کل خرگوش کو پکڑنے کے ڈرامے نے اسے سیاسی شیر بنا دیا


چند دن پشاور میں گزار کر سوچ رہا تھا کہ آپ کو بتاؤں کہ پشاور کی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ پرویز خٹک وہاں کی سڑکوں پر بم مار کر بھاگ گئے ہیں، کیا معلوم تھا کہ وہاں واقعی خود کش دھماکہ ہو جائے گا اور ہارون بشیر بلور شہید ہوں گے۔ کل کی بات لگتی ہے جب بشیر بلور کا انٹرویو ان کے گھر میں لیا تھا جہاں سفید مور گہری سبز گھاس پر پھرتے اور سفید حسین پتھروں سے پانی کے فوارے پھوٹا کرتے تھے، آج نہ بشیر بلور ہیں اور نہ وہ گھر جسے اب امیر مقام خرید چکے ہیں، اب ہارون بھی چلے گئے، اس صدمے کا شکار تھا کہ مستونگ کی خبر نے آ لیا۔ دہشت گردی کا عفریت دوبارہ سے ہمیں جکڑ رہا ہے۔ مجھے علم ہے کہ عام آدمی صرف اپنے پیاروں کے نزدیک ہی اہمیت رکھتا ہے ورنہ وہ ایک نمبر یا عدد کے سوا کچھ نہیں۔ دہشت گردی خود پیدا نہیں ہوتی بلکہ سیاست ہی ہے جو اسلحےو بارود کے بل پر کی جاتی ہے۔ اس بات کو یہاں روک کر قومی سیاست کی جانب آتے ہیں کہ ان دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔

نواز شریف اور مریم کی واپسی اور جیل منتقلی کی قانونی حیثیت اور پوزیشن قانون دانوں پر ہی چھوڑنا مناسب ہے۔ میں خود کو سیاسی امور تک محدود رکھتے ہوئے یہ گزارش کروں گا کہ جو بات نواز شریف 28 جولائی 2017 سے کہہ رہا تھا اور مجھ سمیت لوگ ہنس رہے تھے کہ حضور آپ کی پارٹی ابھی حکومت ہے، کل کی کارروائی نے اس کی بات یا الزام کو حقیقت بنا دیا۔ جو بات ایک سال سے ہضم نہیں ہو رہی تھی چند گھنٹوں میں زود ہضم اس طرح سے ہوئی کہ بچے بھی جان گئے۔ اس کامیابی پر نواز شریف اور مریم نواز کو نگران حکومت کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔

سیدھی بات ہے کہ اس وقت پاکستان پر جو لوگ حکومت کر رہے ہیں وہ کسی کو جوابدہ نہیں، یہ حکومت آئینی تو ہے مگر نمائندہ نہیں، دوسرے الفاظ میں یہ حکومت، سول اور ملٹری بیوروکریٹس چلا رہے ہیں۔ یہ وہی زنگ آلود خواب ہے جس کی خواہش آہوں کی شکل میں آپ اکثر پڑھتے اور سنتے ہوں گے اور کیا معلوم کہ خود آپ کے دل میں بھی یہ خواہش انگڑائیاں لیتی ہو۔ اب اس حکومت کی کارروائی پر غور کریں۔ کیا آپ کے خیال میں نواز شریف جہاز سے اسلحہ تان کر حملہ کرنے آرہا تھا؟ ظاہر ہے کہ جہاز پر چڑھنے سے قبل اس کی تلاشی ہوئی ہو گی، تو اس کا امکان نہ ہونے کے برابر تھا۔

جس لاہور میں چند دن قبل تک نواز شریف کی دس سال کی حکومت قائم تھی وہ پاگل تھا کہ اس کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیتا، کیا اس کے استقبال کرنے والے انقلاب لانے کی قوت رکھتے تھے۔ کیا اس ملک میں انتخابی مہم نہیں چل رہی، کیا اس وقت ملک میں لوگ اکٹھے ہو کر جلسوں میں شرکت نہیں کر رہے، کیا اس وقت جذباتی تقریریں نہیں ہو رہیں۔ کیا آپ کو شک تھا کہ نواز شریف کو لینے دس لاکھ لوگ اکٹھے ہو جائیں گے اور وہ نعرہ تکبیر لگا کر اپنے لوگوں کو آواز دے گا کہ جاؤ طاقت کے تمام مراکز کو آگ لگا دو، اسی لاہور میں اپریل 1986 کو بے نظیر بھٹو کا استقبال ہوا تھا تو کونسا انقلاب آ گیا جبکہ اس وقت کوئی انتخابی مہم بھی نہیں تھی اور ضیاء الحق باوردی حکمران تھا، اور کیا سرکاری ٹی وی جس نے اس کا مکمل بائیکاٹ کیا تھا اس استقبال کی حیقیقت یا اہمیت کو تاریخ سے مٹا پایا تھا۔

ایک شخص جو ابھی طاقت کے ایوانوں سے باہر نکلا ہے، عدالت سے سزا پانے کے بعد خود گرفتاری دینے بیٹی کو ساتھ لایا ہے اس کو ہی گرفتار کرنا تھا، کر لیں۔ جو کیا بالکل وہی کریں مگر جگہ جگہ راستے روک کر بند کر کے، میڈیا کو سیدھا کر کے یا ڈنڈے چلا کر اس کے علاؤہ آپ نے کیا حاصل کیا کہ دس سال کی حکومت کے بعد مظلومیت کے جس مقام پر پہنچنے کے لیے عام طور پر پانچ سال یا زیادہ کی اپوزیشن والی مار کھانا پڑتی ہے آپ نے چند گھنٹوں میں اسے وہاں پہنچا دیا۔

کیا قیامت آ جاتی اگر اس انتخابی مہم کے دوران جو اب محض ایک ہفتے کے لگ بھگ رہتی ہے نواز شریف کو ہاتھ بھی نہ لگاتے۔ اس کے کارکن اس کا استقبال کرتے وہ جذباتی تقریریں کرتا، بالکل ویسی جس طرح کی وہ ایک سال سے کیے چلا جا رہا ہے، کیا نئی بات تھی اس کے پاس جو کر کے وہ کسی کی سلامتی کوخطرے میں ڈالتا؟ دوسرے الفاظ میں ایک خرگوش کو پکڑنے لئے اتنا ڈرامہ ہوا کہ اب وہ واقعی سیاسی شیر ہے اور سارا انتخاب کل کے بعد بے معنی ہو چکا۔

غور کریں نواز شریف پہلے دن سے کیا کہہ رہا ہے کہ میری لڑائی سایوں سے یا ایجنسیوں سے ہے مریم نواز کا دعویٰ ہے کہ ہماری لڑائی پاکستان تحریک انصاف سے نہیں بلکہ کسی اور سے ہے۔ اس وقت پاکستان تحریک انصاف اقتدار میں نہیں یعنی نواز شریف کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے گرفتار نہیں کیا نہ ہی کل جس حکومت نے راستے بند کیے اور میڈیا کو مجبور کیا کہ وہ مسلم لیگ نواز کے کارکنوں کو سکرین پر وقت نہ دے وہ تحریک انصاف کی تھی۔

سادہ الفاظ میں جنگ کی وہ لکیر جو کل واضح طور پر کھینچی گئی وہی تھی جو نواز شریف کا بیانیہ تھا۔ تحریک انصاف بیٹھے بٹھائے صاف ہو گئی اب وہ ووٹ لیں یا حکومت دونوں ہی بے معنی ہو چکے کیونکہ ان کے سب سے بڑے سیاسی حریف کو خود انہوں نے نہیں بلکہ کسی اور صاف کر دیا اب وہ ایک اجڑے میدان میں زخمی کھلاڑیوں سے مقابلہ کریں گے جو ہر تماشائی جانتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس نے پی ٹی آئی کا راستہ صاف کیا ہے، کیا وہ اس کے عوامی مینڈیٹ کا احترام کرے گا، یا اسے میز کی صفائی پر لگائے گا۔ دوسری طرف مسلم لیگ میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل بڑی حد تک رک جائے گا۔ وہ تمام مسلم لیگی جو دس سال کی حکومت کے بعد تحریک انصاف کی سیاسی طاقت سے ڈرے بیٹھے تھےاب سینہ تان کر بولیں گے کہ ان کا مقابلہ تو بڑوں سے ہے یہ بچے کیا بیچتے ہیں۔ وہ طعنہ جو وہ سعودی عرب کے معاہدےپر سنتا رہا وہ بھی ختم ہوا۔

مسلم لیگی ورکر بشمول انتظامی ڈھانچے کے ابھی دس سال کی حکومت سے فارغ ہوا تھا، جس نے پیسہ کمایا اسے بچانے کی فکر میں تھا، جس نے سماجی رابطوں کو انجوائے کیا تھا، مثلاً خوشی غمی پر ایم این اے، ایم پی اے یا وزیر وغیرہ کی شرکت وغیرہ وہ اس کی دھن میں مگن تھا اور پانچ سال آرام سے گزار لیتا دوسری طرف پی ٹی آئی کا کارکن اور انتظامی ڈھانچہ تھا جو 2013 کے الیکشن سے بیٹھا دانت پیس رہا تھا، ظاہر ہے کہ محرومی اور غصہ انسان میں حیرت انگیز توانائی پیدا کرتے ہیں جو مسلم لیگی ورکر میں نہیں تھا۔ خیر ہو صاحب اور افسروں کی حکومت کی کہ انہوں نے سیاسی بساط ہی الٹ دی۔

اب پی ٹی آئی کے دوستوں کے لیے عرض ہے کہ وہ یاد رکھیں کہ ابھی تک انہوں نے نہ تو پیپلز پارٹی کی اپوزیشن دیکھی ہے اور نہ ہی نواز شریف کی، نہ تو انہوں نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مار کھائی ہے نہ ہی جیل دیکھی ہے۔ پختونخوا ایک بہت محدود تجربہ تھا۔ مرکز اور پنجاب میں حکومت بنانا مکمل نہیں ادھوری تصویر ہے، یہ تصویر اپوزیشن اور دیگر مراکز کی شراکت داری سے مکمل ہوگی۔ مطلب مرکزی حکومت ہی نیا تجربہ نہیں ہو گا بلکہ میڈیا اور اپوزیشن کنٹرول بھی انہیں سیکھنا ہو گا جو لوگ آج یہ کام کر رہے ہیں ہمیشہ پی ٹی آئی کے لئے نہیں کریں گے۔ باکمال اداکار افضال احمد نے ایک نصیحت کی تھی کہ کبھی کسی سے اتنی مدد مت مانگنا کہ کل کو واپس نہ کر پاؤ، ہی ٹی آئی کے لئے یہ نصیحت تو اب بے کار ہو چکی دیکھنا یہ ہو گا کہ جس جس کی مدد وہ لے بیٹھے ہیں واپس کس طرح کریں گے۔

رومانس کی عمر محدود جبکہ ضروریات کا عذاب مستقل ہوتا ہے پی ٹی آئی کیا کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنے تمام کارکنوں کو ان کی خوشی کے مطابق نوازے، حال ہی میں صرف ٹکٹوں کی تقسیم پر جو اودھم مچا تھا سب کے سامنے ہے، ابھی تو بہت امیدوں نے ٹوٹنا ہے۔ بے چینی کی ایک جائز وجہ یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کی صف اول کی قیادت جانتی ہے کہ یہ ان کا پہلا ہی نہیں بلکہ شاید آخری چانس بھی ہوگا جس کی بنیادی وجہ عمران خان کے بعد کسی کا نہ ہونا ہے، عمران خان خود بھی اپنے جانشین کا اعلان کر دیں تو بھی بہت دھڑے بغاوت کر جائیں گے، یہ ساری رونق عمران خان دم سے ہے اور پیچھے کچھ بھی نہیں۔

یہ غیر معمولی صورتحال ہو گی اور اس میں چھینا جھپٹی بھی غیر معمولی ہو گی۔ کون جانتا ہے اس ڈگمگاتی صورتحال کے ساتھ دہشت گردوں کے ساتھ نمٹنا کیسے ممکن ہو گا۔ اگر ملکی سلامتی پر معمور اداروں نے ملک بھی چلانا ہے اور جنگ بھی لڑنی ہے تو پھر وہ زندہ مقبروں کا بوجھ کیوں اٹھائیں گے۔ مجھے ہمدردی ہے ان تمام دوستوں سے جو دیانتداری سے اب بھی امید اور توقع رکھتے ہیں کہ الیکشن ہوں گے اور عوامی حکومت آئے گی۔ دکھ یہ ہے کہ آئندہ ابھرتی صورتحال کے بعد شاید عوام کی بڑی تعداد بالخصوص نوجوان سیاسی عمل سے لا تعلق ہو جائیں جس طرح بھٹو کے انجام کے بعد اسی اور نوے کی پوری دو دہائیاں گزری تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).