پرائیویٹ اسکول اور اساتذہ کی حالت زار


گلی میں آواز لگ رہی تھی ’سبزی والا‘۔ میرے ہونٹوں پہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ ہر شہر میں نجانے کیوں چھابڑی والوں کی آواز و انداز ملتے جلتے ہوتے ہیں۔ خدا جانے ایسا کیوں ہوا کہ مجھے تعلیم فروش یاد آ گئے۔ ہر شہر میں خوانچہ فروشوں کی طرح ان کے انداز بھی قدر مشترک ہیں۔

اسکول کھلنے کو ہیں۔ ڈرامے شروع ہونے کو ہیں۔ کبھی پیپرز کھو جانے کے ڈرامے و احتجاج تو کبھی فیس بڑھنے پہ احتجاج و جلوس، کبھی چھٹیوں کی فیس تو کبھی خراب نتائج پہ احتجاج و جلوس۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ احتجاج کرنے والوں کی بھی جون جولائی میں چھٹیاں ہوتی ہیں؛ تنخواہوں کے ساتھ۔ سبھی کہیں غائب ہو جاتے ہیں۔

قارئین ہمیشہ ہی اس افراتفری میں ایک حلقہ نظر انداز ہو جاتا ہے اور وہ ہیں اساتذہ۔ پرائیوٹ اسکولوں کے اساتذہ کی تنخواہوں کے متعلق، ہمیشہ سے قوم کو غلط زاویہ دکھایا جاتا رہا ہے۔ درحقیقت حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ ملک کے پرائیوٹ اسکولوں میں اساتذہ کے ساتھ بے حد من مانی اور نا انصافی ہوتی آئی ہے۔ یہ پرائیویٹ اسکول وہ ان داتا ہیں جنھیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔

اﷲ اﷲ کر کے اساتذہ کی چھٹیاں محفوظ مگر سولی پہ گزریں۔ تنخواہ آئے گی کہ نہیں آئے گی۔ اسکول فیس نہیں لیں گے تو اساتذہ کو تنخواہیں بھی نہیں دیں گے۔ یہ فیصلے ہو ا میں کیوں کر ہو جایا کرتے ہیں۔ پھر اسکولوں میں سالانہ رپورٹ لکھنے کے رواج کے تحت اساتذہ کی تنخواہیں بڑھائی جاتی تھیں مگر اب بہترین کام کرنے والے ہوں یا بہترین نتائج دینے والے۔ تنخواہوں کا دارو مدار یہ رپورٹ نہیں رہیں۔ ملک کے دیگر محکموں کی طرح پرائیوٹ اسکولوں میں بھی کرپشن دن بدن بڑھ رہی ہے اور معیار دن بدن گر رہا ہے۔

اس پہ ستم یہ کہ دنیا کو دکھایا جاتا ہے کہ اساتذہ کے بچے تو فری پڑھتے ہیں۔ جب کہ جن اساتذہ کے بچے فری پڑھتے ہیں ان کی تنخواہیں اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہی بڑھائی جاتی ہیں اور اس طرح بزنس بیلنس رکھا جاتا ہے۔ انتظامیہ کو علم ہوتا ہے کہ اساتذہ بچوں کی وجہ سے مجبور ہیں، نا ہی وہ نوکری چھوڑ کے جائیں گے نا ہی تکرار کریں گے۔ قارئین اس زمرے میں سب سے زیادہ ذلیل بھی انھی اساتذہ کو کیا جاتا ہے، جو روز سر جھکا کے اولاد سے مجبور سب سے زیادہ کام بھی کرتے ہیں۔

تنخواہیں بڑھنے کا کوئی نظام کیوں نہیں بنایا جا تا آخر؟ کسی بھی حلقے کو اساتذہ کے حقوق میں کوئی دل چسپی نہیں کہ ایک عام آدمی تو یہی سمجھتا ہے کہ اساتذہ تو پیسوں میں کھیل رہے ہیں۔ مردوں کو تو گھر چلانا ہوتا ہے، وہ دُپہر کو اسکول کے بعد ٹیوشن یا کوئی اور کام کرنے پہ مجبور ہوتے ہیں مگر جو خواتین گھر چلا رہی ہیں وہ کیا کریں۔ انھیں تو اپنے بچوں کو پڑھانے سے لے کر گھر چلانے تک ہر کام خود کرنا پڑتا ہے، وہ سیکنڈ شفٹ کیسے کریں۔ جن اسکولوں میں بچوں سے ماہانہ پندر ہ ہزار سے بیس ہزار روپے لیے جا رہے ہیں، وہاں کے اساتذہ کی اوسط تنخواہیں پندرہ سو سے ڈھائی ہزار سالانہ بڑھائی جاتی ہیں، چاہے ان میں کوئی کتنے ہی اچھے نتائج کیوں نا دے رہا ہو۔ منہگائی بڑھنے یا ڈالر کی قیمت کے اعتبار سے اگر گنا جائے تو ہر سال اساتذہ کی تنخواہیں بڑھنے کے بجائے کم ہو رہی ہیں۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔

ہمارے یہاں صحیح نکات پہ احتجاج کرنے والوں پہ ڈنڈا برسایا جاتا ہے اور بے وجہ احتجاج کرنے والوں کی سرخیاں لگتی ہیں۔ ڈاکٹروں کے لیے بھی کتنا آسان ہے، یہاں احتجاج کیا اور وہاں تنخواہیں بڑھ گئیں۔ خاموش و مجبور زبان کو کیوں نہیں سنا جاتا آخر۔

اس وقت بھی کسی نے احتجاج نہیں کیا جب بڑے بڑے اسکولوں نے موسم بہار کی چھٹیاں دے دیں اور رمضان میں ۴۸ درجہ حرارت میں امتحانات لیتے رہے۔ کبھی کسی نے سوچا کہ اگر مارچ میں چھٹیاں نہیں دی جاتیں سعودی عرب کی طرح تو امتحانات پہلے ہو سکتے تھے۔ اساتذہ شدید گرمی میں جون تک اسکول جاتے رہے اور خواتین کو تو روزے کی حالت میں اسکول آنا، پھر گھر جاتے ہی بچوں کو اگلے امتحان کی تیاری کروانا۔ پھر افطاری کا اہتمام، پھر سحری۔ تب کسی کو خیال نہیں آیا احتجاج کرنے کا۔ انسانی ہم دردی رکھنے والے اس اطمینان میں تھے کہ کراچی میں چھٹیاں دے دی گئی ہیں۔ کسی نے دیکھا کہ ملک بھر میں یہاں تک کے کراچی کے بھی بڑے بڑے اسکول امتحان لے رہے ہیں۔

کیمبرج سسٹم کے تحت او اینڈ اے لیول کے امتحانات بھی عید سے دو دن پہلے تک لیے جاتے رہے۔ شدید گرمی اور روزوں میں اساتذہ کو آرڈر دیا جاتا کہ وہ جا کے امتحانی مراکز کے باہر کھڑے رہیں۔ اسی طرح چودہ اگست کو نتائج کا اعلان ہو گا، جس کے لیے اساتذہ کو صبح سے اسکولوں میں حاضر ہونا ہو گا۔ پاکستان، جو کہ اتنا زیادہ پیسا کیمبرج کو امتحان کے زمرے میں دے رہا ہے، کیا ہم اپنی ایک بات بھی ان سے نہیں منوا سکتے۔

پھر سوچتی ہوں کہ کیا لکھ رہی ہوں! جب گورنمنٹ کو اپنے اساتذہ کے حقوق کی ہی کوئی پروا نہیں ہے تو یہ بحث ہی الگ ہے۔ یہی کہوں گی کہ ووٹ سوچ سمجھ کے ڈالیے۔ شاید کوئی معجزہ ہو ہی جائے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).