ہمارے ڈیمز کا خواب کہیں ہماری تباہی کا خواب تو نہیں؟


پچھلے چند سالوں میں ہونے والی تحقیق نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ زمین کے نقصان کے علاؤہ ہمارے ساحل بھی زمین میں دھنستے جارہے ہیں اور اس کی وجہ بھی اس مٹی اور سلٹ کی کمی ہے جو دریا قدرتی طور پر اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ تمام ساحلی شہر اس وقت شدید خطرے سے دو چار ہیں۔ آبپاشی کے ہمارے موجودہ نظام نے دریا اور سمندر کے ملاپ سے بننے والی قدرتی کھاڑیوں کو تقریبا تباہ کر دیا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سطح سمندر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ سندھ کا ساحل بںیادی طور پر ایک ریتلا ساحل ہے جہاں چٹانیں موجود نہیں ہیں اور سندھ کے اکثر ساحلی شہر سطح سمندر سے نیچے ہیں۔

اس جغرافیائی حقیقت کو اس بات کی روشنی میں دیکھیں کہ یہ ساحل اپنی بقا کے لیے دریاؤں کے بہاؤ پر منحصر ہیں اور پھر سوچیں کہ ہم ایک پہلے ہی سے تقریبا ناموجود بہاؤ کو مزید متاثر کر کے کیا کمائیں گے۔ 2016 میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں منگلا، تربیلا اور کوٹری سے پہلے اور بعد کے بہاؤ کے اعدادوشمار موجود ہیں جو خود اپنی جگہ ہوشربا ہیں۔ سپارکو نے سندھ کی وڈی کھڈی کریک کا مصنوعی سیاروں سے معائنہ کر کے یہ بتایا ہے کہ سمندر 2 کلومیٹر سے زیادہ زمینی علاقے میں گھس آیا ہے۔

عام حالات میں دریا کے قدرتی بہاؤ اور نچلے اور درمیانے درجے کے سیلاب دریا کے آس پاس کی زمین کو زرخیز بناتے ہیں۔ قابل کاشت اراضی میں اضافہ ہوتا ہے اور جنگلات نشونما پاتے ہیں۔ اگر یہ بہاؤ بڑے ڈیمز کی وجہ سے ایک خاص حد سے نیچے چلا جائے تو زمین کے کٹاؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔ ریتلے کنارے بن جاتے ہیں۔ دریائی ڈیلٹا کی سطح نیچے چلی جاتی ہے۔ جنگلات اور خودرو جھاڑیاں ختم ہو جاتی ہیں اور جب بھی اونچے درجے کا سیلاب آتا ہے تو وہ انتہائی تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ پاکستان کے تباہ کن سیلابوں کی وجہ ڈیمز کا نہ ہونا نہیں ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ بڑے ڈیم اونچے درجے کے سیلاب کا پانی ذخیرہ نہیں کر پاتے کیونکہ ان میں سلٹ کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے اور اس کو ذخیرہ کرنے سے ڈیم کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ایسے سیلاب کے موقع پر آبی گزرگاہوں پر موجود سپل وے کھلے رہتے ہیں۔ سیلاب مار کرتا زیریں علاقوں تک پہنچتا ہے جہاں عام حالات میں پانی کی شدید کمی کے باعث قدرتی دفاعی نظام ناپید ہوتا ہے اور پھر جو ہوتا ہے وہ ہم سب نے دیکھا ہے۔

ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ بارشوں میں کمی کی ایک وجہ دریاؤں کے قدرتی بہاؤ کا متاثر ہونا بھی ہے۔ واٹر سائیکل یا نظام آب بڑے سادہ اصول پر کام کرتا ہے۔ سمندر سے بادل بنتے ہیں جو زمین پر سفر کرتے ہوئے بارش برساتے ہیں۔ دریا یہ پانی واپس سمندر میں لاتے ہیں۔ پھر دوبارہ آبی بخارات سے بادل بنتے ہیں اور یوں یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ دریا کا قدرتی بہاؤ متاثر ہونے سے ساحلی علاقوں میں بخارات بننے کا عمل بھی سست پڑ جاتا ہے اور نتیجہ بارش کی کمی کی صورت برآمد ہوتا ہے۔

بڑے ڈیمز سے اب بجلی کی پیداوار بھی ایک فرسودہ نظریہ ہو گیا ہے۔ اب رن آف دی ریور بجلی گھروں پر توجہ مرکوز ہے جہاں کم لاگت اور کم ماحولیاتی تغیر سے کافی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ دریائے نیلم پر موجود بھارت کا کشن گنگا اور پاکستان کا نیلم جہلم پراجیکٹ اس کی مثال ہیں۔ یہ پراجیکٹ کم مدت میں تیار ہوتے ہیں اور ان کی لاگت بھی ڈیمز سے بہت کم ہوتی ہے۔ اگرچہ نیلم جہلم کے معاملے میں ہمارا ریکارڈ اس تاثر کی مکمل نفی کرتا ہے پر اس کی وجہ ہماری اپنی نا اہلی ہے۔

آپ تحریک انصاف کو لاکھ برا بھلا کہیے اور یہ بھی قابل بحث امر ہے کہ زمینی حقائق کیا ان کے دعووں کی توثیق کرتے ہیں یا نہیں پر مائیکرو ہائیڈل پراجیکٹ اور بلین ٹری سونامی جیسے منصوبے اس ملک کی بقا کے لیے میٹرو بس اور اورنج ٹرین سے سینکڑوں گنا زیادہ اہم ہیں اور ہمیں اسی سمت توجہ مرکوز رکھنی ہے۔

ہمارے شہروں اور قصبوں میں زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گر چکی ہے۔ ہمارے دریاؤں میں گرنے والے فضلاتی نالوں نے ان کا حلیہ بگاڑ ڈالا ہے۔ صاف پانی کا ذخیرہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے پاس بارشی پانی کو ہارویسٹ کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ اس حوالے سے بھارت کی کیرالہ ریاست میں کیے جانے والے اقدامات ہمارے لیے مشعل راہ ہو سکتے ہیں اگر ہم ادھر دیکھنا چاہیں تو۔ ہمارے ملک میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی شدید ترین قلت ہے۔ دنیا جن ذرائع کو حرز جان سمجھتی ہے ہمارے یہاں ان کا وجود تک نہیں ہے۔

ہمیں چھوٹے ڈیم بنانے ہیں۔ ویٹ لینڈ پراجیکٹس پر کام کرنا ہے۔ جنگی بنیادوں پر شجر کاری کرنی ہے۔ آبی گزرگاہوں کو صاف کرنا ہے۔ آبپاشی کے جدید طریقہ کار متعارف کروانے ہیں۔ بارشی پانی کو ذخیرہ کرنے اور سینچنے کے شہری منصوبوں کو تشکیل دینا ہے۔ مائیکرو اور منی ہائیڈل پراجیکٹس پر توجہ لگانی ہے۔ پانی کے قدرتی بہاؤ کو ہر ممکن حد تک بحال کرنا ہے۔ یہ ہیں کرنے کے کام پر ہم ایسے ڈیمز کے خواب دیکھ رہے ہیں جو شاید خوشحالی سے زیادہ تباہی کے پیمبر ہوں۔ ذرا سوچیے۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad