امریکہ کی ایک انوکھی روایت اور انوکھا سرور


گذشتہ دنوں دفتری اُمور کی انجام دہی کے دوران تحقیقی کام سرانجام دیتے ہوئے ایک انوکھی رپورٹ سے پالا پڑا۔ موضوع دیکھ کے حیرت ہوئی۔ جب اُس رپورٹ کا مطالعہ شروع کیا تو حیرت اور رشک کا ایک سمندرتھا جس میں اپنے آپ کو غوطہ زن پایا۔ رپورٹ کے مطابق امریکا میں ٹریولر فوڈ اینڈ بکس نامی ایک ریستوران موجود ہے۔ کیا آپ کو اس بات کے مطالعہ کے بعد میری ذہنی حالت پہ شک ہوا؟ شاید ہوا ہوگا کیونکہ ریستوران تو ہر جگہ موجود ہیں خصوصا اہل کراچی کے لئے تو یہ ایک معمولی بات ہے۔ شاید ہوسکتا ہے کہ آگے چل کے آپ کو امریکیوں کی ذہنی حالت پہ ضرور شک ہو۔

قصہ دراصل کچھ یوں ہے کہ اس ریستوران میں کھانا کھانے کے لئے آنیوالے ہر گاہک کو ایک کتاب تحفہ میں دی جاتی ہے۔ اگرچہ اس ریستوران کے مالکان 1993 میں تبدیل ہوئے جس کے باوجود یہ انوکھی روایت بدستور جاری رہی۔ تاحال تقریبا 25 لاکھ کتابوں کا تحفہ دیا جاچکا ہے۔ اس ریستوران کو مستقل بنیادوں پہ کتابوں کے عطیات بھی موصول ہوتے ہیں۔ ریستوران کی دیواروں پہ مختلف مصنفین کی آٹو گراف شدہ تصاویر موجود ہیں جو کہ یہاں کے ماحول کو آنے والوں کے لئے مزید علم دوست بنانے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہیں۔ یہ ریستوران صبح سات بجے کھل جاتا ہے اور رات آٹھ بجے تک لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

اس تحریر کے مطالعہ کے بعد میں یہ سوچنے پہ مجبور ہوگیا کہ ہمارے ہاں ہوٹلوں کا رواج بہت عام ہے اور ہم وہاں جانا بھی پسند کرتے ہیں مگر کہیں بھی ہمیں ایسی کوئی روایت نہیں نظر آتی جس کے نتیجے میں معاشرے میں کسی مثبت چیز کی کوئی بنیاد ڈالی جائے۔ کہنے کو یہ ہوٹل اور اس کی روایت بھی غیر معمولی ہے مگر کسی بھی معاشرے میں موجود افراد کی اجتماعی ترجیحات کا تعین کرنے کے لئے کافی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ کتاب سے بڑھ کے کوئی رفیق نہیں مگر انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن کے اس دور نے ہماری نوجوان نسل کو جہاں اس مفید سرگرمی سے دور کیا ہے وہیں اُن کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بھی مفلوج کردیا ہے۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں خوشیوں کی جگہ غم اور پریشانیوں نے لے لی ہے اور اس کی بھی ایک اہم وجہ کتب بینی کا معدوم ہوتا ہوا رجحان ہے۔

اب آپ کہیں گے بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟ آج اس مضمون کے ذریعہ ہم کتب بینی کے اُن فوائد پہ بات کریں گے جو شاید ہمیں معلوم نہیں یا پھر ہم نے اپنی ترجیحات تبدیل کرلی ہے۔

2009 میں برطانیہ کی یونیورسٹی آف سسیکس میں کی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ مطالعے کی عادت ذہنی تناؤ اور پریشانی کو 68 فیصد کم کرتی ہے۔ بعض اوقات اس کا فائدہ موسیقی سننے اور چہل قدمی سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ ہر انسان اپنی زندگی میں مختلف مسائل کا شکار ہوتا ہے اور اب ان مسائل کا حل کتب میں تلاش کرنا مشکل نہیں۔ مختلف کتابیں انسان کی ذاتی زندگی اور عملی زندگی میں اُس کی کارکردگی کو بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کرسکتی ہیں۔ اب تو انگریزی کتب کے تراجم بھی بازار میں آسانی سے دستیاب ہیں۔ قابل ذکر کتابوں میں کامیاب لوگوں کی سات عادتیں (اسٹیفن آر کووے)، شاہراہ کامیابی (فائز حسن سیال) اور سو عظیم آدمی (مائیکل ہارٹ ) شامل ہیں۔

جس طرح گزرتی عمر کے ساتھ انسان کے دیگر اعصاب بھی جواب دینے لگتے ہیں اُسی طرح انسان کی دماغی صلاحیتوں میں بھی کمی واقع ہوتی ہے جس کو دماغی انحطاط یا cognitive decline کہا جاتا ہے۔ امریکا کی رش یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کی تحقیق کے مطابق جو افراد مطالعہ کی عادت اپنا لیں اُن افراد میں دماغی تنزلی جیسے امراض مثلا الزائمرکا خطرہ دیگر افراد کے مقابلے میں بہت کم ہوجاتا ہے۔

سوتے وقت موبائل فون کا استعمال نئی نسل کی عمومی عادت بنتی جارہی ہے جو کہ انتہائی خطرناک ہے کیونکہ اس سے نا صرف آنکھوں کے امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے بلکہ آرام اور رت جگوں کے باعث اگلے دن کے معمولات پر گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔ اگر سونے سے پہلے کسی کتاب کا انتخاب کرلیا جائے تو نہ صرف یہ صحت کے لئے مفید ہوگا بلکہ کتب بینی کی عادت بنانے کے لئے بھی بہترین ذریعہ ثابت ہوگا۔ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کتاب پڑھنے سے ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے اور نیند جلدی آتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں علمی انحطاط نے نا صرف بحث برائے بحث کو فروغ دیا ہے بلکہ ہمیں عدم برداشت کا عملی نمونہ بنا دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کتب کا مطالعہ کرنے والے افراد نہ صرف دوسروں کے نظریات کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں بلکہ اُن کے مراسم بھی خوشگوار ہوتے ہیں۔ ایسے افراد کی صحبت میں بیٹھنا لوگ پسند بھی کرتے ہیں کیونکہ ان کی علمیت اور وقار کا اظہار ان کی گفتگو سے ہوتا ہے جو ان کی شخصیت کو مزید پُر اثر بناتا ہے۔

والدین کو شکایت ہوتی ہے کہ اُن کا بچہ کند ذہن ہوتا جارہا ہے۔ امریکی مصنف اور ماہر ڈاکٹر سوئیس کا کہنا ہےکہ مطالعہ ذخیرہ الفاظ کو بڑھاتا ہے جس کا براہِ راست تعلق ذہانت سے ہوتا ہے۔ اسی طرح بچوں کو مطالعے کی عادت ڈالی جائے تو ان کی ذہانت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس ضمن میں 2014 میں چائلڈ ڈویلپمنٹ نامی جرنل میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ جن بچوں کو 7 سال کی عمر میں پڑھنے کی تیز عادت ہوتی ہے آگے چل کا ان کا آئی کیو بلند ہوتا جاتا ہے جو ذہانت ناپنے کا ایک پیمانہ بھی ہے۔

پاکستان میں کتب خانوں اور کتابوں کا کلچر دم توڑتا جارہا ہے۔ بےشک اہل علم افراد آج بھی اپنی پیاس بجھانے کے لئے کتب میلوں یا پرانی کتب کی دکانوں کا رُخ کرتے ہیں مگر اس تعداد میں مزید اضافہ اور اس کلچر کی مزید ترویج کی ضرورت ہے۔ یہی وہ معاشرہ ہے جہاں ہمیں اعلی پائے کا ادب فراہم کرنے والے اُدبا، شعراء، کالم نگار اور مقرر نصیب ہوئے۔ نجانے کیوں اب اس فہرست میں اضافہ کی رفتار بہت سست معلوم ہوتی ہے۔ کتب بینی کی عادت کے لئے سب سے زیادہ مفید نصیحت یہی ہے کہ مستقل بنیادوں پہ عادت کو استوار کرنے کے لئے روزانہ کی بنیاد پہ ایک نہ ایک صفحہ پڑھا جائے۔

ضروری نہیں کہ آپ کسی مشکل کتاب کا انتخاب کریں۔ اگر آپ ناولوں کے شوقین ہیں تو کسی ناول سے اس عادت کا آغاز کریں۔ اگر آپ سیاحت کے دلدادہ ہیں تو سفر ناموں سے اس نیک سفر کی ابتداء کریں۔ اگر آپ شاعری سے شغف رکھتے ہیں تو کسی پسندیدہ شاعر کے دیوان سے اپنی طبعیت کو محظوظ کریں۔ اگر آپ فکشن کے شوقین ہیں تو اسی موضوع پہ کسی کتاب سے اپنی علمی پیاس بجھائیں۔ پہلا قدم شرط ہے پھر خود ہی یہ سرور علم آپ کو اپنے سحر میں جکڑتا جائے گا اور آپ کی عادت پختہ ہوتی چلی جائے گی۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
سرور علم ہے کیف شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں کتاب سے بہتر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).