لاہور میں منظور پشتین کے نعروں کی گونج پریشان کن ہے


مسلم لیگ نون کو کبھی سٹریٹ پاور کی حامل جماعت نہیں سمجھا گیا۔ گلیوں سڑکوں پر طاقت اور بے خوفی کا جو مظاہرہ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے کارکن کرتے رہے ہیں اور حالیہ تاریخ میں طاہر القادری اور خادم رضوی کے مریدین نے کیا ہے، وہ کبھی بھی نون لیگ والے نہیں کر پائے۔ اس کا ہمدرد گھر میں بیٹھ کر جلتا کڑھتا تو رہتا ہے مگر سڑک پر نہیں نکلتا۔ ”میاں صاحب قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں“ کے نعرے تو بہت لگاتا ہے مگر جب میاں صاحب قدم بڑھا دیتے ہیں تو پیچھے ان کارکنوں کو غائب پاتے ہیں۔

مگر یہ روایت 13 جولائی 2018 کے دن ختم ہو گئی۔ اس دن نون لیگ کے کارکن پہلی مرتبہ پولیس سے ٹکراتے اور اس کی لگائی ہوئی رکاوٹوں کو عبور کرتے دکھائی دیے۔ ویسے ان کو علامۃ الدہر و شیخ الاسلام طاہر القادری کا شکر گزار ہونا چاہیے جنہوں نے کنٹینروں کی ناقابل عبور رکاوٹوں کو ہٹانے کے لئے کرین دریافت کی تھی، جس کی مدد سے وہ نون لیگ کی حکومت کے روڈ بلاکس کو ہٹا کر پہلے اسلام آباد اور پھر ریڈ زون میں دھرنا دینے کے قابل ہوئے تھے۔

بظاہر یہ نون لیگ کا ایک اچھا اور بڑا شو تھا۔ لیکن اس میں ایک نہایت پریشان کن پہلو بھی دکھائی دیا۔ اطلاعات کے مطابق ان ریلیوں میں دہشت گردی کے متعلق وہی نعرے بھی سنائی دیے جو منظور پشتین کی ریلیوں کا خاصہ رہے ہیں۔ پنجاب کے دل لاہور میں فوج کے متعلق ایسے نعرے ایک انہونی ہیں۔ باقی تین صوبوں نے بھارت سے جنگ کا اس طرح سامنا نہیں کیا ہے جس طرح پنجاب نے کیا ہے۔ باقی تین صوبوں میں سے صرف سندھ بھارتی حملے کی زد میں آیا ہے مگر جنگ اس کے نسبتاً غیر آباد علاقوں میں لڑی گئی تھی۔ پنجاب میں جنگ گنجان آباد علاقوں میں لڑی گئی تھی اور لاہور جیسے بڑے شہر کو اپنی آزادی کے لئے لڑنا پڑا تھا۔ اسی وجہ سے پنجاب میں فوج کا بے حد احترام کیا جاتا رہا ہے۔

سنہ پینسٹھ کی جنگ میں پنجاب کے عوام نے اپنی فوج کے ساتھ جو اتحاد بنایا تھا، وہ اب تک قائم تھا۔ لاہور کینٹ میں فوجی ناکوں پر یہ منظر عام دکھائی دیتا تھا کہ ننھے بچے گزرتے ہوئے وہاں کھڑے فوجیوں کو سیلوٹ کرتے ہیں۔ وسطی پنجاب کا ایک عام پنجابی فوج کے خلاف کچھ نہیں سن سکتا۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ پنجاب کے دل لاہور میں، جو بھارتی حملے کا براہ راست نشانہ بنا تھا اور فوج کی بے مثال شجاعت کی بدولت ہی بھارتی سینا یہ چند کلومیٹر کا فاصلہ طے نہیں کر پائی تھی، کل ایسے نعرے لگے ہیں؟

معاملہ سادہ ہے اور ہماری تاریخ میں یہ باب پہلے بھی لکھا جا چکا ہے۔ جب سنہ ستر کے الیکشن میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ نے قومی اسمبلی کی 300 میں سے 160 سیٹیں جیت لی تھیں تو جنرل یحیی خان کی فوجی حکومت نے ان کے حوالے حکومت نہیں کی تھی۔ شیخ مجیب کے چھ نکات کو ملک توڑنے کی سازش قرار دیا گیا تھا۔ ان نکات میں اہم یہ تھِے کہ وہ قرارداد لاہور کے مطابق وفاقی حکومت کا قیام چاہتے تھے اور وفاقی حکومت کو صرف  خارجہ اور دفاع کے شعبے دینا چاہتے تھے۔ لیکن شیخ مجیب 1969 ء تک علیحدگی کی طرف مائل نہیں تھے۔ اس سلسلے میں جناب خورشید ندیم کے بیس جنوری 2018 کالم سے اقتباس پیش کرتا ہوں۔

الطاف حسن قریشی صاحب کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ”میرے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی چاہتا ہوں۔ یہ سراسر بہتان اور افترا ہے۔ اگر میرا منصوبہ اسے آزاد کرانے کا ہوتا تو میں 22 فروری 1969ء کو اس کا اعلان کر سکتا تھا، میں جب جیل سے باہر آیا تب لاکھوں انسان میرے گرد جمع تھے۔ میں ریس کورس میدان میں علیحدگی کا اعلان کر سکتا تھا۔ اس وقت مجھے روکنے والا کون تھا؟ میں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ میں نے پاکستان کی تشکیل میں اپنا خون دیا ہے اور میں وطن کی سلامتی کے لیے جد وجہد کر تا رہوں گا“

اس جواب پر قریشی صاحب نے سوال کیا: ”مگر آپ کے چھ نکات تو کچھ اور کہتے ہیں؟‘‘ اس پر شیخ مجیب الرحمن کا جواب سنیے ”قریشی صاحب! چھ نکات قرآن اور بائبل تو نہیں اور ان پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے۔ اسی انٹرویو میں انہوں نے دوسری بار کہا ”میں سچے دل سے کہتا ہوں کہ چھ نکات قرآن اور بائبل نہیں۔ یہ تو میں نے سیاسی سمجھوتے کے لیے پیش کیے تھے مگر بعض اخبارات اور قائدین انہیں ایک دوسرے رنگ میں پیش کر رہے ہیں۔ گفتگو اور بات چیت کے ذریعے ایک سیاسی سمجھوتے تک پہنچا جا سکتا ہے۔ ‘‘

آپ نے خورشید ندیم صاحب کے کالم سے اقتباس پڑھا۔ پھر کیا وجہ ہوئی کہ 1965 کے انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ مل کر ان کی انتخابی مہم چلانے والا 26 مارچ 1971 کو بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کرنے پر مجبور ہو گیا تھا؟

جب عوام کو دبایا جائے تو وہ اپنے حق کے لئے جد و جہد کرتے ہیں۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے عوام نے اپنی امیدیں مادر ملت فاطمہ جناح سے لگائیں۔ ان کے خلاف بہت زیادہ دھاندلی کرنے کے علاوہ انہیں غدار قرار دیا گیا۔ ان کے بعد شیخ مجیب خود مشرقی پاکستان کے عوام کا نمائندہ بن کر ابھرا۔ شیخ مجیب کے یہ چھے نکات اگر من و عن بھی مان لئے جاتے تو آج ڈھاکہ پر اپنی علیحدہ کرنسی (نکات میں مشترکہ کرنسی کی گنجائش بھی دی گئی تھی) اور صوبائی عسکری ملیشیا کے ساتھ بھی اس وقت پاکستان کا جھنڈا لہرا رہا ہوتا۔ ہم نے عوام کی مرضی ماننے کی بجائے وہاں خون کے وہ دھبے چھوڑے ہیں جو اتنی برساتوں کے بعد بھی نہیں دھل پائے۔

دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی عوام کو ایک محدود وقت کے لئے ہی دبا سکتی ہے۔ حالیہ تاریخ میں ہم ایرانی انقلاب سے عبرت پکڑ سکتے ہیں جب اس خطے کی طاقتور ترین ایرانی فوج اور سفاک ترین شاہی خفیہ ایجنسی ساواک بھی عوام کی طاقت کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئی تھی۔ ویت نام کے لوگوں نے 56000 تابوت امریکا بھیجے تھے۔

پاکستانی فوج نے سولہ دسمبر 1971 کے دن ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں اس وجہ سے ہتھیار نہیں ڈالے تھے کہ وہ ہندوستان کی فوج کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔ ہندوستانی فوج بہت زیادہ تھی مگر پاکستانی فوج اس کا بہادری سے مقابلہ کر رہی تھی۔ اسے صرف اس وجہ سے شکست ہوئی کہ مشرقی پاکستان کے عوام بھی پاکستانی فوج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ جب عوام لڑنے مرنے پر اتر آئیں تو ”کالے ٹھگنے بنگالی“ جو مارشل ریس بھی نہیں ہوتے، طاقتور دشمن ثابت ہوتے ہیں۔

سولہ دسمبر 1971 کا دن ہمیں ایک سبق سکھاتا ہے۔ کبھی بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ملک کے عوام میں فوج کے خلاف جذبات پیدا ہوں۔ دونوں مل کر ہی وطن کا دفاع کر سکتے ہیں ورنہ دشمن اس صورتحال کا فائدہ اٹھانے کو ہماری مشرقی سرحد پر بھی کھڑا ہوتا ہے اور مغربی پر بھی۔ فیصلہ سازوں کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ یہ نہایت پریشان کن نعرے کیوں لگ رہے ہیں؟ نعروں کو دبانے کی بجائے ان مسائل کو حل کرنا اہم ہے جو ان نعروں کا سبب بن رہے ہیں۔

اگر عوام ایک کالے چور کو بھی اپنا حکمران منتخب کرنا چاہیں تو ان کی مرضی پر سر تسلیم خم کر دینا چاہیے۔ ایک نہایت کرپٹ یا گمراہ حکمران بھی زیادہ سے زیادہ پانچ برس ملک کو کچھ حد تک نقصان پہنچا سکتا ہے۔ عوام چاہیں تو غداری کے الزام میں جیل میں بند کیا گیا لیڈر بھی قومی اسمبلی کی 300 میں سے 160 سیٹیں جیت لیتا ہے۔ لیکن اگر عوام کی اکثریت کی مرضی کو ماننے سے انکار کر دیا جائے تو یہ انکار اس سے کہیں زیادہ ضرر رساں ثابت ہوتا ہے۔ سولہ دسمبر 1971 کا دن یہی کہتا ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar