ہم اختلاف رائے برداشت کرنے سے قاصر ہو چکے ہیں


الیکشن 2018 کے قریب آتے ہی سوشل میڈیا میدان جنگ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ عام عوام سے لے کر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے منسلک افراد اپنے اپنے تجربات پہ مبنی تجزیات اسٹیٹس اور ٹویٹس کی شکل میں پیش کرتے نظر آ رہے ہیں۔

مختلف لوگ اور مختلف تجزیات، کسی  کو عمران خان اس ملک کی آخری امید نظر آتا ہے تو کسی کو اس میں طالبان خان دکھائی دیتا ہے، کسی کے لیے بھٹو زندہ ہے تو کوئی پیپلز پارٹی اور اس کی کارکردگی سے ناخوش۔ کوئی ایم کیو ایم سے پرانی وابستگی کا دم بھر رہا ہے اور کہیں بے وفائی کا عنصر نظر آتا ہے۔

غرضیکہ ہر شخص اپنے اپنے تجربات کے مطابق ایک پارٹی کو خرابیوں سے مبرا سمجھ کے دوسری پارٹی کے حامیوں کے لیے لعنتوں اور ملامتوں کا بازار گرم کیے ہوے ہے۔

اس سب کے بیچ ایک ٹولہ وہ بھی ہے جسے کسی پارٹی کو ووٹ نہیں دینا لہٰذا وہ ہر اس شخص کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے جسے ووٹ دینا ہے۔

ایسے لوگ “محبان وطن” کا مذاق اڑاتے بھی نظر آتے ہیں اور ان کو بے وقوف اور اندھا ہونا جیسے القابات سے بھی نوازتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف اس ہی ٹولے کو محب وطن “اینٹی پاکستان” اور “اینٹی اسٹیبلشمنٹ” جیسے القابات سے نوازتے ہیں۔

گویا الیکشن نہیں میدان جنگ ہے۔

ہر جانب سے جمہوریت، آمریت کی صدائیں بلند ہیں۔

اس سب کے بیچ میں مَیں ایک صحافت کی طالب علم کی حیثیت سے اس سوچ میں پڑ گئی ہوں کہ سچ کیا ہے؟

اور میں اس نتیجے پہ پنہچی ہوں کہ ہر شخص کا سچ دوسرے فرد سے مختلف ہے۔

آج کریم سروس سے گھر آتے ہوئے ڈرائیور نے مجھ سے شاید بات کرنے کا موقع تلاش کرنے کے لیے یونہی کہا “کل ہمارے پشاور میں بڑا دھماکا ہوا”۔ میں نے جواب میں بس اتنا ہی کہا ’’مجھے بہت افسوس ہے‘‘۔

لیکن شاید اس کا سچ مختلف تھا تو وہ فورا بولا “ہمیں بالکل نہیں ہوا، یہ سب ہندو لوگ تھے جو مرے، یہ انڈیا کے ایجنٹ تھے”۔

اور میں اس سوچ میں پڑ گئی کہ انسانی جان کی حرمت کا کیا بنا؟ ہم اختلاف میں حد سے اتنا بڑھ جاتے ہیں کے ہمیں دوسرے انسان کی جان کی بھی پرواہ نہیں۔

وہ خوش تھا کہ ایک انڈیا کا ایجنٹ مر گیا کیونکہ اس کے لیے سچ یہی تھا۔ وہ میرا سچ سننے کے لیے تیار نہیں تھا لہذا میں نے کوشش بھی نہیں کی۔

لیکن ایک بات سمجھ میں آگئی۔ ہم سب اپنی اپنی زندگیوں میں چاہے وہ مذہب ہو یا سیاسی اختلاف، کسی دوسرے کا سچ سننا نہیں چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے مسائل بڑھ رہے ہیں لیکن حل پیش کرنے والا کوئی نہیں۔ روز سوشل میڈیا پر آکر ہم ناانصافیوں اور ظلم کے خلاف آواز تو اٹھاتے ہیں لیکن ہمارے حالات بد سے بد تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

ایک بات تو ثابت ہے، جس قوم کے نوجوان ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں مصروف ہوں وہاں بہتری کی جانب پہلا قدم کون رکھے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).