بس کیا کریں، خدا کی یہی مرضی تھی


چھوٹی بہن کچھ سال انگلستان میں گزارنے کے بعد واپس لوٹی۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے بات چل نکلی۔ انگلستان اور پاکستان کے معاشرے میں بنیادی فرق زیر بحث آئے۔ محفل میں بیٹھے اکثر لوگوں نے مغربی معاشروں کو قریب سے دیکھ رکھا تھا۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ تعلیم، صحت، صفائی، انفرا سٹرکچر، بدعنوانی، ذرائع آمدورفت اور توانائی جیسے کتنے ہی امور زیر بحث آئے۔ زنیرہ اس دوران خاموش بیٹھی سنتی رہی۔ جب سب اپنی اپنی بولیاں بول کر چپ ہو گئے تو مارے تجسس کے یہی سوال میں نے اس کے آگے رکھ دیا۔ ابھی اس کے تجربات کی مٹی گیلی تھی۔ یادیں تازہ تھیں اور بات فلسفےکی نہیں، ذاتی واردات کی تھی۔

زنیرہ نے ایک لمحہ توقف کیا پھر بولی ” مجھے تو ہر فرق کی جڑ میں ایک انسانی رویہ نظر آتا ہے۔ اس سے پیچھا چھڑا لیں تو شاید ہمارے مسئلے حل ہو جائیں۔ یہ ہمارا اپنے آپ پر رونا بند ہو جائے”۔

کسی کو سوال آگے بڑھانے کی ضرورت نہیں پڑی کہ اس نے توقف کیے بغیر جواب آگے دھر دیا “انگلستان میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ میں عدالت میں کام کرتی رہی کہ کچھ کمانے کا ذریعہ لگا رہے۔ لیکن اس کام میں مجھ پر جو بات کھلی وہ عام شخص کا نظام انصاف پر اعتماد تھا۔ انگلستان میں کسی کے ساتھ کوئی معمولی سی زیادتی ہو جائے تو جانتے ہیں وہ کیا کہتا ہے؟ وہ کہتا ہے
I will see you in the court

میں تمہیں عدالت میں دیکھوں گا۔ ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے۔ ہمارے یہاں جب کوئی ظلم کا شکار ہوتا ہے تو وہ عدالت کی جانب نہیں دیکھتا۔ وہ کہتا ہے میں تجھے روز حشر دیکھوں گا۔ میرا بدلہ میرا رب لے گا۔ اور یہ نا انصافی، یہ ظلم کا پہیہ یوں ہی گھومتا رہتا ہے۔ خدا پر ہمارے اس اعتبار نے ہمیں طاقت نہیں دی۔ اس نے ہمیں اپاہج کر دیا ہے۔ ہم اپنے معاملات سلجھانے کے لیے اپنے آپ پر اعتماد کرنے کے قائل نہیں رہے۔ بس میری نظر میں تو یہی ایک جوہری فرق ہے“

بات آگے نکلی۔ سب نے اپنے اپنے تجربات بیان کیے۔ کچھ متفق نظر آئے، کچھ کو اختلاف تھا۔ پھر رات گہری ہوئی تو محفل سمیٹ دی گئی اور سب اپنی اپنی رائے لیے گھروں کو لوٹ گئے۔

بیس سال ہو گئے ایک سانحے کو بیتے جب چھ ماہ کے اندر میں نے ماں اور باپ دونوں کو کھویا۔ آج پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو اس بات میں رتی برابر شک کی گنجائش نہیں پاتا کہ دونوں کی موت ڈاکٹروں کی نا اہلی کے سبب تھی۔ شاید میری تربیت مختلف ہوتی اور میں کسی نسبتا مہذب یا تعلیم یافتہ ملک میں ہوتا تو اور کچھ نہیں تو ان ڈاکٹروں پر مقدمہ کرتا۔ اپنی بات ثابت کرتا تو ان کا لائسنس جاتا۔ کسی اور زندگی سے انہیں کھیلنے کا موقع نہ ملتا اور اپنی لاپرواہی اور نا اہلی کا وہ ڈاکٹر اور ہسپتال جرمانہ بھرتے۔ پر ایک نوجوان کے کندھے پر جس نے بھی ہاتھ رکھا اس کے منہ میں ایک ہی جملہ تھا ”اللہ کی مرضی میں کس کو دخل۔ جب موت کا وقت آ جاتا ہے تو پھر آ جاتا ہے۔ صبر کرو“۔ میں اور میرے بہن بھائی بھی اسی عقیدے کے قتیل تھے سو صبر کر کے خاموش رہے۔

مذہب اور عقیدے کی مٹی میں گندھے تین مفروضے مجھے اب بہت پریشان کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہر ایک کا رزق مقرر ہے، خدا کسی کو بھوکا نہیں مرنے دیتا۔ دوسرا یہ کہ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں اور تیسرا یہ کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے۔ اگر تو میں آنکھیں بند کر کے منبر کے ارشادات پر کٹھ پتلی کی طرح سر ہلاتا رہوں تو پھر یہ سب مفروضے تقدیر مبرم ہی لگتے ہیں پر اگر آنکھیں کھول لوں، حقائق پر نظر ڈالوں، اعدادوشمار کا جائزہ لوں اور ذہن کو اس کا کام کرنے دوں تو لگتا ہے کہ یہ مفروضے کچھ ایسے حلقوں کی ایجاد ہیں جو عامتہ الناس کو مفلوج، اپاہج اور غلام بنائے رکھنا چاہتے تھے اور ہیں۔

سیلاب، زلزلے، طوفان جیسی قدرتی آفات پر دنیا بہتر منصوبہ بندی اور انجینئرنگ کی راہ لیتی ہے اور نقصانات کم سے کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اکثر جگہ قدرتی آفات کے جن بڑی حد تک مسخر کر لیے گئے ہیں پر ہمارے یہاں یہ عذاب الہی ہے یا آسمانی آزمائش ہے اور ہم اس کا علاج اجتماعی استغفار میں ڈھونڈتے ہیں۔

رزق کی تقسیم کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ قحط اور بھوک سے اچھے سال میں ہزاروں اور برے سالوں میں لاکھوں لوگ مرتے ہیں۔ پر غور کریں تو مرنے والوں کی اکثریت افریقہ اور ایشیا کے پسماندہ ممالک سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ پتھر میں کیڑے کو بھی رزق ملتا ہے وہ ہر سال انسانی لاشوں پر گدھوں کو ضیافت کرتے دیکھتے ہیں پر اپنے مفروضے پر سوال اٹھانے کی زحمت نہیں کرتے۔ مجھے آج بھی نیشنل جیوگرافک میں چھپی وہ تصویر نہیں بھولتی جس میں صومالیہ کا ایک قحط زدہ بچہ نیم جان حالت میں بیٹھا ہے اور پاس ہی ایک گدھ منتظر ہے کہ یہ گرے تو وہ اسے نوچنا شروع کرے۔

پر یہ قیامت کبھی ایسے ممالک پر نہیں گزرتی جو ہمارے نزدیک کافر ہیں پر انہوں نے مادی ترقی کی وہ بلندی پا لی ہے کہ نہ وہاں خوراک مسئلہ ہے نہ صاف پانی۔ اور یہ سب انہوں نے سائنسی طریقوں، بہتر معاشی اور معاشرتی منصوبہ بندی اور آبادی پر قابو پا کر حاصل کیا ہے۔ پر ہم ان بیکار کی باتوں پر یقین نہیں رکھتے۔ ہر گھر میں بچوں کی قطار لگی ہے کہ ان کے رزق کے آسمانی وعدے پر ہمیں کوئی شک نہیں ہے۔

مکافات عمل کا قصہ بھی سننے میں اچھا لگتا ہے۔ اگر تو دیر کا مطلب یہ ہے کہ حساب کتاب دوسری دنیا میں ہو گا تو پھر اس پر کیا بحث کرنی کہ نہ وہ دنیا تم نے دیکھی ہے نہ میں نے۔ کس کو کیا معلوم کہ اگر اس پار کچھ ہے تو وہاں کسی کے ساتھ کیا معاملہ ہونا ہے۔ ہماری خواہشیں منصف کا قلم تو بننے سے رہیں۔ اور اگر اس دیر کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ہی یہ حساب ہو جاتا ہے تو یہ محض ایک نفسیاتی تسلی سے زیادہ کچھ نہیں۔ بہت سے مواقع پر کسی ظالم کو آپ منہ کے بل گرتے دیکھتے ہیں پر یہ کوئی قانون نہیں ہے۔ طاقت کا نشہ بعض اوقات آپ کو اندھا کر دیتا ہے۔ آپ سوچ سمجھ کر کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ نتیجتا کہیں ایسی ٹھوکر لگتی ہے کہ جسم ریزہ ریزہ ہونے تک کی نوبت آ جاتی ہے۔ پر یہ ہمیشہ نہیں ہوتا۔ ظلم کرنے والے، استحصال کرنے والے، دوسروں کے جان ومال سے کھیلنے والے کتنے ہی اپنی عمر ہنسی خوشی گزار دیتے ہیں۔

اب یہ کوئی کیونکر فیصلہ کرے کہ ایک کو سزا اور ایک سے درگزر کس فارمولے کے تحت ہے۔ ایک ظالم کے بچے اپاہج پیدا ہوئے پر کیا دوسرے کے گھر بھی ایسی واردات ہوئی۔ ایک کے ساتھ حادثہ پیش آیا پر کیا ہر ایک کے ساتھ پیش آتا ہے۔ ممکنات کی دنیا میں اپنی مرضی کے نتیجے نکالنا شماریاتی مغالطہ ہے۔ ہاں، اگر ایک جیسے تمام معاملات میں ایک ہی جیسا ردعمل سامنے آ رہا ہے تو بات مانی جا سکتی ہے۔ پر ایسا ہے نہیں۔

ہماری سادگی اور خوش فہمی ان معاملات میں بعض اوقات بے وقوفی کی حد کو چھونے لگتی ہے۔ کچھ دن گزرے کہ فاروق بندیال والے معاملے پر یہی مکافات عمل کی کہانی سنائی گئی کہ دیکھا فاروق اپنے جرم کی وجہ سے آخر خدا کی لاٹھی کا شکار بن گیا۔ اب کوئی پوچھے کہ زمرد اور شبنم کا ریپ کرنے کی جو سزا تین دہائیوں بعد بندیال صاحب کو ملی وہ تھی کیا۔ چار دن سوشل میڈیا پر غلغلہ اور تھوڑا سا سیاسی سیٹ بیک۔ جرم اور سزا کا تقابل تو کر لیجیے۔ اور اگر اس پر تسلی نہ ہو تو یاد رہے کہ ان کے چار اور شریک جرم بھی تھے جو آج بھی خوش وخرم زندگی گزار رہے ہیں۔ نہ آپ میں سے کسی کو ان کا نام پتہ ہے نہ آسمانی لاٹھی کو وہ یاد رہے ہیں۔

جن کو قذافی کی موت میں مکافات عمل کارفرما نظر آیا وہ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ یہی مکافات عمل اسٹالن کے وقت کیوں خوابیدہ رہا۔ مکافات عمل کا یہ نظریہ دراصل کمزور کو چپ رہنے پر قائل رکھنے کا ایک حربہ ہے کہ کہیں مظلوم خود سے ظلم کے خلاف نہ کھڑا ہو جائے اور یہ حربہ مقتدر حلقے صدیوں سے کامیابی سے استعمال کرتے آئے ہیں۔ عقیدے کے مخمل میں لپیٹ کر اسے اور قابل قبول بنا دیا گیا ہے۔

موت کا وقت معین اگر ہے تو پھر دنیاوی نظام جزا وسزا بالکل بیکار ٹھہرتا ہے۔ جو قتل ہوا اسے مرنا تھا ہی اور اکثر کے نزدیک یہ بھی طے ہے کہ اسے قتل ہی ہونا تھا۔ تو قاتل تو محض تقدیر کے ہاتھ ایک کھلونا تھا۔ کل مستونگ اور پرسوں پشاور میں مرنے والے بھی اتنی ہی عمر لکھوا کر لائے تھے۔ اب آپ توضیحات میں تقدیر مبرم حقیقی، تقدیر مبرم غیر حقیقی یا تقدیر معلق کے لاکھ تڑکے لگائیں، یہ الفاظ کے ہیر پھیر سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ اس فلسفیانہ بحث کو ایک طرف رکھ کر کیوں نہ ایک نظر حقائق پر ڈال لی جائے تو اس مفروضے کی قلعی خود ہی اتر جائے گی۔

پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح سب سے زیادہ ہے اور اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان بچوں کی موت کا وقت لکھا ہوا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان بچوں کو اور ان کی ماؤں کو اچھی طبی سہولیات تک رسائی نہیں ہے۔ اس سے بھی اہم یہ کہ ہماری آبادی کی اکثریت فیملی پلاننگ سے آگاہی نہیں رکھتی۔ تاج محل دیکھیے تو یاد رکھیے کہ ممتاز محل کو انیس برس میں چودہ بچے پیدا کرنے پڑے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سات بچے بھی مرے اور آخر میں ملکہ عالیہ بھی چودہویں بچے کو جنم دیتے دیتے چل بسیں۔ ایسی محبت سے تو عورت کے لیے دائمی ہجر ہی اچھا۔

ہانس رولنگ کا تعلق سویڈن سے تھا۔ وہ ایک ماہر تعلیم، ماہر شماریات، ماہر طبعیات اور ایک عوامی مقرر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ہانس رولنگ نے گیپ مائنڈر فاؤنڈیشن بنائی اور اس کے پلیٹ فارم سے دنیا کے سامنے حیرت انگیز شماریاتی حقائق رکھے۔ اس حوالے سے بنائے گئے اس کے گراف اور تحقیقاتی معلومات اپنی جگہ ایک پوری دنیا ہیں۔ لیکن اگر آپ کے پاس وقت نہیں ہے تو یو ٹیوب پر جا کر آپ اس کی ایک چار منٹ کی جامع ویڈیو دیکھ سکتے ہیں جس کا نام ہے۔ “ دنیا کو بدل دینے والے دو سو سال۔ “ یہ ویڈیو آپ کے بہت سے مفروضوں کا شافی علاج بن سکتی ہے اگر آپ سوچنے پر تیار ہوں تو۔ (ویڈیو مضمون کے آخر میں موجود ہے)۔

ہانس رولنگ نے 1810 سے 2010 تک کا دو سو سال کا ڈیٹا اکٹھا کیا۔ اس کے بعد اس نے اس ڈیٹا کو ایک سادہ سے گراف پر اتارا۔ گراف کی عمودی لکیر پر اس نے انسان کی اوسط متوقع عمر کو رکھا۔ یہ متوقع عمر 25 سال سے پچھتر سال کے بیچ تھی جبکہ افقی لکیر پر اس نے فی کس سالانہ آمدنی رکھی۔ افقی لکیر کی دو انتہائیں 400 ڈالر سے 40000 ڈالر کے بیچ تھی۔ اب ان دو لکیروں کے بیچ کا میدان تیار تھا کہ اس میں دنیا کے ممالک کو رکھ کر دیکھا جائے۔

اس میدان کے نشیبی کونے میں ظاہر ہے ایسے ملک تھے جن کے افراد کی اوسط متوقع عمر پچیس سال کے آس پاس اور اوسط آمدنی 400 ڈالر کے آس پ تھی۔ جبکہ پینتالیس ڈگری کے زاویے پر اوپری کنارہ ایسے ممالک کی نشاندہی کررہا تھا جن کے افراد کی اوسط عمر پچھتر سال کے لگ بھگ اور آمدنی چالیس ہزار ڈالر کے آس پاس تھی۔ نشیبی کونے میں بیمار اور غریب لوگ اور اوپری کونے میں امیر اور صحت مند لوگ براجمان ہونے تھے۔ 1810 کے ڈیٹا کے مطابق یورپ، افریقہ، امریکا اور ایشیا سب کے سب نشیبی کونے میں پائے گئے۔ افریقہ کے حالات نسبتا برے تھے۔ اور امریکی براعظم کے نسبتا بہتر۔ یورپ ایشیا سے ذرا سا بہتر تھا۔ یہ پتہ لگا کہ تقریبا سارے ممالک غریب تھے۔ مجموعی طور پر اوسط عمر کہیں بھی چالیس سال سے زیادہ نہیں تھی۔ صرف برطانیہ اور ہالینڈ کی اوسط عمر چالیس سال سے کچھ زیادہ اور آمدنی 3000 ڈالر کے آس پاس تھی۔

1840 کے قریب صنعتی انقلاب آنے کی وجہ سے یورپی اور امریکی ممالک کی ترقی کی رفتار باقی ممالک کی نسبت بہتر ہونی شروع ہو گئی۔ لیکن ان طاقتوں کی ایشیائی کالونیاں وہیں نشیبی کونے میں پھنسی رہیں۔ 1910 تک یہ ترقی بہت واضح ہو گئی تھی۔ ان ممالک کی اوسط عمر پچاس سے ساٹھ سال تک پہنچ گئی۔ آمدنی 7 ہزار ڈالر تک جا پہنچی اور پھر ترقی کا پہیہ سست پڑ گیا اور اس کی وجہ تھی پہلی جنگ عظیم۔ یورپی ممالک کی اوسط عمر کچھ سالوں کے لیے گر کر تیس سال پر پہنچ گئی۔ 1920 کے بعد یہ گراف پھر اوپر جانا شروع ہو گیا لیکن اب بھی اس کے سرخیل مغربی ممالک تھے۔ 1940 تک ایشیا میں سے جاپان واحد ملک تھا جس کی اوسط عمر پچاس سال تک پہنچی۔ دوسری جنگ عظیم سے پھر ترقی کی رفتار سست ہوئی۔

جنگ ختم ہونے کے بعد 1948 میں اگر اس ڈیٹا کا جائزہ لیا جائے تو سویڈن اوسط عمر اور اوسط آمدنی کے لحاظ سے دنیا میں سب سے اوپر تھا۔ ریاستہائے متحدہ امریکا بھی اس کے ساتھ ساتھ کھڑا تھا۔ جاپان کہیں بیچ میں تھا۔ برازیل آہستہ آہستہ اوپر آ رہا تھا۔ ایران کی اوسط آمدن تیل کی وجہ سے بڑھ رہی تھی مگر اس کی اوسط عمر اب بھی چالیس سال سے کم تھی۔ چین، انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا اب بھی نشیبی کونے میں تھے۔ اوسط عمر پینتیس سال، آمدنی آٹھ سو ڈالر کے لگ بھگ۔ یہ اب بھی غریب اور بیمار تھے۔ موت کی شرح بہت زیادہ تھی۔

ایک اور حقیقت جو سامنے آئی وہ یہ کہ 1810 کے مقابلے میں ممالک کا فاصلہ بہت بڑھ گیا تھا۔ یورپی ممالک بہت آگے نکل گئے تھے اور افریقی اور ایشیائی ممالک اب بھی 1810 والی جگہ کے آس پاس رکے ہوئے تھے۔ بنیادی فرق تھا سائنسی اور صنعتی انقلاب۔ یہ تقدیر کا نہیں، انسانی محنت اور ذہانت کا ثمر تھا۔ عمر کے پیمانے صرف ان ممالک میں بہتر ہو رہے تھے جو ہمارے نزدیک کافر تھے اور ہیں۔ 1950 کے بعد کالونیاں آزاد ہوئیں اور آہستہ آہستہ انہوں نے بھی ترقی کی شاہراہ پر قدم رکھ دیا۔ 1970 تک اکثر ایشیائی ممالک اس گراف کے درمیان تک پہنچ گئے۔ افریقی ممالک اب بھی پیچھے کھڑے تھے۔ لیکن اب بہت کم ممالک ایسے تھے جن کی اوسط عمر 50 سال سے کم تھی۔

ہانس رولنگ کی اس ویڈیو میں آخری ڈیٹا سن 2010 کا ہے۔ پچھلے سال رولنگ کی وفات کی وجہ سے مزید ڈیٹا اکٹھے کرنے کا کام موخر ہو گیا لیکن 2010 کا ڈیٹا یہ بتانے کے لیے کافی تھا کہ کن ممالک نے موت کا وقت آگے کرنے میں کامیابی حاصل کی اور کون اس میں ناکام رہے۔ 1810میں نشیبی کنارے میں پڑا جاپان 2010 میں سب سے زیادہ اوسط عمر اور آمدنی رکھنے والے ممالک میں سے تھا۔ ان دو حوالوں سے لکسمبرگ دنیا کا بہترین ملک اور کانگو بدترین ملک تھا۔ اس سے بھی زیادہ دل چسپ بات ایک ملک کا مزید تجزیہ تھا۔

2010 میں چین اوسط عمر کے لحاظ سے کافی اوپر تھا پر آمدنی کے لحاظ سے اب بھی کہیں درمیان میں تھا۔ پر آپ شنگھائی کے صوبے کو الگ کر دیں تو اس کی صحت اور آمدنی اٹلی کے برابر ٹھہرتی تھی جو کہ بہترین ممالک میں سے ایک تھا۔ اس کے مقابلے میں صوبہ گوانزو کی حالت پاکستان جتنی پتلی تھی۔ یعنی اوسط عمر ساٹھ سال سے کم اور آمدنی تین ہزار ڈالر سے کم۔

دو سو سال کی یہ کہانی مفروضوں پر نہیں، ٹھوس شماریات اور حقائق پر مبنی ہے۔ بہت آسانی سے یہ پتہ لگ جاتا ہے کہ دنیا کی اوسط عمر دو سو سال پہلے کے مقابلے میں پینتیس سے چالیس سال تک بڑھ چکی ہے۔ اس کی واحد وجہ سائنسی اور طبی ترقی اور سہولیات کی دستیابی ہے۔ آج یہ بات بھی قرین قیاس ہے کہ سٹیم سیل ریسرچ کے نتیجے میں انسان شاید سو سال میں طبعی موت کو مکمل شکست دینے میں کامیاب ہو جائے۔ حادثاتی موت کے امکانات کے شماریاتی تجزیے بھی یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ بہتر معاشرتی اور حفاظتی انتظام اور امن پسند معاشروں کی تشکیل سے اس کا تعلق براہ راست ہے۔

کیا اب بھی یہ سمجھنا مشکل ہے کہ موت کی وجوہات ہاتھ کی لکیروں میں نہیں ہوتیں۔ جو معاشرے ترقی یافتہ ہیں وہاں اوسط عمر بڑھتی چلی جا رہی ہے اور ہمارے جیسے معاشرے طبی سہولیات، صاف پانی، حفاظتی انتظامات اور شہری تربیت اور خالص خوراک کی عدم دستیابی کے باعث اپنے قیمتی فرد کھوتے جاتے ہیں اور بجائے ذمہ داروں کے گریبان پکڑنے کے ہم روتے ہوؤں کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہیں اور بھرائی ہوئی آواز میں کہتے ہیں۔ ”خدا کی یہی مرضی تھی۔ ان کے جانے کا یہی وقت لکھا تھا۔ صبر کیجیے“

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad