ٹرمپ کا دورہ یورپ ، پیوٹن سے ملاقات



امریکی صدر ڈولنڈ ٹرمپ اپنے ساتویں سات ملکی دورے پر یورپ پر موجود تھے اور انہوں نے ہیلسنکی میں روس کے صدر پیوٹن سے بھی مذاکرات کیے۔ صدر ٹرمپ کا یہ دورہ اس لحاظ سے بہت اہم تھا کہ اس کے آغاز میں وہ بریسلز گئے جہاں پر انہوں نے نیٹو کانفرنس میں شرکت کی۔ وہ گذشتہ برس بھی نیٹو کانفرنس میں شرکت کرنے کی غرض سے بریسلز گئے تھے۔ صدر ٹرمپ کا رویہ نیٹو کے حوالے سے اپنے پیش رو سے یکسر مختلف ہے۔ وہ نیٹو کے اخراجات میں امریکہ کے دیگر اتحادیوں کے حصے کو ضرورت سے کم تصور کرتے ہیں۔ جس کے سبب سے نیٹو کے رکن ممالک ان کے حوالے سے ایک مشکل رہنما کا تصور رکھتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے نیٹو اجلاس میں شرکت کرنے سے قبل نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ سے ملاقات کی اس ملاقات کے حوالے سے نیٹو میں امریکی سفیر نے کہا کہ اس کا ایجنڈا بالکل واضح تھا کہ روس کو روکنے کے لئے کیا حکمت عملی ہونی چاہیے۔ روسی سرگرمیوں کو کس حوالے سے دیکھنا چاہیے۔

صدر ٹرمپ کا نیٹو کانفرنس میں بھی بنیادی زور اور حکمت عملی روس کے حوالے سے ہی نظر آئی۔ انہوں نے یوکرائن اور جارجیا کے روس سے تعلقات اور ان مسائل کے حوالے سے روس سے اختلافات پر وہاں پر موجود نیٹو کے دیگر رکن ممالک سے اپنے نکتہ نظر کو کھل کر بیان کیا۔ جبکہ نیٹو ممالک کے لئے روسی خطرے کی بجتی گھنٹیوں یعنی روس کی جانب سے Intermediate Range Nuclear Forces Treaty کی خلاف ورزیوں پر بھی اپنے خیالات بلکہ تشویش کو سامنے لے کر آئے۔ نیٹو ممالک امریکی صدر ٹرمپ کا معاندانہ رویہ روسی اقدامات کے سبب سے برداشت کرنے پر مجبور ہے۔ کیونکہ وہ اپنی سلامتی کے معاملات کو امریکہ کی طاقت کے تناظر میں دیکھتے ہیں اور ٹرمپ یورپ کی اس مجبوری کا مکمل طور پر فائدہ اٹھانے کے موڈ میں ہے۔ اسی لئے انہوں نے اپنے دورے کے اگلے مرحلے پر لندن میں اس قسم کی گفتگو کی جبکہ وہ اس کے بعد صدر پیوٹن سے ملنے کے لئے روانہ ہونے والے تھے کہ یورپی یونین تجارت کے حوالے سے ہماری دشمن ہے۔ حالانکہ اس بیان کے فوراً بعد یورپی یونین کی طرف سے امریکہ کو دوست اور اس خبر کو “Fake News” کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی گئی لیکن وائٹ ہاؤس کے مکین کی جانب سے ایسے بیان کو ہلکے پھلکے انداز میں نظر انداز کرنے کی کوشش کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ اس حکمت عملی پر کاربند ہے کہ ان کے جو ماضی میں دوست رہے ہیں اور آج تک حلیف تصور کیے جاتے ہیں ان سے نسبتاً سخت رویہ اپنایا جائے۔ جبکہ پرانے دشمنوں کے لئے نئے دروازے تعمیر کیے جائیں۔

پرانے دشمنوں میں روس اور چین کے بعد شمالی کوریا کی جانب ان کے بڑھتے قدم اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ امریکہ دنیا کو اب یورپ کی نظر سے نہیں دیکھ رہا۔ بلکہ وہ دنیا میں نئی حقیقتوں کے جنم دینے کی اپنی حکمت عملی پر کاربند نظر آ رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے لندن آمد کے بعد ایک کاروباری نوعیت کی دعوت میں شرکت کی جبکہ وہ ونڈسر کیسل میں ملکہ الزبتھ سے چائے کی دعوت پر ملنے بھی گئے تھے۔ لیکن ان کی اہم ترین ملاقات برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے سے ہوئی اور جس کی حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک میں تجارتی امور اور بریگزٹ کے بعد برطانیہ کے یورپی یونین سے تعلقات کی نوعیت پر اختلافات گہرے محسوس ہوئے۔ تھریسا مے نے اس ملاقات کے بعد ایک انٹرویو میں بیان کیا کہ صدر ٹرمپ نے ان کو یورپی یونین سے بریگزٹ کے بعد کی صورتحال پر مذاکرات نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے تجویز کیا ہے کہ مذاکرات کی بجائے ان کو SUO کیا جائے۔ جب تھریسا مے سے پوچھا گیا کہ آپ کیا کریگی تو انہوں نے مسکراہٹ دیتے ہوئے کہا کہ ہم مذاکرات کریں گے۔ ٹرمپ کے ان اقدامات سے واضح ہوتا ہے کہ وہ یورپی یونین کو ایک خاص حد تک محدود کر دینا چاہتے ہیں۔

ٹرمپ نے ہیل سنکی میں صدر پیوٹن سے مذاکرات کے لئے حتمی تیاری کے لئے سکاٹ لینڈ قیام کیا جہاں ان کی سرکاری مصروفیات نہیں تھیں۔ لیکن ان کے 2 ذاتی گالف کورس ضرور موجود ہیں جن میں سے ایک میں انہوں نے قیام بھی کیا۔ ٹرمپ کی والدہ کا تعلق بھی سکاٹ لینڈ سے ہی تھا اور وہ 18 سال کی عمر میں امریکہ آئی تھی۔ صدر ٹرمپ اس سے قبل 2 بار صدر پیوٹن سے ملاقات کر چکے ہیں لیکن یہ دونوں ملاقاتیں ہیمبرگ جرمنی اور ویت نام میں مختلف کانفرنسوں میں ہوئی تھی اس لئے موجودہ ملاقات بنیادی طور پر دونوں صدور کی پہلی رسمی ملاقات تھی۔ یہ ملاقاتوں کے تین ادوار ہوئے جن میں سے ایک ملاقات میں صرف صدر ٹرمپ، صدر پیوٹن ، دونوں کے مترجمین اور Note Takers کے علاوہ کوئی اور موجود نہیں تھا۔ اور اس کا مطلب وائیٹ ہاؤس کے ذرائع یہ بیان کر رہے ہیں کہ ٹرمپ پیوٹن سے کھل کر گفتگو کرنا چاہتے تھے کہ امریکہ کا مفاد کیا ہے۔ روس کا مفاد کیا ہے۔ اور امن و سلامتی میں اپنے مفادات کو کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

صدر ٹرمپ کی ان ملاقاتوں میں روس کی امریکہ میں مبینہ انتخابی مداخلت یو کرائن کا مسئلہ، شام کا مسئلہ اور ہتھیاروں کی دوڑ کے معاملات شامل تھے۔ امریکہ، شام میں روسی برتری اور اس کے زیر اثر ایران کے اسرائیل کی سرحد کے قریب اپنے حامیوں کے ذریعے ممکنہ فوجی اقدامات سے پریشان ہے اور وہ روس کی اس ضمن میں حمایت اور مدد چاہتا ہے۔ روسی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے وہ روسی تیل کی پیداوار بڑھانے کا اشارہ دے رہا ہے کیونکہ اوپیک پہلے ہی روس کے ساتھ ایسا اتفاق کر چکا ہے۔ امریکہ اس حکمت عملی سے یہ چاہتا ہے کہ ایران کی تیل کی ایکسپورٹ کو بڑھنے سے روکا جا سکے۔ دیکھنا یہ ہے کہ روس اس پر کوئی امریکہ کو عملی ضمانت دیتا ہے یا نہیں۔ شام میں روسی اقدامات اس کی وضاحت کر یں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).