اگر تحریک انصاف نے کلین سویپ نہ کیا؟


پاکستان میں تقریبا تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم اپنے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ الیکشن 2018 کے لیے تین بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ(ن)، پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدواروں کے مابین بیسیوں حلقوں میں بڑے مقابلے متوقع جبکہ بچاکچا ووٹ بینک توڑنے کے لئے ایم۔ ایم۔ اے، تحریک لبیک اور آزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد نے انتخابی میدان جنگ میں اپنے مورچے لگا رکھے ہیں۔

جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے تو میرے خیال سے وہ 2014 سے ہی الیکشن کیمپین کررہی تھی۔ چنانچہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 2014ء میں، جب مسلم لیگ ن کو اقتدار میں آئے بمشکل ایک سال ہوا تھا، ملک گیر احتجاجی سیاست شروع کردی۔

دیکھا جائے تو 2014 میں ہونے والے 126 دنوں کے آزادی مارچ دھرنے کے بنیادی تقاضوں میں مشتبہ حلقوں میں دھاندلی کی وجہ سے جیتنے پر اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف سے استعفی اور الیکشن دوبارہ کروائے جانا تھا۔

اسلام آباد میں طویل دھرنے کے بعد پاکستان کے مختلف شہروں میں بڑے بڑے جلسے شروع کردیئے گئے۔ جلسوں کے دوران عمران خان نے اپنے ووٹرز، سپورٹرز اور میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کے لئے انتہائی جارحانہ انداز اپنایا۔ عمران خان کی 2014 سے کی جانے والی ہر تقریر کے متن میں آپ کو مخالفین کے لئے چور، لٹیرے، ڈاکو، غدار، مافیا، گاڈ فادر اور فرعون کے الفاظ ملیں گے۔ اس جارحانہ لہر میں تھوڑے عرصے کے لئے عمران خان کی معاونت عوامی تحریک کے طاہرالقادری صاحب نے بھی کی مگر جب انہوں نے دیکھا کہ وہ تحریک انصاف کی الیکشن کیمپین کا حصہ بنے ہوئے ہیں، انہوں نے اپنا الگ راستہ اپنا لیا۔

بہرحال 2014 سے لے کر آج کے دن تک تحریک انصاف و عمران خان نے ہر جلسے، ریلی، کنوینشن، اخبار و ٹیلیویژن انٹرویوز اور سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستانی قوم کے ذہنوں میں یہ بات انجیکشن کے ذریعے منتقل کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے کہ ن لیگ گزشتہ الیکشن جعلی طریقے سے جیتی تھی، نوازشریف و اہل خانہ نے 300 ارب روپے کی جائیداد کرپشن سے بنائی، زرداری ڈاکو ہے جس نے سندھیوں کو محرومی میں رکھا ہوا ہے، مولانا فضل الرحمان مفاد پرست اور ہر حکومت میں کسی نہ کسی طور پر موجود ہوتے ہیں۔ رہی سہی کسر پانامہ لیکس نے ادا کردی جس میں دنیا کے ہزاروں لوگوں کی طرح ویسے تو 425 سے زائد پاکستانیوں کے نام بھی شامل تھے مگر تحریک انصاف نے جس مہارت سے نوازشریف کے خاندان کو کائنات کے سب سے کرپٹ خاندان کی طرح پروجیکٹ کرکے اپنی سیاست چمکائی اس کا کوئی جواب نہیں۔

آج یہ صورتحال ہے کہ تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے پاکستان یی ایک بڑی سیاسی جماعت کے قائد نوازشریف اپنے داماد اور بیٹی سمیت اڈیالہ جیل میں بیٹھے ہیں۔

مسلم لیگ ن سمیت پیپلزپارٹی کے بہت سے سابق ایم این ایز، ایم پی ایز اور متنفر سیاسی اراکین جوق در جوق تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور ان میں سے اکثریت نے ٹکٹ بھی حاصل کر لئے۔ پنجاب میں جنوبی پنجاب خصوصی طور پر تحریک انصاف کی بڑی طاقت بن رہا ہے۔ شہبازشریف بکھری ہوئی کمزور مسلم لیگ کی قیادت اس وقت کررہے ہیں جیسے ہیبت ناک طوفان میں بحری جہاز کا کپتان ذمہ داری سنبھالتا ہے۔ زرداری اگرچہ عمران خان کو وزیراعظم بننے دینے کو اپنی سیاسی موت قرار دیتے ہیں ۔

لیکن اگر وہ عمران خان و تحریک انصاف کے ساتھ سینٹ الیکشن کی طرح کا جادوئی اتحاد نہیں کرتے تو ان کو اور ان کے قریبی ساتھیوں کو الیکشن کے بعد احتساب کے تپتے صحراؤں میں بے یار و مددگار راستہ تلاش کرنا پڑے گا۔

آج کی تاریخ تک پاکستان میں موجود زیادہ تر سیاسی تجزیہ کاروں، سیاسی سماجی ماہرین، سروے کرنے والے اداروں اور میڈیا آرگنائزیشنز کی تحقیقاتی رپورٹس کا جائزہ لیں تو تحریک انصاف مجموعی طور پر الیکشن 2018 میں مقبولیت کے لحاظ سے آگے ہے۔ مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کی دعائیں بھی تحریک انصاف کے ساتھ ہوں گی۔ اس طرح دیکھا جائے تو تحریک انصاف واقعی کلین سویپ کرسکتی ہے۔ یہ ہے تصویر کا واضح رخ۔

لیکن تصویر کا دوسرا مخفی رخ دیکھ کر اور باریکی سے سوچا جائے کہ اگر تحریک انصاف 2014 سے کی جانے والی سیاسی جارحانہ الیکشن کیمپین کا ووٹرز نے الٹا جواب دے دیا، مسلم لیگ ٹوٹ پھوٹ کے باوجود پنجاب میں اکثیریت حاصل کر لیتی ہے، بڑی تعداد میں منظر عام پر لائے گئے آزاد امیدواروں اور تحریک لبیک جیسی حمایت یافتہ جماعتوں کی شکست اور پیپلزپارٹی کی سندھ و بلوچستان میں واضح جیت اور پنجاب میں کسی اپ سیٹ کی وجہ سے تحریک انصاف اپنا وزیراعظم لانے کے لئے مطلوبہ نشستوں سے کم حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو میرا ذاتی خدشہ ہے کہ نامعلوم اطراف سے بیسیوں حلقوں میں دھاندلی کے الزامات لگاکر ان الیکشن نتائج کو کسی نہ کسی طرح کالعدم قرار دے کر شاید کچھ عرصہ تک پاکستان میں نئے الیکشن سے پرہیز کی پالیسی اپنائی جائے۔ کیونکہ عمران خان کی ناکامی کے بعد کوئی نیا نجات دہندہ تیار کرنے میں مزید چار پانچ سال لگیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).