عورت ،عزت، چار دیواری اور چادر کا فرسودہ چیتھڑا


دھڑکتے دل کے ساتھ جب میں نے سسرال کی دہلیز پار کی تو گویا میرے صدیوں سے ضبط آنسو چھلک ہی گئے۔ میں نے پیچھے مڑ کر آخری بار اس گھر کو دیکھا۔ میرا چہرہ پسینے اور آنسوؤں سے تر تھا۔ میری قدآور سیاہ چادر میرے خدوخال کو مکمل ڈھکے ہوئے تھی۔ میں نے ہاتھ اٹھا کر اپنا چہرہ چادر سے پونچھنے کی کوشش کی تو یاد آیا ماں کہتی تھی چادر اور چار دیواری عورت کی محافظ ہوتی ہے۔ میرے عقب میں وہ چار دیواری تھی جہاں سب سے زیادہ میری عزتِ نفس کی دھجیاں اڑائی گئیں اور سر پہ وہ چادرجس کے ہونے سے بھی تحفظ کا احساس تشنہ ہی رہا۔

میں نے وہ چادر بھی قصداً وہیں چھوڑ دی۔ بے جان چیزیں عزتوں کی محافظ نہیں ہواکرتیں۔ یہ بات مجھے اس دن سمجھ آگئی۔ ایک عورت ہونے کے ناطے مجھے اس معاشرے سے کیا چاہیے؟ میں نے خود سے سوال کیا۔ عزت، صرف اورصرف عزت۔۔۔ میرے اندر سے آواز آئی۔ پھر ایک نئے مکالمے نے جنم لیا۔ تو کیا یہ پتھر اور دھاگے میری عزت کی امین ہیں؟ کیا لباس سے زیادہ دیکھنے والے کی نظر معنے نہیں رکھتی؟ کیا درودیوار سے زیادہ اس گھر میں بسنے والے مکین عصمتوں کے پاسدار نہیں؟ یہ دوہرا معیار ہے تو کیوں ہے؟

میرا ذاتی طور پر یہ خیال ہے کہ جن معاشروں میں خود ساختہ بنیادی اقدار کی بیڑیاں نہیں ہوتیں وہاں حقوقِ نسواں کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ جن قوموں نے فرسودہ روایات کو اتار پھینکا ہوتا ہے وہ دراصل انسانیت کا پرچار کرتی ہیں اور بلامبالغہ انسانیت ہر مذہب کی بنیاد ہے۔ لیکن ہم اِن تمام نکات کی حدودوقیود طے کرنے میں ناکام ہیں اور بحثیتِ قوم یہ ہماری پستی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

یہ زندگی بھی کتنی مضحکہ خیز ہے یا ہم نے بنا دی ہے۔ ہم بے جان چیزوں سے وہ امیدیں لگا لیتے ہیں جو ہمیں انسانوں سے لگانی چاہئیں۔ مجھے کہہ لینے دیجیے کہ ہماری تربیت ہی غلط نہج پر ہوئی ہے، ہمارا قبلہ ہی درست نہیں۔ لڑکے روتے نہیں ہیں۔ لڑکیاں زور سے نہیں ہنستی، سسرال سے تمہارا جنازہ ہی نکلے گا۔ اور نجانے کیا کیا لغویات ہماری پرورش کا اہم جز ہیں۔ ہماری انا اتنی نازک ہے کہ بات بات پہ زمین بوس ہونے لگتی ہے۔ تقدس تو جیسے پھونک سے پامال ہونے کو آتی ہے اور پگھڑی اتنی ہلکی ہے کہ ذرا سے ہوا کے جھونکے سے جھولنے لگتی ہے۔ کھانا خود گرم کر لو پر تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے مگر برسرِروزگار لڑکی کا رشتہ ڈھونڈتے ناک نہیں کٹتی۔

میرے جسم پر میری مرضی پر تمہاری مردانگی کے پرخچے اڑنے لگتے ہیں لیکن جہیز میں آئی ہوئی گاڑی پر بڑی شان سے بیٹھتے ہو۔ میں حصولِ معاش کے لئے بھی تم پر انحصار نہیں کرتی نہ کسی اور معاملے میں تم میرے سے افضل ہو تو یہ چادر اور چاردیواری کیا میری حفاظت کریں گے؟ بھلا یہاں تو محرم بھی ایسے جیسے کے نا محرم۔ لیکن پھر ان کی میں پابند کیوں ہوں؟ نفس تمہارا بے قابو ہے تو تم کیوں نہیں بیٹھ جاتے دوپٹے سے اپنی سوچ چھپا کر؟ کیونکہ سماج کے لئے خطرہ تمہارے خیالات ہیں، میری نسوانیت اور میں نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).