شہباز شریف، بلاول بھٹو،  دھمکی اور حقائق


\"Imamپانامہ کی دلدل میں گردن تک دھنسے ہوئے وزیرِاعظم نوازشریف کے برادر خورد شہباز شریف بِلاول بھٹو زرداری سے مخاطب ہوئے ہیں \”ایک کرپٹ شخص کا بچہ وزیرِاعظم سے استعفی مانگ رہا ہے، لیکن اسے معلوم ہونا چاہیئے کہ اِس کے والد کے دورِ حکومت میں لوٹ مار کا بازار گرم رہا۔ اگر اِس کے والد کے ایک بھی میگا سکینڈل کی تفصیلات سامنے آ گئیں تو وہ دم سادھ کر لاڑکانہ جا بیٹھے گا۔ اس بچے نے ابھی آگے جانا ہے، اس لئے اسے سوچ سمجھ کر وہی بات کرنی چاہیے جو اس کی پارٹی سہہ سکے۔ بیٹا، آپ کو وہ بات کرنی چاہیے جو آپ برداشت کرسکو\”۔ شہباز شریف نے اپنے تئیں بلاول بھٹو کے سامنے ان کے باپ کے میگا سکینڈلوں ایسے پوشیدہ رازوں کا دھمکی آمیز اِنکشاف کیا ہے۔ سچ سے اِنتہائی پرہیز کے رجحان میں مبتلا شہباز شریف شاید بھول گئے ہیں کہ آصف علی زرداری کے خلاف جھوٹے میگا سکینڈل وہ کھلی حقیقتیں ہیں، جو بلاول بھٹو زرداری نے اپنی جان پر سہی ہیں۔

بلاول بھٹو اچھی طرح جانتے ہیں کہ اِن کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کے قاتل ڈکٹیٹر ضیاءالحق کی معنوی اولاد کون لوگ ہیں اور کِن طاقتوں نے ان کے مامؤوں مرتضٰی بھٹو اور شاہ نواز بھٹو کو قتل کیا۔ یہ بھی کوئی پوشیدہ راز ہے کہ وہ نہ جانتے ہوں کہ کِن لوگوں نے اِن کی والدہ محترمہ بینظیر بھٹو، نانی محترمہ نصرت بھٹو اور والد آصف علی زرداری کے خلاف انسانیت سے گِری گھٹیا سازشیں کیں، کردارکشی کے طوفان بپا کیے اور جھوٹے مقدمات کے انبار لگا دیئے۔ اِن کے والد کی جوانی کا قیمتی دور جیلوں، عقوبت خانوں اور تنگ و تاریک قلعوں کی نظر کر دیا اور کوئی جرم ثابت کیے بغیر عمر قید جتنا عرصہ جیلوں میں پابند و سلاسل رکھا، قید کے دوران ان کی والدہ (بلاول کی دادی) سمیت کئی قریبی رشتہ داروں کی وفات پر پیرول پر عبوری رہائی نہ دی۔ اسیر زرداری پر دورانِ قید بد ترین غیر قانونی جسمانی تشدد کیا، انھیں ذلت آمیز طریقے سے رات بھر سونے نہیں دیا جاتا تھا، گھنٹوں کھڑا کر کے ان کی آنکھوں میں مسلسل تیز روشنی ماری جاتی تھی، شدید تشدد کر کے انھیں بے ہوش کرنا معمول کی بات تھی، دہشت زدہ رکھنے کے لئے تشدد کے نت نئے طریقے آزمائے جاتے رہے، زبان اور گردن پر کٹ تک لگائے گئے، انھیں جیل میں ہی دل کی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ بلاول بھٹو زرداری نے فقط اکیلے نہیں بلکہ پوری قوم نے دیکھا کہ لمبی زبانوں، دراز دہنوں، کوتاہ نظر اور تنگ ذہن لوگوں نے روئے زمین پر اِنسانوں پر لگایا جانے والا ہر شرمناک، گھٹیا اور رکیک الزام آصف علی زرداری پر لگایا اور جھوٹے مقدمات بنا کر جھکانے کی سر توڑ کوششیں کیں، مگر آصف علی زرداری ہر تشدد کا بہادری سے سامنا کرتے رہے۔ ہر وار کو مردانہ وار سینے پر سہا۔ وہ ہمیشہ آبرومندانہ استقلال کے ساتھ سینہ تان کر کھڑے رہے۔ اپنی ہر تکلیف صبر، خاموشی، شجاعت اور حسن توازن پر مبنی عظمتِ کردار سے جھیلی اور کسی لمحے بھی خوف اور ناامیدی کو خود پر طاری نہیں ہونے دیا اور اس طرح اِس مردِحر نے مخالفین کو بار بار زچ کیا اور ان کے مذموم ارادوں میں کبھی بھی کامیاب نہ ہونے دِیا۔ یہ ناقابل تردید تاریخ ہے کہ آصف علی زرداری کے خلاف لاتعداد مقدمات سب کے سب جھوٹے ثابت ہوئے۔

بلاول بھٹو نے جب ہوش سنبھالا تو اپنے والد آصف علی زرداری کو جیل کی بند کوٹھڑی میں پابند سلال پایا۔ بلاول بھٹو اور اِن کی بہنوں کا بچپن اور لڑکپن مجموعی طور پر باپ کے بغیر ہی گذرا۔  اِس طرح آصف علی زرداری اپنی اولاد کے بچپن کا دور دیکھنے سے محروم رہے، بچوں کا ساتھ تب نصیب ہوا جب وہ اپنی نوعمری کی دہلیز پار کر چکے تھے۔ اِن بچوں نے ہوش سنبھالنے کے بعد زیادہ وقت انھیں صرف جیل میں ہی دیکھا تھا۔ ہر ملاقات پر معصوم بچے انجانے میں ان سے اِصرار کرتے تھے کہ وہ ان کے ساتھ گھر چلیں۔ وہ اپنے بابا سے اکثر پوچھتے کہ وہ دوسرے بچوں کے بابا کی طرح ان کے ساتھ گھر میں کیوں نہیں رہتے اور جج انھیں جیل کی چھوٹی سی کوٹھڑی سے رہا کیوں نہیں کرتے؟ بِلاول وہ دِن یقینی طور پر نہیں بھولے ہوں گے، جب ایک دن اِن کی ننھی بہن آصفہ ضِد کر بیٹھی کہ وہ اپنے بابا کو ساتھ لے کر جج کے پاس جائے گی اور اس سے خود لڑائی کرے گی کہ وہ اِس کے بابا کو گندی سی اس جگہ سے رہا کیوں نہیں کرتے۔ معصوم آصفہ اپنے بابا سے بار بار پوچھا کرتی کہ آخر جج صاحب کو احساس کیوں نہیں کہ ہمیں بھی اپنے بابا کی ضرورت ہے۔ زرداری کے بچے اب ہوش سنبھالنے کے بعد اِن باتوں کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ اِن کے بابا کے ساتھ یہ سلوک کیوں ہوتا رہا ہے؟

کیا چشم دید گواہ بلاول بھٹو کو یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ کس طرح اِن کی والدہ محترمہ بینظیر بھٹو کو جھوٹے میگا سکینڈلوں کے سِلسلے میں عدالتوں میں صبح راولپنڈی، دوپہر کو لاہور اور دوسری صبح کراچی میں پیشیاں بھگتوائی جاتی تھیں؟ کیا وہ اپنے بچپن کے دکھ اور اپنے والدین کے درد بھول گئے ہوں گے کہ جب اِن کی والدہ سابقہ وزیرِاعظم اپنے تینوں بچوں کے ساتھ اپنے خاوند کو ملنے جاتیں تو انھیں جیل کی ڈیوڑھی میں سخت گرمی اور تپتی دھوپ میں فٹ پاتھوں پر گھنٹوں بٹھا کر طویل انتظار کروایا جاتا تھا؟

بِلاول بھٹو اپنی والدہ محترمہ بینظیر بھٹو، والد آصف علی زرداری اور نانی بیگم نصرت بھٹو کے خلاف سب سے مشہور و معروف میگا سکینڈل یعنی سوئس کیس (ایس جی ایس اور کوٹیکنا کمپنیز کیس) سے نابلد نہیں ہیں۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ عوام کی بدترین برین واشنگ کرنے والے پروپیگنڈسٹوں اور اِنصاف کے قاتلوں نے اِنتہائی بے حیائی سے یہ کیس انیس سال تک پوری دھوم دھام سے چلایا۔ اِس کیس میں شریفین نے لاہور ہائیکیورٹ کے \”صادق و امین\” ججوں سے محترمہ بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو 15 اپریل 1999ء کو ساری جائیداد کی ضبطی اور سات سال کی سزا دلوائی تھی۔ ججوں اور شریفین کی ملی بھگت اور ریکارڈِڈ ٹیلیفونِک بات چیت کے طشتِ ازبام ہونے پر سپریم کورٹ آف پاکستان کو 6 اپریل 2001ء کو مجبوراً یہ سزا کالعدم قرار دینی پڑی (یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے اس بینچ میں جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی شامل تھے) اور اِسی بنا پر سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ راشد عزیز (جبری ریٹائرمنٹ کے وقت جسٹس راشد عزیز سپریم کورٹ کے جج تھے) اور جسٹس ملک محمد قیوم دونوں کو اپنی اپنی نشستوں سے استعفے دینے پڑے (مگر حیرت ہے کہ شریف برادران کو اِس کیس میں بھی ہمیشہ کی طرح کوئی سزا نہیں ملی)۔ بعد ازاں یہ کیس چلتا رہا مگر ریفرنس کے لیےجمع کرائی گئی ساری جعلی دستاویزات کی وجہ سے راولپنڈی کی احتساب عدالت نمبر 2 نے 30 جولائی 2011ء کو ملزمان کو بری کر دیا۔ آصف علی زرداری کے بارے میں عدالت نے یہ فیصلہ سنایا کہ چونکہ انھیں صدارتی استثنی حاصل ہے، اس لیے ان کے بارے میں فیصلہ عہدہ صدارت کے ختم ہونے کے بعد سنایا جائیگا (اس فیصلے کی اتنی بڑی خبر کو پاکستانی اخبارات نے کس طرح رپورٹ کیا؟ کتنی بڑی سرخیاں تھیں؟ سرخیوں کے الفاظ کیا تھے؟ اور یہ خبر کن صفحات پر چھاپی گئی؟ قلمی مجاہدین نے عدالتی فیصلے کو کیسے اپنی خواہش کے عین مطابق خبر میں ڈھال کر قارئین تک پہنچایا تھا، ہم یہاں تین اخبارات ایکسپریس، نوائے وقت اور جنگ کی خبروں کے لنک دے رہے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ روزنامہ جنگ نے یہ خبر اِنتہائی چھوٹے فونٹ میں صفحہ نمبر 40 پر چھاپی تھی اور اپنی خبر میں  ایک عام ریفرنس یعنی اے آروائی کا ذکر کیا، ایس جی ایس اینڈ کوٹیکنا ریفرنس کا ذکر تک نہیں کیا تھا)۔  مگر بعد میں دِلپسند آئینی تشریح کے عین مطابق، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو  آصف علی زرداری کے خلاف سوئس کیس کو مصالحے دار بنانے اور نئے پرنٹوں کے ساتھ پیش کرنے کے زیادہ مواقع نظر آئے۔ اِسی لیے انھوں نے این-آر-او کی پٹاری سے اِسے سب سے اہم آئیٹم سمجھ کر نکالا اور شعبدہ بازی شروع کر دی اور ایک منتخب وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کو آئین و قانون سے ہٹ کر گھر بھیج دیا گیا۔ آصف علی زرداری کے عہدہ صدارت کے بعد اِس جھوٹے کیس کی احتساب عدالت میں ایک بار پھر کاروائی شروع کر دی گئی۔ 24 نومبر 2015ء کو عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے آخری ملزم آصف علی زرداری کو بھی باعزت بری کر دیا۔ اس کیس کا اختتام مادر پدر آزاد عدلیہ اور شریفین کے گٹھ جوڑ کا کھلا پوسٹ مارٹم ہے۔ مزید برآں، اِس کیس میں شریف برادران نے پاکستان کی عدالتوں کے ساتھ ساتھ سوئٹزرلینڈ کی عدالت کو بھی \”شریف\” کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں سوئٹزرلینڈ میں پاکستانی سفیر ایس ایم انعام اللہ اور پاکستانی حکومت کے وکیل جیکؤس پاتھن کی جج ڈینیل ڈیواؤ (جو اس کیس کی تفتیش کر رہا تھا) سے 25 مارچ 1998ء کو جنیوا میں اِنتہائی خفیہ ملاقات ثابت ہو چکی ہے اور اس ملاقات کے خفیہ مِنٹس بھی منظر عام پر آ چکے ہیں۔ شریف برادران کی حکومت نے جج ڈینیل ڈیواؤ پر بہت زیادہ دباؤ ڈالنے کی کوشش کی کہ ہر صورت میں بینظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور بیگم نصرت بھٹو کے خلاف کارروائی کی جائے۔ مگر جج نے صاف اِنکار کر دیا اور کہا کہ وہ افورڈ نہیں کر سکتا کہ وہ ایسی فردِ جرم لگا دے جس کے بارے میں وہ مطمئن نہیں ہے اور نہ ہی جھوٹے اِلزامات کی بنیاد پر نامزد ملزمان بینظیر بھٹو، آصف علی زرداری، بیگم بھٹو اور دیگر کو منی لانڈرنگ کے الزمات پر سزا دی جا سکتی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ کیس محترمہ بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری  کے خلاف تمام کیسز میں سے سب سے زیادہ اہم اور مضبوط ترین کیس سمجھا جاتا رہا ہے۔ اگر یہ کیس سچا ہوتا تو شریف برادران کو پاکستان اور سوئٹزرلینڈ کے ججوں سے ملی بھگت کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اب اگر کسی کی عقل نہ کھوئی ہو تو وہ آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ اگر مضبوط ترین کیس کی یہ حالت ہے تو باقی کیسز کا کیا حال ہو گا؟

میاں شہباز شریف کو اپنے تئیں بلاول بھٹو زرداری کو یہ بھی یاد دلانا چاہیئے کہ شریفین کے حکم پر محترمہ بینظیر بھٹو اور اِن کے خاوند یعنی \”کرپٹ شخص\” آصف علی زرداری کے خلاف میگا سکینڈلز پر کیسز بنانے والا احتساب بیورو کا اِنچارج سیف الرحمٰن عورتوں کی طرح بین کرتا ہوا زرداری کے قدموں میں گِر پڑا تھا اور جھوٹے کیسز بنانے پر گڑ گڑا کر معافی کی فریاد کی تھی۔ یاد رہے کہ یہ وہی صاحب ہیں جو نوازشریف کی خواہش پر شہباز شریف کے ساتھ مل کر ججوں کو فون کر کے محترمہ بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو زیادہ سے زیادہ سزا دِلوا کر عبرتناک مثال بنانا چاہتے تھے۔

محسوس ایسے ہوتا ہے کہ شہباز شریف اپنی مسلسل دروغ گوئی پر پورا پورا ایمان رکھتے ہیں۔ اِسی لیے تو انھوں نے فرمایا ہے کہ بِلاول بھٹو کے والد کے دورِ حکومت میں لوٹ مار کا بازار گرم رہا۔ اِس حقیقت سے کِسے اِنکار ہے کہ شریفین نے پاکستان پیپلز پارٹی کے پچھلے دورِ حکومت میں میڈیا اور عدالت کے ساتھ مِلی بھگت کی، جس میں باقاعدہ منصوبے کے تحت دھماکہ خیز سکینڈل اخبارات میں چھپوائے جاتے تھے اور ساتھ میں اِن جھوٹے سکینڈلوں پر سوموٹو ایکشنز لے لیے جاتے تھے۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اِنتہائی ڈھیٹ پن سے عدالت عظمیٰ کو مسلم لیگ (ن) کے پروپیگنڈا سَیل کی شکل دے دی تھی۔ مِلی بھگت گروپ نے پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف ڈیڑھ درجن سے زائد بوگس سکینڈلوں پر سوموٹو ایکشنز لے کر سزائیں دینے کی بھرپور کوشش کی۔ عدالتی کاروائی کا نتیجہ تو آج کے دن تک صِفر ہے مگر جُھوٹے میڈیائی طوفان کے ذریعے شریفین نے پاکستانی عوام کو پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف متنفر کر کے اپنا مقصد سو فیصد حاصل کر لیا تھا۔

شہباز شریف کو یہ بھی یاد ہو گا کہ میمو گیٹ شاہکار ڈرامے کے معماروں نے جب اپنی پہاڑ ایسی ناکامی چھپانے کے لیے اپنے جموروں، میڈیا اور عدلیہ کے ذریعے \”کرپٹ شخص\” یعنی صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے خلاف گرد و غبار اور پراپیگنڈے کا طوفان بپا کیا تو ایسٹیبلشمنٹ کے سب سے بڑے جمورے یعنی لمحہ موجود کے وزیرِاعظم نوازشریف اِشارہ پاتے ہی کالی ٹائی لگا کر بڑی دھوم دھام سے دیدہ و دل فرش راہ کی مکمل تصویر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی عدالت میں میمو پر پٹیشن دائر کرنے جا پہنچے۔ میمو گیٹ بریگیڈ کا منہ کالا تب ہوا، جب میمو گیٹ کیس کے اہم کردار سابق آئی ایس آئی چیف جنرل (ر) احمد شجاع پاشا نے آصف علی زرداری سے التجا کی \”مجھے معاف کر دیں، غلطی ہو گئی، میں نے جو کچھ کیا، اپنے باس (چیف آف آرمی سٹاف اشفاق پرویر کیانی) کے کہنے پرکیا\”۔ مگر سچ آنے کے بعد حرام ہے کہ میموگیٹ بریگیڈ میں شامل \”باضمیروں\” میں سے کِسی ایک نے بھی شرمندگی کا اِظہار کیا ہو۔

بِلاول بھٹو زرداری کو یہ بھی بہت اچھی طرح یاد ہے کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف قومی خزانے سے کروڑوں روپے پھونک کر مختلف شہروں میں تنبو نوٹنکی سجانے والے شہباز شریف اپنے ہاتھ میں دستی پھنکے کے اپنے فن کا خوب مظاہرہ کرتے تھے۔ یہ وہی دن تھے جب شہباز شریف تکرار کے ساتھ کہتے تھے کہ ہم الیکشن جیتنے کے بعد فقط چھ مہینوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کر دیں گے۔ مگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے تین سال گذرنے کے بعد آج پیمرا کی اپنی رپورٹ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ زرداری کے دور سے بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ بڑھ گئی ہے۔ بِلاول بھٹو تو کیا کوئی بھی اگر شہباز شریف کی تنبو نوٹنکی والی تصویریں دیکھ لیں تو وہ تفصیل جانے بغیر شریفین کی \”راست گوئی اور سیاست\” کو پوری طرح سمجھ جائے گا۔

لیپ ٹاپ، میٹرو، سولر لیمپ، گھوسٹ تندور کی سستی روٹی، پیلی ٹیکسی، یوتھ ایمپلائمنٹ سکیم، دانش سکول، قائد اعظم سولر پارک، نندی پور پاور پراجیکٹ اور ساہیوال کول پاور پلانٹ کی شوبازیوں کے بانی مبانی شریفین جِن کے اکثر ترقیاتی منصوبوں کی لاگت اصل لاگت سے ہزار فیصد تک زیادہ ہو جاتی رہی ہے۔ اِن منصوبوں کے ریکارڈ کو آگ لگا دی جاتی ہے، آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو کبھی اِجازت نہیں ملی کہ آنیوالی نسلوں کو گروی رکھ کر شروع کیے گئے ان منصوبوں اور نیشنل اِداروں کی لوٹ سیل کا آزادانہ آڈٹ کر سکے۔ ہر متعلقہ شخص کو دھونس، دھاندلی، طاقت اور \”چمک\” سے مرعوب کر لیا جاتا ہے، اگر کوئی سر پِھرا نہ مانے، بھلے وہ چیف جسٹس آف پاکستان ہی کیوں نہ ہو، سرِعام غنڈا گردی کرتے ہوئے سپریم کورٹ پر چڑھائی کر کے منظر سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ شہباز شریف شاید یہ سمجھتے ہوں گے کہ بلاول بھٹو قطعاً نہیں جانتے کہ قلم کو گھونگرو باندھ کر اِن کے آباواجداد کے بارے میں اپنے پست ذہن و فکر کے جوہر دکھانے والے قلم کار شریفین کے گھپلا منصوبوں پر کیوں بہرے، اندھے اور گونگے بن جاتے ہیں؟ کیا یہ سمجھنا بھی مشکل ہے کہ قومی خزانے کا تھوک کے حساب سے اجاڑ شریفین کی دیدہ دلیری سے کذب بیانی کو اخبارات میں بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ کیوں چھاپا جاتا ہے اور ٹی وی سکرینوں پر اشارہ آبرو کا منتظر زرخرید طبلوں کا ایک لشکر بھی شریفین کا بھرپور دفاع کیوں کرتا ہے؟

شہباز شریف کو یاد ہو گا کہ ان کے بڑے بھائی نواز شریف کے پہلے دورِحکومت میں آصف علی زرداری 1990ء سے 1993ء تک جیل میں قید رہے۔ بعد میں 1996ء میں انھیں ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا اور یہ قید 2004ء تک رہی۔ اِسے مصلحت خداوندی کا کمال ہی کہیئے کہ جب آصف علی زرداری لانڈھی جیل میں بند تھے تو انھیں پابند سلاسل کرنے والے سب سے بڑے کردار میاں نوازشریف خود اپنی حکومت کا اکتوبر 1999ء میں تختہ الٹنے کے بعد روتے دھوتے وہیں آن قیدی بنے اور آصف علی زرداری سے معافی کے طلب گار ہوئے۔ زرداری فریاد سن کر مسکرائے اور لمحہ بھر کو سوچے بغیر فریادی کو معاف کردیا۔

یہ بات تو ابھی یعنی 2013ء کے عام اِنتخابات سے قبل کی ہے کہ جب رات کے اندھیرے میں جی ایچ کیو میں ہونے والی ملاقاتوں میں پاور انجیکشن لگوا کر بڑھے اعتماد کے ساتھ بلند و بانگ دعوےٰ کرنے والے شہباز شریف بڑے طمطراق سے بار بار کہتے تھے \”او زرداری مداری، انتخابات کے بعد اگر تجھے چوکوں پر الٹا نہ لٹکایا اور لاڑکانہ، کراچی، پشاور، لاہور کی سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام شہباز شریف نہیں\”۔ یہ تقدیر کی ستم ظریفی ہے کہ فقط ایک سال کے بعد زرداری کو سڑکوں پر الٹا لٹکانے اور گھسیٹنے کی شدید خواہش رکھنے والے زور آور صاحب اپنے برادرِ عظیم کے ساتھ ایسٹیبلشمنٹ کے بچھائے گئے عمرانی دھرنے کے شکنجے میں پھنسنے کے بعد کھانوں سے زیادہ رغبت نہ رکھنے اور بڑے سے بڑے عشائیے میں بھی اپنے کھانے کا ٹفن ساتھ لے جانے والے \”کرپٹ\” آصف علی زرداری کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے باورچی بن گئے۔ شہبازشریف نے جاتی امراء میں آصف علی زرداری کی آمد پر چھ قسم کے سلاد اور اٹھائیس میٹھے سمیت کھانے کی بہتر ڈشیں اپنی نگرانی میں بنوائیں۔ مزید برآں، آں جناب اپنی ماضی کی تمام فضول گوئیوں پر آصف علی زرداری سے معافی کے درخواستگار ہوئے تو زرداری نے مسکرا کر ہمیشہ کی طرح معاف کردیا۔ یہ حقیقت جس کو بمشکل ڈیڑھ سال گذرا ہے، اگر شہباز شریف کو یاد دلائی جائے تو شاید ان کے لیے ایک بہت بڑا انکشاف ہو گا۔ یہاں یہ ذِکر کرنا بھی ضروری بنتا ہے کہ اپنے بھائی شہباز شریف کو زرداری کے خلاف بدزبانیوں پر تھپکی دینے والے میاں محمد نواز شریف آج کل قول و فعل میں اپنے ہم خیالوں کے بارے میں شکوہ گزار ہیں کہ وہ کہتے ہیں \”ہم پرائم منسٹر کے گلے میں رسہ ڈال کر گھسیٹیں گے\”۔ وزیرِاعظم کی یہ بات سن کر ہمیں ایک ایرانی ضرب المثل بہت یاد آئی \”اصفہان کے بھیڑیے سے اصفہان کا کتا ہی نمٹ سکتا ہے\”۔

شہباز شریف کو یہ بات تو ازبر ہو گی کہ ڈکٹیٹر پرویز مشرف سے اِن کے خاندان کے نالوں، فریادوں، مِنتوں اور ترلوں کے بعد دس سالہ معاہدے کے تحت عوام کو ڈکٹیٹر کے شکنجے میں چھوڑ کر پورا خاندان اپنے پرتعیش سامان، پسندیدہ باورچیوں اور مالشیوں کے ساتھ رات کے اندھیرے میں رفو چکر ہو کر سعودی عرب میں سرور پیلس میں سرور لینے جا پہنچا تھا، جہاں اِن کے برادرِ عظیم نے سہیل وڑائچ سے لکھوائی گئی اپنی کتاب (غدار کون؟ نوازشریف کی کہانی ان کی زبانی) میں بِلاول بھٹو کے والدین کے بارے میں اِقرار کیا تھا \”احتساب کا طریق کار غلط تھا۔ ہمیں اس حوالے سے اکسایا گیا تھا۔ فوج اور آئی ایس آئی کا ہم پر دباؤ تھا۔ جان بوجھ کر ہم سے بینظیر اور اپوزیشن کے خلاف ایسے اقدامات کروائے گئے تاکہ سیاست دانوں کا اِعتبار ختم ہو جائے\”۔ یاد رہے یہ وہی نوازشریف ہیں، جنھوں نے 22 اپریل 2016ء کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے قرآن پاک کی آیت کا حوالہ دیا کہ ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ”مومنو! اگر کوئی بدکردار تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کرلیا کرو، مبادا کہ کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا دو اور پھر تم کو اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے۔“

قول علیؓ ہے کہ انسان کے ظرف کی شناخت دو مواقع پر ہوتی ہے۔ اول، جب وہ مصیبت میں گھرا ہو۔ دوئم، جب وہ طاقتور اور صاحب ثروت ہو۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔ شریفین کے کردار نے اقوال علیؓ پر یقین کو مزید پختہ کردیا ہے۔

چونسٹھ سالہ شہباز شریف کو سوچنا چاہیئے کہ اگر اٹھائیس سالہ بلاول بھٹو زرداری کی تربیت بھی اگر \”شریفوں\” کے انداز میں ہوئی ہوتی تو وہ صبر، شرافت اور دانشمندی کی بجائے جوش میں آ کر شریفین کی طلب کے عین مطابق اِن کی فضول گوئیوں کا کیا ردِعمل دیتے؟

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments