دی، گولی مارنے والے کو کسی اور نے گولی مار دی، اور مقدمے کی تفتیش والا فضائی حادثے میں ثبوتوں کے ہمراہ مارا گیا، میرا کیا لینا دینا؟ کچھ ملک دشمن عناصر مجھ جیسے حساس طبیعت رکھنے والے بندہ خاکی پر انگلیاں اٹھاتے ہیں، ایسے لوگوں کی باتوں میں مت آئیے، ان کا کام ہی لوگوں کو گمراہ کرنا ہے، میں چونکہ ذہین تھا لہٰذا اس شخص کو سرکاری طور پر شہید قرار دلوا دیا، یقین مانیں کہ یہ پہلا کام تھا جس سے قلب و روح کو تسکین ہوئی کہ مارا کسی نے بھی ہو لیکن حادثاتی مرنے والا تو شہید ہوتا ہے۔ یہاں سے ایک خیال میرے دماغ میں آیا۔

آزادی سے پہلے ہی میرے کچھ کاروبار کام وغیرہ کام دھندے چل رہے تھے، کچھ زرعی زمینیں تھیں، ایک آدھ کارخانہ تھا جس سے کچھ آمدن کی صورت ہو جاتی تھی، جب اپنے گھر کی حفاظت کی ذمہ داری آپ کے کاندھوں پر ہو تو خرچہ تو چاہیے ہی ہوتا ہے تو میں نے سوچا چلو کوئی اور کام دھندا شروع کرتے ہیں، تب تک کچھ سیاستدان اور کچھ بیوروکریٹ (جنہیں لایا میں خود ہی تھا) بہت ہی بیوقوف نکلے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3