سندھ دھرتی سے بچھڑے سندھیوں کی کہانیاں


اصل میں یہ ٹی وی پر لئے گئے انٹرویوز ہیں اُن لوگوں کے جنہوں نے بٹوارے کے بعد اپنے گھر بار چھوڑے اور ہجرت کادرد سہا کوئی پنچھی بھی اپنا آشیانہ خوشی سے نہ چھوڑتا تب انسان کی تو بات ہی اور ہے جومجبوری میں اپنا سب کچھ چھوڑ کے انجان راہ پر چل نکلتے ہیں یہ انٹرویوز مشہورسندھی کمپیئرز ڈاکٹررام جواہرانی نے لئے تھے جس کو بعد میں کتابی شکل دی گئی ہے اس کتاب کوحکومت سندھ کی طرف سے انعام بھی دیاگیا ہے۔

رتودیرو کے رام سچانند جواہرانی نے سندھ کو تب چھوڑا جب وہ محض گھٹنے کے بل ہی چل چل پاتا تھاجسمانی طور پرتو وہ چھوٹی سی عمرمیں سندھ سے جداہواتھا پر روحانی رشتے سے ابھی تک سے جڑا ہوا ہے۔ یہ جوبھی کچھ ہے محبت کا پھیلاؤ ہے۔

ہندوستان میں رام جواہرانی کے زمیندار خاندان نے تجارت کی جاکر تجارت کا کام شروع کیا تھا رام جوہرانی نے ہندوستان میں سندھ کو زندہ رکھنے کے لئے مستقل جدوجہدجاری رکھی ہے۔
ڈاکٹر رام جوہرانی سھیوگ فاؤنڈیشن، مالھی کلچر اَکیڈمی، گلوبل سندھی کاؤنسل، مہارا شڑیہ سندھی اَکیڈمی اور بہت سی تنظیموں میں مصروف عمل ہیں۔
ڈاکڑ رام جوہرانی کا بڑا کارنامہ رام پنجوانی پہ پی ایچ ڈی کرنا بھی ہے یہ پی ایچ ڈی انہوں نے پروفیسر ڈاکڑ بالدیو متلانی کی نگرانی میں کی ہے ڈاکٹر رام جوہرانی نے سہیوگ فاؤنڈیشن میں اتنی محنت اور عقیدت سے کام کیا ہے کہ اب ممبئی میں ایک چوک کا نام سہیوگ رکھ دیا گیا ہے۔

ہجرت کے عذاب کے مارے ہندو سندھی لوگوں نے جاکر الہاس نگر بسایاتھا پر اب بھی وہاں کثیر تعداد میں موجود ہیں کافی اور تو پورے ہندوستان میں پھیل چکے تھے جس کو جہاں نصیب لے گیا تھا۔
ڈاکٹر رام جوہرانی نے الہاس نگرمیں سے ہندوسندھی لوگوں پر ڈاکیومینڑی بھی بنائی جو دور درشن ٹی وی پر دکھائی گئی تھی کتاب سندھی سرویچ ہندو سندھی لوگوں کو لئے ایک قومی ورثے کی صورت اختیار کر چکی ہے اصل میں یہ انگریزی زبان میں چھپی تھی جس کو سندھی میں تر جمعہ کر کے سندھ میں بھی پہنچایا گیا ہے یہ ممتاز سندھیوں کے انٹرویوز ہیں جنہوں نے وہاں جاکرمختلف میدانوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں۔

کتاب پڑھنے سے پہلے نہ میں نے کبھی اس بارے میں سوچا تھا نہ ہی مجھے احساس تھا کہ یہاں شاہوکار زندگی گزارنے والے جو محلو ں میں رہتے تھے انہوں نے اپنی شروع زندگی میں کتنی تکلیف سہی تھی پل پل سندھ کو یاد کیا تھا یہ یاد ان کی روح میں زخم کی طرح ہمیشہ ہرے ر ہے وہ عذاب کے سمندر سے کیسے گزرے تھے یہ لوگ یہاں سے خالی ہاتھ گئے تھے پراپنے حوصلے ہمت لگن سے کامیاب ہوئے۔

کلیان کیمپ جیسی کیمپئن اصل میں فوج کے نچلے طبقے کے لئے بنائی گئی تھیں جہاں یہاں سے آرام دہ زندگی گزارنے والے جاکے ر ہے تھے اعلیٰ خاندان کی عورتوں کے لئے باتھ روم تک نہ تھے جو تھے بہت ہی بری حالت میں تھے پر یہ لوگ نئے سرے سے جینے کا وعدہ کر کے آگے بڑھنے لگے۔

بٹوارے کے بعد یہاں سے لاکھوں کی تعداد سے ہندوسندھ چھوڑنے لگے تھے کچھ کے راجہ نے سندھیوں کو اپنی رعایا تسلیم کر کے 5ہزار ایکڑ پر مشتمل ان لوگوں کو نیا سندھ بنانے کے لئے دینے کا اعلان کیا جو یقیناً مستقبل میں کنڈلاپورٹ کی وجہ سے سونے جیسی ہونی تھی۔

پر یہاں گزر بسر کے لئے کچھ نہ تھا۔ یہاں سانپ، بچھو ڈھونڈ کے بیچے جاتے تھے۔ یہاں نہ روڈ راستے تھے نہ پینے کے لئے پانی کاہی کوئی مناسب انتظام تھا۔ یہاں سے خالی ہاتھ جانے والوں کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ حالات بدلنے کا انتظار کرتے۔

نتیجہ یہ نکلا کہ سندھی پورے ہندوستان میں پھیل گئے۔ جس کو جہاں موقع ملا کام میں جت گیا۔ گاندھی دھام تو بن گیا تھا اس لئے غیر سندھیوں کی اکثریت وہاں آباد ہوگئی۔
تعلیمی کھاتے سے تعلق رکھنے والوں نے وہاں جاکر اسکول کھولے اور سندھی پڑھانے لگے۔ پندرہ بیس سال کے بعد سندھی کے شاگرد کم ہونے سے اسکول بھی بہت کم ہوگئے۔ جو سندھی ہندوستان کے جس علاقے میں رہتا تھا وہاں کی بولی کے اثر میں آنے لگا۔ سندھی اگر پڑھائی بھی جاتی تو شاگردوں کی سہولت کے لئے دیونا گری لپی میں پڑھائی جاتی۔

اب سندھی زبان اس جگہ پے آگے جو عربی لپی میں سندھی پڑھتے آئے تھے وہ دیونا گری میں سندھی پڑھنے سے لاچار تھے یہی حال دیوناگری میں پڑھنے والوں کا بھی تھا بلکہ ابھی تک یہی صورتحال ہے۔
سندھی شاگرد نہ ہونے سے سندھی اسکول بند ہوگئے۔

شاہ کا رسالہ، سامی کے سلوک، سچل کا کلام جس کی وجہ سے سندھی بولی کا شمار شاھوکار بولی میں ہوتا ہے۔ سو وہ وہاں ان کے بغیر ہی چلنے لگی۔
ابھی تک تو سندھیوں کو اس کا ادراک نہ تھا پر جب طوفان تھما سندھیوں نے اپنے پیر زمین پر جمائے تو ان کو احساس ہوا کہ یہ کیا ماجرا ہوگیا ہے۔ سندھی بچوں کی اکثریت سندھی نہیں پڑھ سکتی تھی کافی حدتک تو اب بھی نہیں پاتی۔

سندھی بچے اپنی ماں کی بولی سے بہت دور ہوگئے ہیں۔ ایک تو ان کے پاس اپنی زمین ہی نہیں تھی دوسری بولی بھی ہاتھ سے نکل چکی تھی۔
ہر سال جب ہر اسٹیٹ اپنے ادیبوں، شاعروں، فنکاروں کو انعام اکرام دیتی تو سندھی اپنے آپ کو یتیم محسوس کرتے تھے۔
گاندھی دھام میں صرف ادیپورسے گزرتے ہی محسوس ہوتا کہ یہ کوئی سندھی آبادی ہے۔
کیرت بابانی جس کو سندھی کا نمائندہ تصور کیا جاتا تھا انہوں نے 52ادیبوں کو ساتھ کے کرپارلیمنٹ کے سامنے احتجاجی بھوک ہڑتال کی کہ ہماری بولی کو بچاؤ۔ آخر کار نتیجہ کامیابی کی صورت میں نکلا اور سندھی کو سرکاری زبان کا درجہ مل گیا۔

سندھی برادری نے اپنی تنظیمیں بناکر اپنے ادیبوں شاعروں کو ایوارڈ دینے شروع کیئے۔ اس سے نسبت محرومی کا احساس کچھ کم ہوگیا۔
مشہور فلم پروڈیوسراین این سپی کہتے ہیں کہ وہ سندھ سے سینما کیسے لے کے آسکتے تھے۔ آگے وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے شوق میں ایک سندھی فلم بھی ہندوستان میں بنائی تھی جس کا نام تھا ہل تہ بھجی ہلوں اس کا ترجمہ ہے چل بھاگ چلیں۔ یہ فلم ناکام ہونے سے شوق بھی ختم ہوگیا۔ ان کے خیال میں ہجرت زحمت بھی تھی تو رحمت بھی ہے یہاں آکر سندھیوں کو اچھے مواقع ملے ہیں۔
مرلی دھر جیتلے اپنی یادیں بتاتے ہوئے کہتے ہیں میرے ماسٹر نے تو کہا تھا بٹوارے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا بس یہ ہوگا کہ اتوار کے بجائے جمعے کو چھٹی ہوا کریگی۔

نارنجن ہیر ا نندانی جب اپنی جنم بھومی ٹھٹھہ دیکھنے آئے تو ڈان کے رپورٹر نے پوچھا کیسا محسوس کر ر ہے ہیں؟ تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے جواب دیا کہ جیسے آپ مکے مدینے جاکے محسوس کرتے ہیں وہی میں بھی محسوس کررہا ہوں۔

رام جیٹھ مُلانی کا خیال ایک بہت بڑے قانونی مدبر اور سندھیوں کے رہنما بتاتے ہیں کہ ساری دنیا گھوما ہوں پر شکار پور جیسا شہر پوری دنیا میں نہیں ہے۔ شکار پور میں موتی قلفی ایک آنے کی اتنی ملتی تھی کہ اس کے بعد کھانے کی ضرورت نہ رہتی۔
رام جیٹھ مُلانی کے خیال سے ہم عربی لپی نہیں چھوڑ سکتے کہ شاہ لطیف سچل سامی کو نہیں چھوڑ سکتے۔

یہ بھی ہے کہ حالات کچھ ایسے ہیں پر ایسا بھی نہیں کہ ہندوستان کے سندھیوں نے سندھی کو بھلادیا ہو۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر بالدیو متلانی نے سندھی زبان کو وہاں 6ایم فل تو 6پی ایچ ڈی دیے ہیں۔ وہ جاپانی سرکار کے کہنے پر جاپان میں جاپانیوں کو بھی سندھی پڑھا تے آئے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب میں نے اپنے جاپانی شاگردوں کو بیٹی کی شادی کی دعوت دی تو میرے شاگردوں نے سندھی میں خط لکھ کر مبارکبادی۔ ڈاکٹر بالدیو متلانی نے حالیہ دنوں میں سندھی اخبار عوامی آواز میں اپنی زبردست سوانح حیات بھی لکھی ہے۔ ایک دفعہ ایک پروگرام میں انہوں نے ایک کرسچن لڑکی سے طالب مولیٰ کا کلام بھی گوایا تھا۔

ڈاکٹر ایل یچ ہیرا نندانی نے اپنا بچپن ٹھٹھہ کی گلیوں میں بتایا۔ وہ بتا تے نہیں کہ وہ لوگ غریب تھے۔ گھر والوں کا ایک آنا بچانے کے لئے وہ 2 کلو میٹر دور سے کندھوں پر پانی لاتے تھے۔ وقت بدل گیا جب قائد اعظم نے جب ایف۔ آر سی۔ ایس ڈاکٹر کا پتا کرنے لگے تو وہ وہی ڈاکٹر ایل ایچ ہیرا نندانی ہی تھے۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2