ذرائع ابلاغ الیکشن کی زد میں


الیکشن کی سنسنی خیزی پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔ سوچتی ہوں اگر ہمارا برقی ذریعہ ابلاغ اتنا برق رفتار نہ ہوتا جتنا ان دنوں اپنی ذمے داری نبھا رہا ہے تو کیا ’الیکشن‘ کے اثرات گھر بیٹھے ناظرین پر اتنے گہرے مرتب ہوتے؟ یہ سوال ذہن میں گردش کرتے ہوئے سوالات اور خیالات کے کتنے ہی دائرے بنا رہا ہے۔

جن دنوں میں صحافت کی تعلیم حاصل کر رہی تھی، مجھے یاد ہے میں نے صحافت کے اصولوں پر مبنی باب کو بارہا پڑھا۔ مجھے اب تک اپنی کتاب میں موجود اس باب کے اسباق کی ترتیب پوری طرح یاد ہے۔ مجھے یاد ہے کہ آزاد ی صحافت کے موضوع پر دیے جانے والے ایک لمبے چوڑے لیکچر کے بعد آزادی صحافت کی حدود کا تذکرہ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد بالترتیب صحافی اور قانون، مثالی ضابطہ اخلاق، مدیران، مالکان اور کارکن صحافیوں کا ضابطہ اخلاق، قانونِ صحافت و مطبوعات قانون، توہین عدالت، ہتک عزت یا ازالہ حیثیت عرفی کا قانون، حقوق اشاعت یا کاپی رائٹ کے قوانین، غرض یہ کہ صحافت کی آزادی اور ذمے داری سے متعلق تمام قوانین اور اصولوں کا تذکرہ کیا گیا تھا۔

میرے قوانین و ضوابط صحافت کو اتنے انہماک سے پڑھنے کی خاص وجہ تھی۔ چونکہ میں نے بچپن ہی سے اپنے گھر میں انقلابی اور سیاسی سرگرمیاں دیکھیں، اس حوالے سے بحثیں سنیں، سو ملکی حالات پر، مذہبی مسائل و اختلافات اور اپنے اردگرد ہونے والے واقعات پر نظر رہتی، خبروں سے دل چسپی رہتی اور ذہن ان کے بارے میں سوچتا رہتا۔ اس کے ساتھ ہی زرد صحافت کے تذکرے اور عملی تصویر سے شدید الجھن ہوتی۔

انھی دنوں شام کا ایک اخبار، جو پہلی دفعہ رنگین تصاویر اور جرائم کی خبروں کو نمایاں طور پر چھاپنے کے رجحان کے ساتھ سامنے آیا تھا، ہر روز ہمارے ہاتھ آتا۔ اگرچہ صحافت کے اصولوں سے واقفیت نہیں تھی، مگر کوئی حس تھی جو بتاتی کہ یہ صحافت نہیں۔ لیکن صحافت کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے جب میں نے خود پہلی مرتبہ قلم ہاتھ میں لیا تو زرد صحافت کو اپنے معاشرے سے نوچ پھینکنے کا عزم دل میں تھا۔

اب 2018ء ہے۔ پاکستان میں مختلف ذرایع ابلاغ زیادہ سے زیادہ قارئین، سامعین اور ناظرین کو اپنی گرفت میں لینے کی خواہش رکھتے اور اس کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ چنانچہ خبروں، تجزیوں اور پروگرام کو متوازن اور معروضیت پر مبنی بنانے سے کہیں زیادہ انھیں ’پُرکشش‘ بنانے پر زور دیا جاتا ہے۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا پورا کر رہا ہے۔

کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر طرف سے آوازیں آ رہی ہیں۔ ایک شور ہے، ہنگامہ ہے، ہر کوئی اپنے کہے کو سچ ثابت کرنے کے لیے سر گرم ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسے کروڑوں کی تعداد میں لوگ بھاگ رہے ہوں اور ان میں سے کوئی نہ جانتا ہو کہ اس کی منزل کیا ہے۔ بس لوگ بھاگ رہے ہوں۔ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی ایسی خواہش ہے جس کے تحت یہ بھی نظرانداز کر دیا جاتا ہے کہ کتنے ہی سر بھاگتے بھاگتے پیروں تلے روندے جا چکے ہیں۔

ا لیکشن مہم کے دوران ہمارے لیڈر صحیح کر رہے ہیں یا غلط یہ بحث اپنی جگہ لیکن اس ساری صورت حال میں عوام کے ذہنوں میں ذرایع ابلاغ کے حوالہ سے دن بہ دن مختلف سوالات اٹھتے جا رہے ہیں۔ ایک عمومی تاثر ہے کہ ریٹنگ کی دوڑ میں آگے بڑھتے ہمارے ذرایع ابلاغ کھرے اور کھوٹے کی فکر کیے بنا بھاگتے چلے جا رہے ہیں۔ 2000ء سے لے کر 2018 یعنی پورے اٹھارہ سال پاکستان کے عوام نے نئے آنے والے چینلز کو خوش آمدید کہا۔

اس میں دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ الیکٹرانک میڈیا نے عوام میں شعور کا بیج بویا۔ اور اب یہ بیج پھوٹ کر ایسا پودا بن گیا ہے جس کی ٹہنیوں پر رنگ برنگے پھول کھلنے لگے ہیں۔ عام پاکستانی باشعور ہوتے جا رہے ہیں، ان میں اپنے ملک کے معملات، اپنے حالات اور اپنے حقوق کے بارے میں آگاہی پہلے کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ چکی ہے اور یہ سب ہمارے ملک کے ذرایع ابلاغ کی وجہ سے ممکن ہو سکا ہے۔

بس ایک یہی مثبت اور واضح تبدیلی ہے جو گزشتہ کوئی ایک عشرے کے دوران ہمارے یہاں آئی ہے۔ جب کہ ملک میں نہ تعلیمی مسائل حل ہوئے، نہ عام شہری فکر روزگار سے آزاد ہوا۔ امن و امان اور انتظام کی بگڑی ہوئی صورت حال مزید ابتر ہوتی گئی۔ لیکن برقی ذریعہ ابلاغ کی بہ دولت عوام خاصی حد تک اپنے مسائل سمجھنے کے قابل ہوئے ہیں اور ان میں ان مسائل کو حل کرنے کی خواہش اجاگر ہوئی ہے۔ ذرایع ابلاغ نے شعور کے جو بیچ بوئے اس کی نگہداشت پر بھی خاطر خواہ توجہ دی اور بلاشبہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ گزرے چودہ سال کا عرصہ پاکستان میں ذرایع ابلاغ کی تاریخ میں سنہرے حرٖفوں سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پچھلے چار سالوں میں صورتحال بدلتی محسوس ہوئی سب سے پہلے خبر بریک کرنے کا سہرا اپنے چینل پر سجانے کی خواہش نے چینل کے معیارات کو بدل دیا۔ خبر کی جگہ بے ہنگم کامنٹری نے لے لی۔ ایک ہی خبر کو زور دے کر عوام کے کانوں میں ٹھونسنے کا اصول طے پایا۔ ٹی وی ٹاک شوز میں سیاستدانوں کے اختلافات بے ہنگم شور کی صورت میں سامنے آئے۔ سیاسیدانوں پر کیچڑ اچھالنا اب ایک عام سی بات ہے۔ ملکی قوانین سے کم واقفیت کی بناء پر کچھ بھی کبھی بھی دیکھایا جاتا ہے جن پر فریق اپنا قانونی حق استعمال کرتے ہوئے ہتک عزت یا ازالہ حیثیت عرفی کے قانون کا سہارا لے سکتا ہے لیکن اب تک اس قانون کی مد میں کوئی کیس برقی ذرایع ابلاغ پر کیا جانے والا سامنے نہیں آیا۔

کتنے ٹی وی چینلز ہیں جو اس وقت سوشل ایشوز پر پروگرام کررہے ہیں ایسے سماجی مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں عوام کی ذہنی اور معاشرتی مسائل کا حل پوشیدہ ہو۔ جواب نفی میں ملتا ہے۔ پاکستانی عوام خراب امن و امان، بے روزگاری، مہنگائی کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسے میں اپنے پسندیدہ لیڈر کی کرپشن کے قصے انھیں مزید ذہنی اذیت کا شکار کیے دیتے ہیں۔ ان مسائل کو غیر سنجیدگی سے لینا خود فریبی کو سواء کچھ نہیں۔ ہمارے ذرایع ابلاغ ایک عام آدمی کی سوچ کوبدلنے ان کو راستہ دیکھانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن بد قسمتی سے عوام کو ذہنی مریض بنانے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔

رہا سوشل میڈیا سو اُس کے لئے قوانین تو بنائے گئے لیکن کوئی خاطر خواہ نتائیج سامنے نا آسکے۔ جہاں سوشل ویب سائٹس انفرادی او رگروہی سطح پر باہمی رابطوں کا ذریعہ اور اطلاعات و خبروں کی آزادانہ ترسیل کا موثر ترین وسیلہ بن کر سامنے آئی ہیں، وہی ان کی وجہ سے مختلف معاشروں میں بہت سی سماجی اور اخلاقی خرابیوں نے بھی فروغ پایا ہے۔ ایسے معاشروں میں پاکستانی سماج بھی شامل ہے، جہاں ہر ٹیکنالوجی کے منفی اثرات اس کے مثبت اثرات کے مقابلے میں کہیں شدت سے فروغ پاتے ہیں۔ پاکستان میں سوشل میڈیا کا منفی استعمال دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔ نفرت آمیزاورغیر اخلاقی سرگرمیوں کی روک تھام کے لئے متعلقہ ادارے 2013 کے الیکشن میں بھی سو رہے تھے اور 2018 کے الیکشن میں بھی آرام فرما رہے ہیں۔ ایک طوفانِ بدتمیزی ہے جیسے نا روکا گیا تو آئندہ آنے والی نسلیں اس کا خمیازہ بھگتیں گی۔

ہمارے ذرایع ابلاغ نے شعور تو دے دیا ہے، سو اب عام آدمی ان ذرایع ابلاغ کی کارکردگی کو بھی اپنے شعور کی کسوٹی پر پرکھ رہا ہے اور ان کا مواخذہ اور احتساب کرنے کی فکر میں ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے کہ کس طرح بعض چینل تمام تر صحافتی ذمے داریوں اور اقدار کو تج کر موجودہ سیاسی صورت حال کے فریقین میں سے کسی ایک کا ہو کر رہ گئے ہیں۔ مجھے یاد ہے اور آج بھی کہا جاتا ہے کہ معروضیت صحافت کی بنیاد ہے۔

یہ ایک نازک وقت ہے، اپنا اعتماد قائم رکھنے یا کھو دینے کا وقت۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ان دنوں بعض ٹی وی چینلوں سے جو کچھ ناظرین کو دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے یا جو بتایا جا رہا ہے، وہ بلاشبہ تعمیری صحافت کی تعریف پہ پورا نہیں اترتا۔

وقت آ گیا ہے کہ ریاستی اداروں میں چوتھا ستون، کہی جانے والی صحافت کو، اپنی نظریاتی و عملی جڑوں کو مضبوط اور اس کی آبیاری کے لیے ذرایع ابلاغ کے ادارے صحافتی آزادی کی حدود کا ازخود جائزہ لینا چاہیے اور اپنے کارکن صحافیوں کے لیے نئے سرے سے بدلتے وقت کی ضرورت کے تحت صحافتی قوانین کے احترام و عملی تربیت کا اہتمام کریں۔
عوام باشعور ہیں دوسری صورت میں ریٹنگ کا خواب پورا ہو نا ہو پاکستان کے ذرایع ابلاغ خاموش عوامی انقلاب کی زد میں ضرور آ جائیں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).