ایک سیاسی کارکن کی دلائل بھری گفتگو


حسن اتفاق کہیے یا صرف اتفاق، گذشتہ دنوں ایک جوشیلے و جذباتی سیاسی کارکن سے پوری رات گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ گالیوں سے بچنے کے لئے میں یہاں کسی بھی سیاسی جماعت کا نام لینے سے گریز کررہا ہوں مگر امید کی جاسکتی ہے کہ سمجھنے والے سمجھ جائیں گے کہ سیاسی جماعت کے کارکن کی گفتگو کس لیڈر کی زیراثر ہے۔

گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے سیاسی کارکن نے کہا: ”یار اس بار تو ہمارا لیڈر جیتے گا اور ہم انہیں وزیراعظم بنائیں گے۔ آپ دیکھ رہے ہیں نا عوام کی کتنی بڑی تعداد ان کے جلسوں میں شرکت کررہے ہیں۔ پاکستان کے کسی بھی کونے میں جائے تو ایک جم غفیر ان کے ساتھ مل کر پاکستان زندہ باد اور وزیراعظم۔ وزیراعظم۔ کے نعرے لگاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں اب لوگوں کو دوسرے لیڈران کا پتہ چل چکا ہے کیونکہ وہ کتنی باریاں لے کر بھی اس ملک کو مسائل سے چھٹکارا نہ دلاسکیں، بس ہمارا لیڈر ہی اس ملک اور عوام کی آخری امید ہے۔ “

میں غور سے اس کی ساری باتیں سنتا رہا اور جب اس نے اپنی بات ختم کی تو میں نے کچھ انتہائی سادہ سوالات پوچھے۔ پہلے تو میں ڈررہا تھا کہ آج کل کے سیاسی کارکنان سے باتیں کرنا اور انہیں حقائق و دلائل پر قانع کرنا تقریباً ناممکن ہے مگر پھر بھی اللہ اللہ کرکے کچھ سوالات پوچھ ہی لئے۔

سوالات کا آغاز کرتے ہوئے میں نے کہا، ”چلو مان لیتے ہیں کہ ساری عوام آپ کے لیڈر کے پیچھے کھڑے ہیں، یہ ذرا بتائیں گے کہ جو دعوے وہ پہلے کرچکے ہیں ان میں سے کتنوں پر عمل ہوا ہے؟ “ جواب توقع کے عین مطابق ہی آیا۔ ”دیکھو بھائی ہم کچھ نہیں جانتے لیکن اس بار ملک کی باگ ڈور ہمارا لیڈر ہی سنبھالیں گا۔ “

ساتھ بیٹھے ایک دوست نے پوچھا: ”بھائی جان صوبہ میں تو آپ کی پارٹی کی حکومت تھی، وہاں پر کیا کچھ کیا جو پورا ملک چلانے کی بات کررہے ہو؟ “ جواب ملا صوبے میں سب کچھ ٹھیک ہے، پولیس غیرسیاسی ہوگئی ہے، اساتذہ کو دیکھو کیسے ڈیوٹیاں ٹائم پر کررہے ہیں۔ سب کے سب معاملات میں میرٹ کی بالادستی ہے۔ امن قائم ہوچکا ہے، ساری پارٹیاں 2013ء سے پہلے ایک جلسہ نہیں کرسکتے تھے اب ہر سیاسی جماعت بڑے بڑے جلسے کر رہی ہے۔ ہماری پارٹی بھی پورے پاکستان میں کتنے بڑے جلسے کرچکی ہے، یہی تو اصل تبدیلی ہے۔ اور ہاں سب سے اہم بات آج ووٹر میں شعور بیدار ہوچکا ہے۔

میں نے پوچھا کیسا شعور؟ تو وہ جذباتی ہوکر بولے، ”کیا آپ وہ ویڈیوز نہیں دیکھ رہے جس میں ہر حلقے سے امیدواروں کو ووٹرز کھری کھری سنارہے ہیں“۔ سوال ہوا لیکن یہ تو آپ کے لیڈر کے ساتھ بھی ہو رہا ہے کیا آپ کو پتا ہے؟ جواب ملا یہ سب جھوٹ ہے، مجھے کوئی ایک ویڈیو دکھائیے جس میں ہمارے لیڈر کو کوئی ووٹر اس طرح کی شکایتیں لگارہا ہو۔ ہم نے کراچی کی ایک ویڈیو دکھائی تو صاحب ناراض ہوگئے اور کہا یہ آپ میڈیا والوں نے خود بنائی ہے، ایسی کوئی ویڈیو ہم نے نہ ٹی وی پر دیکھی ہے اور نہ ہی سوشل میڈیا پر۔ ہم لاکھ ان کو سمجھانے کی کوشش کرتے رہے لیکن اس کوشش میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

آگے بات ہوئی پارلیمنٹ میں حاضری پر، ہم نے پوچھا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ مستقبل کے وزیراعظم (یعنی ان کے بقول) پارلیمنٹ کو گالیاں دے چکا ہے، پارلیمنٹ میں صرف پانچ فیصد حاضری اور تنخواہ پوری لے چکا ہے۔ یہ بات بھی ان کے مطابق میڈیا کا پروپیگنڈا ہے۔ پھر بات ہوئی کرپشن پر، تو ہم نے پوچھا کہ کیا آپ کو پتا ہے کہ وہ صوبہ جہاں پر آپ کی پارٹی کی حکومت تھی، احتساب کمیشن بنا لیکن ڈی جی نے خود وزیراعلیٰ پر کرپشن کا الزام لگایا اور استعفا دیا پھر بھی آپ کے لیڈر کہتے ہیں کہ ہم نے کرپشن نہیں کی، ہمارا وزیراعلیٰ پارسا ہے۔ ایسے میں جذباتی کارکن کے جذبات کو اور ٹھیس پہنچی تو کچھ غصیلے انداز میں بولے، ”وہ دوسری پارٹی سے مل چکا تھا، اس نے پیسے لئے تھے اس لئے ہمارے لیڈر کے خلاف بول رہا تھا۔ “

ہم نے کہا چلو مان لیتے ہیں لیکن جتنے بھی بڑے منصوبے صوبے میں شروع ہوئے، یا تو تکمیل سے پہلے افتتاح کیا گیا اور یا ادھورے ہی پڑے ہوئے ہیں، اس کے ذمہ دار کس کو ٹھہراتے ہیں؟ بس یہ کہنا تھا کہ صاحب کو غصہ آگیا اور الزام لگایا کہ آپ دوسری پارٹی کو سپورٹ کررہے ہیں، اس لئے ہمارے لیڈر اور پارٹی پر اس قسم کے ’خودساختہ الزامات‘ لگارہے ہیں۔ اس سے آگے جاکر سیاست میں گالیوں کا کلچر لانے پر بات ہوئی تو صاحب اٹھ کر چلے گئے اور کہا آپ لوگ جو بھی کہیں، یہ دنیا جو بھی کہے، ان پر جس قسم کے بھی الزامات لگائے جائے، ہمارا اگلا وزیراعظم وہی ہے۔ انہیں وزیراعظم بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

ابھی ہمارے ذہن میں بہت سے سوالات تھے کہ دعوے، نظریاتی سیاست سے انحراف، پرانے اور آزمائے ہوئے لوگوں کو ساتھ ملانا، آج ایک بات تو کل دوسری بات، ایک ’خاص طبقے‘ کی طرف سے ان کی بھرپور حمایت، میڈیا کا کردار وغیرہ، لیکن عافیت اسی میں جانی کہ باقی گفتگو سے بہتر ہے کہ سونے کی تیاری کی جائے، پر ایسا بھی نہ ہوسکا کیونکہ رات نے خداحافظ کہہ دیا تھا اور سورج سلام کررہا تھا۔ اگلا دن اسی سوچ میں گزرا کہ پاکستانی سیاست میں نووارد جماعت نوجوان نسل سے سوچ، تنقید اور فیصلے کی صلاحیت لے کر انہیں اندھی تقلید کی طرف لے جارہا ہے۔ دل ہی دل میں یہ دعا بھی خودبخود ہورہی تھی کہ خدا کرے موروثی سیاست کے بعد گالیوں اور اندھی تقلید کی ماری ہوئی یہ نسل اس ملک کے مستقبل کے بارے میں خود کچھ کرنے یا حقیقی لوگوں سے کچھ کروانے کی طرف بھی دھیان دینے کی کوشش شروع کریں۔
(درخواست: اس تحریر کو مکمل طور غیرسیاسی سوچ کے ساتھ پڑھی یا سنی جائے۔ شکریہ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).