الیکشن کا دن۔۔۔غصہ اور بھڑاس نکالنے کا سنہری موقع


پانی نہیں ہے نلکے میں، نظر نہ آنا حلقے میں، ایف سی ایریا میں غصے سے بھری خواتین کا یہ احتجاجی نعرہ تھا۔ ”اس با ر تھوڑی مشکل ہوگی تمہیں، ہمیں اب منانے میں، اپنا آپ بچانے میں۔ “ یہ کہنا ہے کراچی کے علاقے موسی کالونی کی رہائشی بائیس سالہ سعدیہ کا جن کے والدین اور دادی پچھلے چالیس برسوں سے ایک تنگ سی گلی میں چھوٹے سے گھر میں رہ رہے ہیں۔ جہاں ہوا کا گزر کیا ہو اس گلی سے تو ایک ساتھ دو افراد نہیں گزر سکتے۔ کراچی کی اس گنجان آبادی میں متحدہ قومی موومنٹ کا اثر ہمیشہ سے دکھائی دیتا ہے۔ یہاں گلی گلی میں کھلی دکانیں ہوں یا پھر خوانچہ فروش، تندور ہو یا راہ چلتا شخص آبادی کی اکثریت اردو بولنے والوں کی دکھائی دیتی ہے۔ البتہ چائے کے ہوٹل اور تندور پٹھانوں کے پاس ہیں جن کا یہاں عرصہ دراز سے اسی علاقے میں قیام ہے۔ کراچی کی سب سے بڑی خوبصورتی ہی یہی ہے کہ یہاں ہر رنگ و نسل کا آدمی دکھائی دیتا ہے کبھی کبھی تو پوچھنے یا لمبی گپ شپ لگانے کے بعد معلوم پڑتا ہے کہ سامنا والا اس شہر میں مہمان آیا تھا اب اسی کا ہوگیا ہے۔

لیکن اس انتخابات میں کافی کچھ مختلف ہے۔ میں نے 2013 کے انتخابات دیکھے اس وقت بم دھماکے، خوف، تشدد کے باوجود بھی انتخابات کی گہما گہمی دکھائی دیتی تھی اور سب سے بڑھکر یہ کہ سب سے زیادہ نوجوانوں نے اپنا حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے تحریک انصاف کو مسلم لیگ ن کے بعد دوسری بڑی جماعت بنادیا تھا۔ یہاں تک کہ کراچی میں جہاں کبھی مہاجر ووٹ تقسیم ہونے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ وہاں بھی پی ٹی آئی نے لاکھوں ووٹ لے کر بتا دیا کہ خوف اور ڈر کو ختم کرنے کی ابتداءہوچکی ہے۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ متحدہ قومی موومنٹ کے اندر بننے والے دھڑے اور بغاوتوں نے اس پارٹی کو مزید تقسیم کر ڈالا۔

یہ جماعت جو نوجوانوں کی ایک بڑی طاقت رکھتی تھی کھل کر یہ کہتی دکھائی دینے لگی کہ اب بس بہت ہوگیا کب تک باتوں اور وعدوں کی سیاست ہوتی رہے گی۔ اسی وقت میں موقع غنیمت جانتے ہوئے پاک سر زمین نے آکر ان ناراض نوجوانوں کو اپنی پناہ گاہ میں لینا شروع کردیا۔ یوں پانچ برسوں کے دوران جہاں پورے ملک میں جہاں سیاست پانامہ کی نذر ہونے لگی وہیں کراچی میں ہونے والی تبدیلیاں اس شہر کی عوام کے ذہن کو بھی بدلنے لگیں۔

بحیثیت رپورٹر الیکشن کی کوریج میں میں نے جو فرق اس بار اپنے سامنے دیکھا وہ یہ کہ ایسے علاقے جہاں کوئی دوسری پارٹی کا نام لینے سے بھی خوف کھاتا تھا آج پر ہجوم مجمعے میں ایک دوسرے کے سامنے دل کھول کر رکھ رہا ہے۔ مائیک پر صاف صاف کہہ رہا ہے کہ پرانے چہرے اب اس شہر کی قسمت نہیں بدل سکتے اب نئے کو آزمانا چائیے۔ اردو بولنے والا بھی اب عمران خان کو آزمانا چاہتا ہے تو کوئی یہ کہتا ہے کہ نواز شریف کی بدولت اس شہر میں امن قائم ہوا ہے تو ووٹ اسی کو ملنا چائیے۔ کوئی مصطفی کمال کے ماضی میں دبنگ مئیر ہونے سے آ ج تک متاثر دکھائی دے رہا ہے تو کوئی یہ بھی کہہ رہا ہے کہ ” پانی دو ووٹ لو“۔

موسی کالونی کی سعدیہ پہلی بار اس الیکشن میں ووٹ دینے کی اہل ہیں۔ لیکن وہ اس بات سے بد دل ہیں کہ بچپن سے اب تک انھوں نے اپنے گھر کے نلکے میں مسلسل لائن سے پانی آتے نہیں دیکھا۔ ان کی دادی بیمار ہیں اور بستر پر پڑی ہیں۔ لیکن کئی کئی گھنٹے انہیں باتھ روم اس لئے نہیں لیجایا جاسکتا کہ پانی نہیں ہے۔ گھر میں روز رہنے والی لڑائی کا ایک سبب پانی کی عدم دستیابی ہے۔ بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ ان سب کا ذمہ دار وہ ان منتخب نمائندگان کو سمجھتی ہیں جن کو ان کے گھر والوں نے ووٹ دیا۔ لیکن وہ نمائندے پھر کبھی دکھائی نہیں دیے۔ ایک بائیس سال کی لڑکی کا تلخ لہجہ اور غصہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ وہ روز سوچتی ہے کہ کوئی خبر مل جائے کہ ان کے حلقے کا کوئی دورہ کرنے کویہ سیاسی نمائندہ آئے تو وہ اپنی بھڑاس اس پر نکالے لیکن دن گزر رہے ہیں اور کوئی نہیں آرہا۔

پاکستان میں ہونے والے انتخابات پر گہری نظر رکھنے والے معروف صحافی اور تجزیہ کار افتخار احمد کا کہنا ہے کہ مسائل بھلے جتنے بھی ہوں، لیکن ایک فرق واضح ہے اور وہ یہ کہ اب لوگوں کے دلوں سے خوف زائل ہوچکا ہے اب وہ کھل کر تنقید کرتے ہیں اور بناء ڈرے اپنے دل کی بات زبان پر لارہے ہیں۔ یہ الیکشن جیسا بھی ہو اس میں لوگوں کے خوف کو شکست ہوچکی ہے۔ افتخار احمد کے مطابق صرف کراچی نہیں پنجاب میں بھی اب عوامی نمائندگان کو اپنے ووٹر کو قائل کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ تاہم اب بھی ووٹ شخصیت کو ہی ملے گا۔ آزاد امیدواروں کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنا برادری کا ووٹ لے کر ایوانوں تک پہنچیں گے اور برادری کا ووٹ بینک ہمیشہ سے ہی بڑا اہم رہا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ 2013 کے انتخابات میں دو تہائی اکثریت لینے والے اب مشکل کا شکار ہوچکے ہیں کیونکہ ان کا حساب یہ کہتا ہے کہ 272 نشستوں میں سے اگر تو کوئی سیاسی جماعت 136 نشستیں لینے میں کامیاب ہوجائے جس میں آزاد ا میدواران کی بھی نشستیں شامل ہوں تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ لیکن حالات یہ بتاتے ہیں کہ کوئی بھی جماعت 116 نشستیں بھی اگر حاسل کرلے تو یہ بڑی بات ہوگی جس کے سبب مخلوط حکومت بننے کے امکانات واضح ہیں۔

کراچی کے حوالے سے ان کا یہ تجزیہ ہے کہ کراچی کے عوام مار کھا کھا کر اب تھک چکے ہیں۔ سب سے بڑی تبدیلی ان میں یہی آئی ہے کہ ان کا ڈر خوف ختم ہوچکا جس میں پی ٹی آئی کا کردار بھی نظر آتا ہے اس بار وہ یا تو ووٹ نہ دے کر اپنے پرانے نمائندگان کو جواب دیں گے یا پھر ایم کیو ایم کا منقسم ووٹ پاک سر زمین کی جھولی میں بھی گرسکتا ہے۔ لیکن ان سب میں وہ اس بات پر قائم ہیں کہ ان انتخابات میں ووٹ بینک میں کوئی خاص کمی کا امکان نہیں۔ اس کا اثر کچھ علاقوں تک تو ہوسکتا ہے لیکن اگر مجموعی طور پر کہا جائے تو پورا ملک اس سے متاثر نہیں ہوگا۔

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے زاہد اقبال جو ایک عام شہری اور سرکاری ملازم بھی ہیں ان کا کہنا ہے کہ 2013 کے انتخابات میں انھوں نے ووٹ اس لئے دیا کہ انہیں یہ احساس ہوا کہ گھر بیٹھ کر سسٹم کو کوسنا آسان ہے، کرپشن اور نظام کے نہ بدلنے کا واویلا روز ہوتا رہے گا۔ لیکن انتخابات میں ملنے والی ووٹ کی پرچی پر لگائے جانے والا ٹھپہ اس بات کا اطمینان ضرور دیتا ہے کہ آپ نے اس نظام میں اپنا حصہ ڈالا تو ہے۔ یہ بحیثیت شہری ہم پر قرض بھی ہے او ر فرض بھی کہ اپنے اوپر حکمرانی کرنے والوں کو بتائیں کہ ہم آپ کو کیوں لانا چاہتے ہیں اور کیوں اس بار آپ کو دوبارہ نہ دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔ وہ اس بار بھی الیکشن میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا چاہتے ہیں اور ان سب کو یہ پیغام دیتے ہیں جو سسٹم سے نالاں ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اس بار کسی کو بھی ووٹ دینے کا اہل نہیں سمجھتے، ان کا کہنا ہے ووٹ ضرور دیں اپنا غصہ نکالنے کا یہ سب سے موثر طریقہ ہے کہ ووٹ ڈال کر ان لو گوں کو مسترد کردیا جائے جنھوں نے ان کے ا عتماد کو توڑا ان کے لئے کچھ نہیں کیا۔

سوال یہ ہے کہ الیکشن کا دن شاید کسی کو نیند پوری کرنے کے لئے بہتر دن لگے لیکن کیا پھر آپ کا یہ حق ہے کہ نتائج آنے کے بعد آپ کسی ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے نظام کو کوسیں؟ اگر پھر سے کوئی کرپٹ نمائندہ منتخب ہوجاتا ہے تو کیا آپ اس روز بھی نیند پوری کریں گے؟ دوران پرواز اگلی نشست پر بیٹھی دو خواتین اور ایک مرد پاکستان کے خراب ترین سسٹم پر انگریزی میں سیر حاصل گفتگو کرتے نظر آئے ان کے مسائل بھی ان کی طرح امیرانہ تھے۔

انہیں کرپشن سے شدید نفرت ہے کراچی میں پڑا کچرا انہیں سانس لینے میں دشواری پیدا کر رہا ہے۔ بجلی بار با ر جانے سے جنریٹر میں ڈلنے والا تیل کا خرچہ بھی بڑھ چکا ہے۔ ان کی بیش قیمت گاڑی کے ٹائر بھی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر دوڑ دوڑ کر گھس چکے ہیں۔ لڑکی نے انگریزی میں سوال کیا۔ تو اس بار کسے ووٹ دینا چائیے؟ خاتون نے پراڈا بیگ سے ایک چھوٹی سی چاندی کی ڈبیہ میں سے الائچی نکال کر منہ میں ڈالی اور کندھا اچکاتے ہوئے کہا کسی کو بھی نہیں ڈئیر! ہم تو ریسٹ کریں گے اور کوئی مووی دیکھ لیں گے۔ لڑکی نے مسکراتے ہوئے کہا ” Same here“۔

اس گفتگو کو سن کر مجھے وہ ووٹر دکھائی دیے جو کہہ رہے تھے کہ مسائل حل کرو ووٹ لو کم از کم ان میں اخلاقی جرات تو ہے، وہ ووٹ کی اہمیت سے تو واقف ہیں۔ اس پر مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اس ملک کی قسمت کا فیصلہ کرنے اور بدلنے میں وہ طبقہ اکثریت میں ہے جو ایک گھونٹ صاف پانی کے لئے بھی ترس رہا ہے جبکہ باہر پڑے کچرے سے اٹھتی سڑاند سے گھبرا کر منہ میں الائچی ڈال کر نظام کو بدلنے پر لیکچر دینے والے اب بھی آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ تو جناب اپنی طاقت کو سمجھیں اور ووٹ دیں اس بار خوشی سے نہ سہی غصے سے ہی سہی یہ ہی نظام کو بدلنے میں اہم کردار ادا کرے گا اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ تمہارے ووٹوں سے ایوانوں میں پہنچنے والے کسی سعدیہ سے اور تم سے منہ چھپائے نہ پھر رہے ہوتے۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar