اب تشریف لاتے ہیں استاد عمران خان صاحب


ہمارے ایک خشک مزاج ٹیچر تھے، انٹر میں میتھس پڑھایا کرتے تھے۔ الجبرا کی ہر مشق کروانے کے بعد پوچھتے تھے ”بات سمجھ آتی ہے؟“ اب ٹیچر مرد ہو اور رعب دار بھی ہو، تو ”یس سر“ کے علاوہ کوئی کیا کہے گا بھلا؟ اور چلو کسی ایک نکمے لڑکے نے کسی کونے سے نفی میں سر ہلا بھی دیا تو کس کو نظر آئے گا؟ اور اس سے بھی زیادہ کوئی نالائق ”نو سر“ بول کر خود کو نقار خانے میں طوطی ثابت کرنے پر تلا ہو تب بھی اسے یہ کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا تھا کہ ”تمھیں تو ویسے بھی نہیں سمجھ آنی تھی“۔

بس اسی ٹھنڈی ’بِزتی‘ کے پیش نظر آدھی سے زیادہ کلاس کبھی سر کو دائیں بائیں نہیں گھماتی تھی۔ ہمیشہ اوپر نیچے ہی یہ جنبش ہوتی تھی۔ سالہا سال گزر جاتے ہیں، ہم بچے سے بڑے ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑے ہوتے ہیں، اکثر ہم ماضی کے حادثے بھی بھول جاتے ہیں لیکن نہیں بھولتے تو اپنے اسکول کی جماعت۔ میرا دعوی ہے کہ کوئی کتنا ہی بھلکڑ کیوں نہ ہو اسکول کی کوئی نہ کوئی یاد دماغ میں اسٹکر بن ہی جاتی ہے۔

آج کل کی الیکشن کیمپینز دیکھ کر ٹیچر کا وہ جملہ اور اس کے بعد کی دماغی کیفیت فلم کی طرح سامنے چلنے لگی۔ پتا نہیں کیوں میں جب بھی اپنے وطن عزیز کی معاشرتی کم زوری پر سوچتی یا لکھتی ہوں تو بات یہاں وہاں سے ہوتی ہوئی تعلیمی معیار پر آ کھڑی ہوتی ہے۔ اول تو پڑھنے لکھنے سے قوم کو خاص لگاو نہیں اور دوسرا تعلیم کا نظام ہی ایسا نہیں کہ پڑھنے کا شوق ہو۔ اب اس کی بنیادی وجہ معلوم کرنا کم از کم میرے لیے تو ایسا ہے جیسے یہ معلوم کرنا کہ مرغی پہلے آئی یا انڈا۔ لیکن ہمارے انڈوں کو سیاست دان گندا کرنے میں ماہر ہیں؛ کجا ان کو تعلیم سے رُوشناس کروائیں گے۔ کیوں کہ وہ قوم کی نفسیات کو خوب جانتے ہیں کہ یہ وہ عوام ہیں، جو پیسے بھی بھرتی ہیں اور آگے سے سوال بھی نہیں کرتے؛ ماشا اللہ جب سے ان کے پاس فیس بک کی سہولت ہے تو یہ اپنی فرسٹریشن اس پہ نکال دیتے ہیں اور آپس میں لڑتے مرتے رہتے ہیں۔

یہاں بیش تر اسکول/ کالج تعلیمی معیار کے اعتبار سے ایسے ہیں، جیسے ایک کنواں؛ جس میں سے مینڈک نکلتے ہیں جو صرف پھدکنا جانتے ہیں۔ کیوں کہ بچپن کی استاد کے سامنے سر کو اوپر نیچے ہلانے والی عادت ساری زندگی ہمارے لاشعور سے چمٹی رہتی ہے۔ اور آج کل تو سر اوپر نیچے کرنے کا مطلب یہ کہ بس ہمارے دو ہی آسرے ہیں، اوپر اللہ اور نیچے زمین جس میں دفن ہونا ہے۔

دراصل ہم لوگ بچگانہ ذہنیت کی حامل قوم ہیں۔ ہمیں چیزیں سمجھ آنا ہی اس وقت شروع ہوتی ہی جب ان کو فوری طور پر ٹھیک کرنے کا بندوبست کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ آپ فیس بک پر انگریزوں کے بچوں کی کوئی معصوم حرکات پر مبنی وِڈیو دیکھیں۔ مجھے حیرت ہوتی ہے ان کے تین چار سال کے بچوں کو دیکھ کر جو اپنے بڑوں سے ’ون ٹو ون‘ باتیں کرتے ہیں۔ یہاں ہمارے لوگ تین سال کے بچے کو ’مم مم‘ اور ’ہپا روٹی‘ میں لگا کے رکھتے ہیں۔

اب تعلیم کا انگریزوں سے تو خیر کیا مقابلہ لیکن پھر بھی یہاں تعلیم کے نام پر لیپ ٹاپ کا لالی پاپ ضرور پکڑا دیا جاتا ہے۔ اسٹیج سجتے ہیں، تالیاں بجتی ہیں اور ان تالیوں کی گونج میں علم کی صدا کہیں کھو جاتی ہے۔ اب الیکشن قریب آئے تو سیاست دانوں کو ہوش آیا اور ٹی وی پر تعلیم کے ایشو کو لے کر معصوم بچوں کی صورت دکھا کر ووٹ کی اپیل کی گئی، لیکن مجھے ایسا لگا جیسے کوئی کہہ رہا ہو ”بات سمجھ آتی ہے؟ “

آپ خود سوچیں اتنے سال ہوگئے، سندھ کی پارٹی نے اپنے لوگوں کو روٹی کپڑا اور مکان سے باہر نکلنے ہی نہیں دیا؟ اسکول کالج تو شاید ان کی کسی گنتی ہی میں نہیں ہیں۔ بڑے بڑے جلسے ہوتے ہیں آبائی گاوں میں، اور پوچھا جاتا ہے ”بات سمجھ آتی ہے ناں؟ “ اور لوگ بھی کبھی ان سے یہ نہیں پوچھتے کہ یار روٹی کپڑا مکان تو جنگل میں رہنے سے بھی میسر آ جاتا ہے۔ پیڑ سے پھل توڑ کر کھالو، پتے جسم پر لگا لو اور درخت کاٹ کر جھونپڑی بنا لو؟ تو اس میں ہمیں حکومت کے نا کردہ احسانوں کی کیا ضرورت ہے؟

اب اس کے بعد مجھے بے لحاظ ہو کر یہ کہنے دیجئے کہ جو حالات گزشتہ حکومت میں ملک کے ہو گئے ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم ایک بے وقوف قوم ہیں۔ بلکہ ہم ”ایک“ قوم تک نہیں ہیں۔ ہم تو اپنے سیاسی نظریے کی بنا پر اپنے دوستوں کے منہ نوچنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ اب تو ہم کسی کو پسند نا پسند بھی اس کی پارٹی کی چوائس دیکھ کر کرتے ہیں۔ اب ہماری ہاں کی الیکشن کمپین کا مقصد اپنا کام دکھانے سے زیادہ دوسری پارٹیوں کی غلطیاں دکھانا ہے۔ اور ہم ایسے عقل کے اندھے کہ ہمیں جس راہ پر چاہے لگا دو۔ کیا کریں مخصوص سمت میں سر ہلانے کی مشق اتنی پرانی ہے، کہ اب چاہ کر بھی کسی اور سمت میں سر ہلانا نہیں آتا۔

لیکن ایک صاحب ہیں جنھوں نے اب تک یہ نہیں پوچھا کہ بات سمجھ آتی ہے؟ وہ ہیں عمران خان جو اپنے آپ میں الیکشن جیت چکے ہیں۔ اور انھوں نے اس لیے بھی استاد والا سوال نہیں دہرایا، کیوں کہ انھوں نے ابھی تک قوم کو کچھ پڑھایا ہی نہیں ہے۔ بہر حال لگتا یہ ہے بہت جلد انھیں تدریس کا عمل شروع کرنا ہوگا اور ہر مشق کے بعد پوچھنا ہوگا، ”بات سمجھ آتی ہے؟“

ہو تو رہی ہے کوشش آرایش چمن
لیکن چمن غریب میں اب کچھ رہا بھی ہے؟

ہم پھر بھی اپنے چہرے نہ دیکھیں تو کیا علاج
آنکھیں بھی ہیں چراغ بھی ہے آئنہ بھی ہے
اقبالؔ عظیم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).