الیکشن 2018: شناختی کارڈ سے محروم تھرپارکر کی خواتین


لیلا تارومل

لیلا جیسی لاکھوں خواتین رواں برس بھی اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے سے محروم رہیں گی

’نادرا دفتر کے چکر کاٹتے چار برس ہو گئے، اب تو میں تھک گئی ہوں۔ رشوت تک دی مگر کچھ نہیں بنا۔‘

شناختی دستاویزات کی تلاش میں سرگرداں تھرپارکر کی ہندو دلت برادری سے تعلق رکھنے والی لیلا تارومل کے چہرے اور باتوں دونوں سے تھکن نمایاں تھی۔

وہ چار برس سے شناختی کارڈ بنوانے کی کوشش کر رہی ہیں کیونکہ آج کے پاکستان میں کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کے بغیر زندگی بہت مشکل ہے۔

بی بی سی اردو کی خصوصی الیکشن کوریج

’میں نہ تو بینک اکاؤنٹ کھول سکتی ہوں، نہ انکم سپورٹ پروگرام کے تحت مدد لے سکتی ہوں۔ نہ ہی میں ووٹ ڈال سکتی ہوں۔‘

پاکستان میں انتخابات کا موسم ہے اور 25 جولائی کو ملک میں قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے ووٹ ڈالے جانے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق پاکستان میں ووٹ دینے کی اہل خواتین کی تعداد چار کروڑ سے زیادہ ہے جن میں سے ایک کروڑ 21 لاکھ 70 ہزار ایسی ہیں جو ووٹر فہرستوں میں شامل نہیں۔

لیلا کی طرح یہ خواتین اس مرتبہ بھی اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے سے محروم رہیں گی۔ بڑی وجہ ہے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کا نہ ہونا جس کی وجہ سے ان کا نام انتخابی فہرستوں میں شامل نہیں کیا گیا۔ صرف ضلع تھرپارکر میں تقریبا چالیس فیصد خواتین ایسی ہیں جو شاختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ووٹ نہیں دے پائیں گی۔

تھرپارکر

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق ضلع تھرپارکر میں خواتین ووٹرز کی تعداد ڈھائی لاکھ سے زیادہ ہے

چند کلومیٹر دور درجن بھر خواتین تلسی بالانی کی رہائش گاہ پر جمع تھیں۔ تلسی بھی ایک دلت ہیں اور وہ آنے والے انتخابات میں ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لے رہی ہیں۔ ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ ان کے ووٹرز اور حمایتیوں کی بڑی تعداد کے نام انتخابی فہرستوں میں شامل ہی نہیں۔

جب ہم وہاں پہنچے تو پاکستانی شناختی کارڈ ہاتھ میں پکڑے تلسی خواتین کے ایک گروپ سے خطاب کر رہی تھیں۔ ’یہ کارڈ بہت اہم ہے۔ یہ ثبوت ہے کہ تم ایک پاکستانی شہری ہو۔ اگر تم بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم چاہتی ہو تو اس کے لیے بھی یہ ضروری ہے۔‘

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق ضلع تھرپارکر میں خواتین ووٹرز کی تعداد ڈھائی لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ مزید دو لاکھ ایسی ہیں جن کا انتخابی فہرستوں میں اندراج ہی نہیں ہے۔

تلسی کے خیال میں اگرچہ خواتین کے پیچھے رہنے کی وجہ نہ جاننا ہے لیکن اصل وجہ غربت ہے۔ وہ کہتی ہیں ’ان میں سے اکثریت کے پاس دینے کے لیے فیس ہی نہیں اور وہ دوردراز علاقوں سے رجسٹریشن دفتر تک سفر کا خرچ بھی برداشت نہیں کر سکتیں۔‘

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’بسا اوقات ان کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے بہن بھائیوں یا دیگر اہلخانہ کو ساتھ لے کر آئیں یا دیگر دستاویزات لائیں۔ یہ سب ان کے لیے قریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔‘

تھری خواتین

تھرپارکر کی دو لاکھ خواتین کا انتخابی فہرستوں میں اندراج ہی نہیں ہے

تلسی کے مطابق ’ان میں سے کچھ ایک دو مرتبہ جاتی ہیں اور پھر ہمت ہار بیٹھتی ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

‘ہندو اور مسلمان ووٹروں میں کوئی تفریق نہیں‘

‘میں نے اپنی مخالفت کو ہی اپنی طاقت بنایا ہے’

الیکشن 2018: ’ایک عورت ہو کر کیسے سیاست کر لی‘

دس فیصد خواتین ووٹرز کے لازم ہونے پر تحفظات

لیکن اس سے نہ صرف ان کی سیاسی آواز دب رہی ہے بلکہ یہ معاشرے کے حفاظتی حصار سے بھی باہر رہ جاتی ہیں۔

حالیہ برسوں میں ضلع تھرپارکر نوزائیدہ اور شیرخوار بچوں کی اموات کی وجہ سے بھی خبروں میں رہا ہے۔ حکومت نے یہاں ماں اور بچے کی صحت کے لیے کئی سکیمیں تو شروع کی ہیں لیکن یہ خواتین شناختی کارڈز نہ ہونے کی وجہ سے ان سے استفادہ نہیں کر پاتیں۔

تھرپارکر میں نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی کے ضلعی افسر پرکاس نندانی کا کہنا ہے کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ان خواتین کو شناختی کارڈ بنوانے کے لیے راغب کرنے میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے کیونکہ اس پروگرام کے تحت مالی امداد حاصل کرنے کے لیے شناختی کارڈ کی موجودگی ایک لازمی شرط ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ چند برسوں میں تھرپارکر کی ہزاروں خواتین نے شناختی کارڈز کے لیے درخواستیں اسی لیے دیں تاکہ وہ حکومت سے مالی مدد اور مفت گندم حاصل کر سکیں۔‘

تلسی

تلسی کا کہنا ہے کہ وہ خود خواتین کے ساتھ جا کر دستاویزات پوری کرنے میں ان کی مدد کریں گی

نادرا نے اس علاقے میں خواتین کے لیے شناختی کارڈ بنوانے کی فیس بھی ختم کی تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں شناختی دستاویز حاصل کر کے ووٹ ڈالیں تاہم اب بھی ہزاروں خواتین ایسی ہیں جو اس لازمی شناخت سے محروم ہیں۔

تلسی اس صورتحال کے باوجود پرعزم ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ خود خواتین کے ساتھ جا کر دستاویزات پوری کرنے میں ان کی مدد کریں گی۔

ان کا کہنا ہے کہ’یہ ہماری دلت برادری کے لیے ایک سیاسی دھچکا ہے۔ یہ وہ وجہ ہے کہ ہمیں سیاسی میدان میں سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا اور ہماری کوئی پروا نہیں کرتا کیونکہ ہمارے لوگ الیکشن میں ووٹ ہی نہیں ڈالتے۔‘

تلسی کے مطابق ان کی برادری اب اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم خواتین کی شناختی دستاویزات نہ ہونے کا مسئلہ صرف تھرپارکر تک محدود نہیں ہے اور اس کے حل میں وقت لگے گا اور 2018 کے انتخابات میں یہ لاکھوں خواتین اپنے حقِ رائے دہی کے استعمال سے محروم ہی رہیں گی۔


الیکشن 2018


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp