کتب کا انحطاط اور ہمارے ہاتھوں ہونے والا پبلشنگ انڈسٹری کا زوال


1990ء کی دہائی کے اوائل تک پاکستان میں کتب کا کاروبار ڈھیلے ڈھالے روایتی انداز میں چل رہا تھا، مگر شاہکار اور سقراط وغیرہ جیسے سافٹ ویئرز نے اِس میں یکایک تیزی پیدا کر دی۔ پھر ونڈوز اور اِن پیج کے متعارف ہونے پر بھی ایک نیا سیلاب آیا اور ہم نے گزشتہ سو سال کے دوران شائع اور ترجمہ ہونے والی کتب کو نئے روپ میں سامنے آتے دیکھا۔ کئی پبلشروں نے مستقل طور پر لائبریریوں کے کلرکوں اور دیگر عملے سے رابطہ قائم کر لیا جو نایاب اردو کتب انھیں فراہم کرتے اور اضافی آمدنی کا بندوبست بھی کر لیتے۔

پبلشروں کے لیے دوسرا بڑا ذریعہ روسی کتب شائع کرنے کا تھا جو دارالاشاعت ترقی ماسکو نے ترجمہ کروائی تھیں، جیسے دستوئیفسکی، ٹالسٹائی، میکسم گورکی، کارل مارکس، ترگنیف، وغیرہ کی تصانیف۔ باریک ٹائپ میں موجود ان کتب کو دوبارہ کمپوز کروا کر چھاپنا پبلشروں کے لیے نہایت مفید اور زندگی بخش تھا۔ اس کے علاوہ مکتبہ میری لائبریری وغیرہ اور ہندوستان میں شائع شدہ کتب کی بڑی کھیپ بھی نئے روپ میں سامنے آئی۔ ان میں کرشن چندر، عصمت چغتائی، بلونت سنگھ، امرتا پریتم، منشی پریم چند وغیرہ کی تحریریں اور کیے ہوئے تراجم کی دوبارہ اشاعت بھی شامل تھی۔

ایک اور بہت بڑا شعبہ مذہبی کتب کا تھا جن میں صحاح ستہ سے لے کر بہشتی زیور اور دیگر مذہبی مواد بھی نئے سِرے سے چھاپا گیا۔ مکتبہ فرینکلن کے کروائے ہوئے تراجم کو بھی نیا اشاعتی روپ ملا۔ برطانوی ہند کی حکومت کی شائع کردہ سرکاری کتب (گزیٹیئرز وغیرہ) اور رپورٹوں کی اشاعتِ نو اس سے علاوہ تھی۔ یہ سبھی کچھ پبلشرز کو بلامعاوضہ دستیاب ہوا جنھیں وہ دھڑا دھڑ چھاپتے رہے۔

اس ساری اشاعتی سرگرمی کا مرکز لاہور تھا۔ 1980ء کی دہائی کے وسط میں مزنگ روڈ پر پیپلز پبلشنگ ہاؤس روسی کتب (اردو تراجم) کی فروخت اور بائیں بازو کے کتابچوں کی اشاعت کا سرکردہ ادارہ تھا۔ پھر 1990ء کے قریب اس کے پہلو میں مکتبۂ فکر ودانش بھی قائم ہوا۔ آئندہ پندرہ بیس سال کے دوران یہ دونوں ادارے تقسیم در تقسیم ہو کر نئے اشاعتی اداروں کو جنم دیتے رہے۔ روہتاس، آزاد پبلشرز، فکشن ہاؤس، نگارشات، تخلیقات وغیرہ جیسے ادارے انھی اداروں کے سیلز ایجنٹوں نے قائم کیے اور مذکور بالا سہاروں کے ذریعے چلائے۔

اسلامی و عرب تاریخ کی کتب کی اشاعت اور دوبارہ اشاعت میں بھی تیزی آئی۔ تاریخ طبری، تاریخ ابن خلدون، تاریخ ابن کثیر، تاریخ الخلفا، فتوح البلدان، تاریخ المسعودی، البیرونی کی کتاب الہند ایک سے زائد پبلشرز کے ذریعے چھپ چکی ہیں جو بالاصل نفیس اکیڈمی کراچی نے ترجمہ کروا کر چھاپی تھیں۔ یہ ”اشاعتِ نو‘‘ کا رجحان اس قدر تیزی سے بڑھا کہ پبلشروں نے آپس میں کچھ معاہدے کر رکھے تھے۔ مثلاً یہ کہ اگر ایک پبلشر نے نیا ایڈیشن ”پہلے‘‘ چھاپ دیا تو دوسرا نہیں چھاپے گا، کہ وہ دوسروں کی کروائی ہوئی ”کمپوزنگ کے حقوق‘‘ کا خیال رکھیں گے، وغیرہ۔

جب رائلٹی یا کسی بھی قسم کے معاوضے کے بغیر اور مفت مواد کی دستیابی میں کمی آنے لگی تو شعری انتخاب، کلاسیکی اردو شاعروں کے مجموعوں کے علاوہ تراجم کا بازار بھی گرم ہوا۔ اجیت کور، کیرن آرم سٹرانگ، ول ڈیورانٹ، اوشو (گورو رجنیش)، خوشونت سنگھ وغیرہ کی کتب ترجمہ کروانے کا جیسے مقابلہ شروع ہو گیا۔ ہر پبلشر مترجمین کی خدمات لینے کے لیے بے تاب تھے، اگرچہ انھوں نے ترجمہ کا معاوضہ پچاس روپے فی صفحہ سے زیادہ نہ کرنے کا خفیہ معاہدہ کر رکھا تھا۔ یعنی 1990ء کی دہائی میں اور 2000ء کی دہائی کے اوائل میں تین سو صفحات کی کتاب 15000 روپے میں ترجمہ ہو جاتی تھی۔

کمپیوٹر اور ونڈوز متعارف ہونے کے بعد ترجمہ شدہ کتب کی اشاعت میں آنے والی اس تیزی کے دور میں لاہور میں چند مترجمین سرگرمِ عمل تھے جن میں ناچیز کے علاوہ احسن بٹ، محمد عاصم بٹ، حمید شاہد، قاضی جاوید، ڈاکٹر مبارک علی، ارشد رازی، طاہر منصور فاروقی، اشفاق ملک وغیرہ شامل تھے۔ باقی غیر مستقل یا شوقیہ تراجم کرنے والے بھی کافی تعداد میں تھے۔ ان کی ترجمہ کردہ کتب پر ”جملہ حقوق بحق پبلشرز‘‘ محفوظ ہیں ہمیشہ درج ہوتا تھا کیونکہ اِس سلسلے میں 1962ء کا کاپی رائٹس ایکٹ بالکل خاموش تھا، اور حقوق کی پروا مترجمین سمیت کسی کو تھی بھی نہیں، نہ اب ہے۔

2008۔ 09ء تک آتے آتے اس رجحان میں کمی آنے لگی اور تمام کُل وقتی مترجمین غائب ہونے لگے۔ چند ایک نے سرکاری اداروں میں پناہ لی، کچھ ایک سرکاری اداروں کے لیے پراجیکٹس کرنے لگے اور ساتھ ساتھ نجی پبلشروں کے لیے بھی کچھ کام جاری رکھا۔ 2012ء کے بعد کتب کی اشاعت نو اور تراجم کی اشاعت کا کام شدید زوال کا شکار ہوا۔ پرانے شاعروں اور ادیبوں کے شعری و افسانوی مجموعے چھپنا بند ہو گئے۔ پبلشروں کو امریکہ، کینیڈا اور یورپ میں مقیم اردو شاعروں کی کتب رقم لے کر چھاپنے کا نیا دھندا ہاتھ لگ گیا (جو اس وقت کافی بڑا سہارا بن چکا ہے)۔

دوسری جانب واٹس ایپ، فیس بک نے پڑھنے والوں کی توجہ سلب کر لی۔ بریٹانیکا، انکارٹا، وکی پیڈیا وغیرہ جیسی ویب سائیٹس ایک کلک پر ڈھیروں معلومات فراہم کر دیتی تھیں۔ پی ڈی ایف کتب کا رجحان جو پہلے صرف انگلش کتب تک محدود تھا، اب اردو کتب کے لیے بھی عام ہونے لگا۔ علم کے پھیلاؤ اور جذبۂ ”خدمت‘‘ سے سرشار افراد نے اردو کی شائع شدہ کتب کو پی ڈی ایف میں تبدیل کر کے انٹرنیٹ پر فراہم کرنا شروع کر دیا، جیسا کہ ساری دنیا میں ہو چکا تھا۔

گوٹن برگ پراجیکٹ، فائلز ٹیوب، ریپڈ شیئر اور مختلف ٹورینٹ سائیٹس پر انگلش کی کتاب الیکٹرانک صورت میں دستیاب ہو گئیں جن پر اب پابندی بھی لگ چکی ہے۔ لیکن اردو کی کتب پی ڈی ایف میں اپ لوڈ کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ شعرا حضرات تو اپنی کتب خود ہی ٹائپ کر کے انٹرنیٹ پر تقسیم بھی کرتے ہیں اور اساتذہ مزید مطالعہ کے لیے تجویز کردہ کتب واٹس ایپ گروپس میں بھیج دیتے ہیں۔

موجودہ عشرے کے دوران گزشتہ سو سال میں لکھی ہوئی زیادہ تر لغات بھی آن لائن دستیاب ہو گئیں یا انھیں کمپیوٹر پر ٹائپ کروا کر چھاپا جا چکا ہے، جیسے فرہنگ تلفظ، قومی انگلش اردو لغت، فرہنگ آصفیہ، قومی اردو لغت، فرہنگ عامرہ، وغیرہ۔ لغات کے کئی سرچ ایبل آن لائن پراجیکٹ اس کے علاوہ ہیں۔ یعنی زیادہ تر لغات کسی نہ کسی شکل میں آن لائن دستیاب ہیں، حالانکہ درست زبان لکھنے اور بولنے کی اہمیت ختم ہو گئی ہے۔ پس ساختیات کے شوق نے زبان کو پوری طرح سیکھے بغیر اس کے قواعد توڑنے یا قواعد سے متجاوز ہونے کا رجحان ڈال دیا۔

دنیا بھر میں الیکٹرانک کتب کی ترویج ہو رہی ہے۔ آڈیو بکس بھی مقبول ہیں، لیکن کتاب کی اصل اہمیت ختم نہیں ہوئی، گو اس کی صورتیں بدلتی رہتی ہیں۔ ہمارے ہاں موبائل متعارف ہونے پر سب سے پہلے نیلے اور پیلے رنگ کے پی سی اوز بوتھ ختم ہوئے۔ یو کے اور دیگر یورپی ممالک میں پی سی اوز ابھی تک پہلے کی طرح کام کر رہے ہیں اور سکے ڈال کر کال کی جا سکتی ہے۔ لندن میں ایسی بسیں بھی موجود ہیں جن میں ایک رسی گھنٹی کے ساتھ بندھی ہوتی ہے تاکہ پچھلے حصے میں سوار مسافر بس روکنے کے لیے اس رسی کو کھینچ کر گھنٹی بجا دے۔ شاید ہم پی ڈی ایف اور الیکٹرانک صورت میں کتب مہیا ہونے پر ”اصل‘‘ کتب کے ساتھ بھی وہی کچھ کریں گے جو موبائل فون آنے پر نیلے پیلے پی سی اوز اور چنگ چی متعارف ہونے پر تانگوں کے ساتھ کیا۔

ایک کتاب کی اشاعت اور فروخت کے عمل سے بیسیوں پیشے وابستہ ہیں: لکھنے والا، پروف ریڈر، ٹائپسٹ، ٹائٹل ڈیزائنر، کاپی پیسٹر، پرنٹنگ پریس، دفتری، سِلائی کرنے والا، جِلد ساز، ریہڑیوں والے (جو چھپی اور تیار شدہ کتاب کو ایک سے دوسرے شعبے میں پہنچاتے ہیں)، پبلشر کا عملہ، تقسیم کار، کمیشن ایجنٹ، فروخت کار، حتیٰ کہ ردّی والا وغیرہ۔

یہ سب اور دیگر پیشے مل کر ایک کتاب کی پروڈکشن کو ممکن بناتے ہیں، اور کتاب چند منٹ میں سکین ہو کر پی ڈی ایف کی شکل اختیار کرتی اور ان سب کو منفی کر دیتی ہے۔ بات یہ نہیں کہ پی ڈی ایف میں کنورٹ کیا جانا ممنوع ہونا چاہیے، بلکہ یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں کتاب شائع ہونے کا محرک ہی ختم ہو جائے گا، اور مزید کتابیں لکھی ہی نہیں جائیں گی کہ جنھیں پی ڈی ایف کی صورت دی جا سکے۔ ہم دو کم ازکم دو ہزار سال پرانی کتب بینی کی عادت سے چھٹکارا پا رہے ہیں۔

کمپیوٹر کی آمد پر پرنٹرز اور پبلشرز کو سہارا دینے والا ایک بہت بڑا شعبہ پہلے ہی تقریباً ختم ہو چکا ہے، یعنی عید کارڈز، پوسٹرز اور حتیٰ کہ مہندی کے ڈیزائن، گھریلو ٹوٹکے، کوکنگ بکس، جنتریاں، رسالے، فلمی پوسٹرز اور عملیات اسمائے حسنی پر مبنی کتب وغیرہ۔ آج سے پندرہ سال پہلے رسالے اور اخبارات ہر گلی محلے کی کتابوں کی دکان سے مل جایا کرتے تھے، لیکن اب اخبار تو نائی کی دکان پر بھی مشکل سے ہی ملتا ہے اور رسالے خصوصی طور پر سفر کر کے خریدنے پڑتے ہیں۔

بڑے بڑے سرکاری اشاعتی اور کتب و علم و ادب کی ترویج کے ادارے بھی بھیڑ چال میں شریک ہیں۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن، اکادمی ادبیات پاکستان، مجلسِ ترقیِ ادب ادارۂ فروغ اردو، اردو سائنس بورڈ، ادارۂ ثقافت اسلامیہ، اقبال اکادمی وغیرہ جیسے مہیب ادارے اپنے حجم کی نسبت تقریباً صفر کام کر رہے ہیں اور اپنا معنی ہی کھو چکے ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے لیے قائم کردہ ادارہ سیر الاولیا شائع کرتا ہے، اور نیشنل بک فاؤنڈیشن حضرت خالد کی تلوار جیسی کتب شائع کر کے پہلے ہی اپنی نفی کر چکا ہے۔ شاید وہ وقت دور نہیں جب ان اداروں کو غیر ضروری قرار دے کر ختم کر دیا جائے گا اور لائبریریاں محض سونے اور سستانے کی ’یادگار‘ جگہیں بن کر رہ جائیں گی۔

شاید اب ہمیں کتب کی ضرورت نہیں رہی۔ ہمارے پاس ہر سوال کے قطعی اور ”درست‘‘ جواب ریاستی اور معاشرے کی سطح پر پہلے سے موجود ہیں۔ دنیا کا بہترین مذہب و عقائد کا نظام، دنیا کی بہترین اور کامل ترین کتاب، کامل ترین تصورات، زندگی گزارنے کا مثالی انداز، دنیا کا بہترین اور الوہی طور پر ودیعت کردہ ملک، بہترین قوم، بہترین فوج اور بہترین ہر چیز ہمارے پاس موجود ہے، بس تھوڑی سی نمی کی ضرورت ہے اور یہ نامولود سب کچھ تیزی سے پنپنے لگے گا۔ ایسے میں سوال، تشکیک، تحقیق، جانچ پڑتال سب بے معنی اور غیر ضروری ہے۔ جستجو وہ کریں جن کو اپنے نظریات اور خیالات پر کوئی شک ہو! ہمیں کیا ضرورت ہے۔ لہٰذا اس کا آلۂ کار یعنی کتب بھی فالتو ہو چکی ہیں۔

لاہور میں مال روڈ پر فیروز سنز، ماورا، وین گارڈ، کوآپر جیسے دیگر اہم و تاریخی کتب مراکز بند ہو چکے ہیں یا بند ہونے کو ہیں۔ ریگل چوک میں ”کلاسیک‘‘ نے چند سال قبل اپنا نام بروقت بدل کر ”کلاسیک بکس اینڈ بیکرز‘‘ رکھ لیا تھا۔

جس طرح نظریۂ پاکستان ٹرسٹ جیسا مہیب ادارہ موجود ہے مگر بے دلیل نظریہ پاکستان دو سطروں کا بھی نہیں، اور جس طرح دیو قامت ادارے اکادمی ادبیات کا کام صرف ادیبوں شاعروں کی وفات پر چیئرمین کو سرکاری خرچ پر کبھی کراچی اور کبھی کوئٹہ وغیرہ بھیجنا ہے نہ کہ ادب کو فروغ دینے کے سلسلے میں کوئی وقیع کام کرنا، اسی طرح اب آپ کے کمپیوٹر اور فون تو سینکڑوں پی ڈی ایف کتابوں سے بھرے ہوں گے، مگر کتاب کی کارآمد حیثیت ہی ختم ہو چکی ہو گی۔ ہم محض اندھی آنکھوں میں سرمہ سجا کر پھریں گے۔ نہ بصیرت ہو گی نہ بصارت۔ اگر کچھ ہو گا تو بس ایک قطعیت اور ایمان کا اندھا جذبہ جو اپنے سامنے والے کو بھی برداشت نہیں کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).