کریم منزل کی ایک رات


احمد سلیم سلیمیؔ

\"Ahmadاکتوبر 2013 کے آخری عشرے کا آغاز ہوا تھا۔ گلگت کی ہواؤں میں اوپر پہاڑوں سے اُترتی خنکی شامل ہوگئی تھی۔ شام ہوتے ہی ٹھنڈک کا احساس شروع ہونے لگا تھا۔ مگر دن ابھی تک گرم تھے۔ دُھوپ کی گرمی بدن جھلساتی تھی۔

ایسے میں عبدالکریم کریمیؔ صاحب کی شادی کا دعوت نامہ ملا۔ کریمیؔ صاحب کی دوستی جس طرح قابلِ قدر ہے اِسی طرح اُس کا دعوت نامہ بھی اہم تھا۔ کالج میں، میں نے اشتیاق احمد یادؔ صاحب سے بات کی۔ انہوں نے رضامندی ظاہر کر دی۔ میں نے جمشید دُکھیؔ صاحب سے تبادلۂ خیال کیا۔ وہ بھی تیار تھے۔ پھر پتہ چلا کہ شمالیؔ صاحب، طارقؔ صاحب، نسیمؔ صاحب اور تاجؔ صاحب بھی شادی میں شرکت کے لیے آنے والے ہیں۔ یہ سن کر جی خوش ہوا۔ سوچا حلقۂ اربابِ ذوق کے یہ احباب اگر جانے کو تیار بیٹھے ہیں تو مجھے بھی رختِ سفر باندھنا ہوگا۔

22 اکتوبر سہ پہر کے وقت ہم گلگت سے روانہ ہوئے۔ موسم گرم تھا۔ دُھوپ کی حدت کپڑوں کے اندر بدن پہ اثر کر رہی تھی۔ ایسے میں دو گاڑیوں پہ مشتمل ہم لوگ بارجنگل کی طرف عازمِ سفر ہوئے۔

عنایت اللہ خان شمالیؔ صاحب، غلام عباس نسیمؔ صاحب اور خوشی محمد طارقؔ صاحب ایک گاڑی میں تھے۔ دوسری میں عبدالخالق تاجؔ صاحب، جمشید خان دُکھیؔ صاحب، اشتیاق احمد یادؔ صاحب اور یہ ناچیز بیٹھے تھے۔ حسبِ معمول تاجؔ صاحب کی پُرشگفتہ اور چٹکلہ دار باتیں گاڑی میں گونجتی رہیں۔ کبھی شنا گانوں سے ہمیں محظوظ کرتے رہے، کبھی دُکھیؔ صاحب کے ساتھ ہلکی پھلکی نوک جھونک چلتی رہی۔ کبھی ہم بھی باتوں کی بارش سے سفر کی دُھول مٹاتے رہے۔ راستے میں گلاپور کے پاس ہم ٹھہر گئے۔ وہاں روڈ کے ساتھ ہی اوپر کی طرف ایک ہوٹل میں چائے پی۔ وہاں کریمیؔ صاحب کا فون آیا۔ پتا چلا کہ وہ لوگ ابھی گلگت سے روانہ ہونے والے ہیں۔ اصل میں کریمیؔ بھائی ہنزہ سے دُلہن لے کے آئے تھے۔ گلگت مرکزی جماعت خانے میں اُن کی رسمِ نکاح ہوئی تھی۔ پھر ریویریا ہوٹل چنار باغ گلگت میں دعوتِ ولیمہ کے بعد وہ برات کی شکل میں غذر روانہ ہوئے تھے۔

وہاں شمالیؔ صاحب کی معیت میں ہم نے فیصلہ کیا کہ راستے میں برات کا انتظار کرتے ہیں۔ وہ لوگ آجائیں تو اکٹھے بارجنگل روانہ ہوتے ہیں۔

یہ فیصلہ کرکے ہم گاڑیوں میں بیٹھ گئے۔ پھر کم رفتار کے ساتھ آس پاس کی وادیوں اور مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے سفر کرتے رہے۔ بوبر کے پُل کے پاس پہنچے تو شام ہوگئی۔ وہاں نماز کے لیے ٹھہر گئے۔ نماز کے بعد کریمیؔ صاحب سے رابطہ کیا تو پتا چلا کہ وہ لوگ قریب پہنچ گئے ہیں۔ اس لیے آگے جانے کی بجائے وہاں اُن کا انتظار کرنا مناسب سمجھا۔

شام کے بعد بوبر کے سامنے روڈ پہ بہت خنکی تھی۔ ہم ہلکے کپڑوں میں تھے۔ دریا سے اُٹھتی ہوا سیدھے بدن میں اُتر رہی تھی۔ ایسے میں چائے کی طلب ہو رہی تھی۔ ہم سب نے چائے پی۔ کچھ دوستوں نے سگریٹ نوشی کی۔ پھر ذرا ہی دیر میں اندھیرے کا سینہ چیرتی ہوئی گاڑیوں کی ہیڈلائٹس روشن ہوئیں۔ ہم روڈ کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ کئی گاڑیوں پر مشتمل کریمیؔ صاحب کی برات وہاں رُک گئی۔ گاڑیوں کی تیز روشنیوں میں کریمیؔ بھائی سفید کپڑوں اور کالے کوٹ میں خوشی سے تمتماتے چہرے کے ساتھ نمودار ہوئے۔ اُن کے انگ انگ سے مسرت کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں۔ زندگی کے ایک نئے دَور کا آغاز ہونے والا تھا۔ یہ ایسا دَور ہے جس میں کیف و مستی بھی ہے، رنگ و نور بھی ہے، سکون و اطمینان بھی ہے اور دُکھ درد کے سائے بھی۔۔۔ کامیاب انسان وہی ہے جو ہر حال میں توازن کا خیال رکھے۔ سمجھداری، تحمل اور لحاظ سے منہ نہ موڑے۔

وہاں ہم نے کریمیؔ بھائی اور اُن کے براتیوں سے مختصر ملاقات کی۔ پھر گاڑیوں میں بیٹھ کر برات کی شکل میں بارجنگل روانہ ہوئے۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بعد ہم کریم منزل پہنچ گئے۔ گاڑی سے باہر نکلتے ہی خنکی نے پہلے استقبال کیا۔ بہرحال یہ ایسی سردی نہیں تھی جو ناگوار ہو۔بلکہ ایک طرح سے مزہ آرہا تھا۔ کریم منزل میں بہت سے لوگ موجود تھے۔ گھر کے سامنے کھلے لان میں شامیانے لگا کر مہمانوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا تھا۔ بجلی کے متعدد بلبوں کی روشنی میں چمکتے دمکتے چہروں والے مرد و زن نظر آرہے تھے۔

ہمیں کھلے لان کی بجائے ایک کمرے میں بٹھا دیا گیا۔ لوگ آکر ہم سے ملتے رہے۔ وہاں کے بڑے بوڑھے سماجی اور مذہبی زعماء بھی آگئے۔ کریمیؔ بھائی کے والد محترم سے بھی شرفِ ملاقات ہوئی۔ وہاں کے رواج کے مطابق پہلے ہمیں ’’اشپیری‘‘ یعنی دیسی روٹیاں، تازہ گھی اور کباب وغیرہ کے ساتھ چائے پیش کی گئی۔ چائے سے ہماری تھکاوٹ کافور ہوگئی۔ شادی کی ان رسومات کی ادائیگی کے بعد کریمیؔ صاحب بھی آگئے۔ ذرا دیر بعد کھانا پیش کیا گیا۔ روایتی کھانوں کے ساتھ ساتھ عام پلاؤ وغیرہ بھی شامل تھا۔ سب نے جی بھر کے ہر طرح کے کھانے سے لطف اُٹھایا۔

کھانے کے بعد کچھ دیر گزری تھی۔ باہر کھلے لان کی طرف سے لاؤڑ اسپیکر میں سے آواز آئی۔ حلقۂ اربابِ ذوق کے تمام شعراء کا نام لے لے کر کہا جا رہا تھا ذرا ہی دیر میں ایک مشاعرہ ہوگا۔ اس کے بعد روایتی موسیقی کا پروگرام منعقد ہوگا۔

یہ اعلان بڑا خوش کُن تھا۔ جہاں شاعر ہوں وہاں مشاعرہ اُن کے جذبات کے اظہار کا اہم ذریعہ ہوتا ہے۔ یوں عام لوگ بھی محظوظ ہوتے ہیں ساتھ ہی شاعروں کی Catharsis بھی ہوتی ہے۔ باہر انتظامات مکمل کرکے ہمیں بلایا گیا۔ تمام شعراء صوفوں اور کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ کھلے لان میں سامنے کی طرف اور دائیں طرف مرد بیٹھے تھے جبکہ بائیں طرف اور پیچھے کی طرف خواتین بیٹھی دکھائی دیں۔

مشاعرہ شروع ہوا۔ غلام عباس نسیمؔ صاحب نے نظامت کے فرائض سنبھالے۔ ایک ایک کر کے شعراء سامنے جاتے رہے۔ کریمیؔ بھائی اور اُن کی شریکہ حیات محترمہ سوسن پری کی شان میں، شادی کی اس تقریب کے حوالے سے اور اُن کے خوبصورت مستقبل کے حوالے سے کلام سناتے رہے۔ بارجنگل کے لوگ بڑے باذوق اور مؤدب تھے۔ تمام شعراء کو جی بھر کے داد دیتے رہے۔

سکردو کے البیلے اور باغ و بہار شاعر احسان علی دانشؔ بھی آئے تھے۔ انہوں نے بھی اپنے مخصوص انداز۔۔۔ جس میں اداکاری بھی ہے، صدا کاری بھی ہے اور شاعری بھی۔۔۔ میں کلام پڑھا۔ اُن کے ایک ایک شعر پہ اہلِ بارجنگل جھوم اُٹھے۔

مشاعرے کے بعد روایتی موسیقی کا پروگرام شروع ہوا۔ رات بڑی حد تک بھیگ چکی تھی۔ کہر سی چاروں اور چھائی ہوئی تھی۔ اس سے ٹھنڈک بھی بڑھ گئی تھی۔ کمبل اور رضاعیاں بھی لاکے ہمیں دی گئی تھیں۔ پھر بھی سردی بڑھتی جا رہی تھی۔ مگر اتنے سارے لوگوں کی موجودگی میں اُٹھ کے جانا مناسب نہیں تھا۔ اسی لیے ہم سب بیٹھے رہے۔ موسیقی کی محفل شروع ہوئی تو سردی کی شدت ختم ہوئی۔ ایک جوش، ایک حرارت اور ہنگامے کی کیفیت ہوئی۔ شنا، بروشسکی، وخی اور کہوار کے کئی مشہور اور خوش گلو شاعر آئے تھے۔ ڈھول، شہنائی اور بانسری کی تال میل سے کریم منزل کی وہ رات گونج رہی تھی۔ باری باری، اکیلے بھی، گروپ کی شکل میں بھی شوقین مزاج ناچنے لگے۔ گلگت سے آئے لوگوں میں تاجؔ صاحب، اشتیاق یادؔ صاحب اور مجھے بھی کریمیؔ صاحب کی خوشی میں ناچنے کا موقع ملا۔

ایک موقع پر اعلان ہوا۔ اب ناچنے کے لیے کریمیؔ صاحب کی باری ہے۔ کریمیؔ بھائی ناچے اور خوب ناچے۔ اُن کی شریکہ حیات بھی اس محفل میں ہی موجود تھیں۔ جب کریمیؔ بھائی نے ناچنا شروع کیا تو وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر باہر لان میں آئیں اور کریمیؔ صاحب کی ٹوپی پہ وہاں کے رواج کے مطابق روپے لگائے۔ وہاں موجود مرد و زن نے بہت زبردست تالیاں بجائیں۔ منہ سے آوازیں نکال نکال کر اپنی خوشی کا اظہار کرنے لگے۔

بڑی دیر بعد۔۔۔ بہت دُور سے اذانوں کی آواز گونجی۔ اعلان ہوا اب موسیقی کا یہ سلسلہ موقوف کیا جاتا ہے۔ ہم دوبارہ کمرے میں آئے۔ غذر کے معروف شاعر ایوب متاثرؔ اور اقبال حسین اقبالؔ بھی کمرے میں آئے۔ ان دونوں نے ہماری فرمائش پر وہاں بھی گانا گایا۔ وہاں بیٹھے لیٹے، ان کے گانے سنتے صبح ہوگئی۔ ہم میں سے اکثر رات بھر سوئے نہیں تھے۔ آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں۔ جاگتے رہنے سے سرخ ہوکر جلنے لگی تھیں۔ مگر لیٹنے اور تھوڑی سی نیند پوری کرنے کا موقع نہیں تھا۔ یوں بغیر سوئے صبح ہوگئی۔ ناشتہ لگایا گیا۔ اس کا بھی جدید اور روایتی کھانوں کے امتزاج سے انتظام کیا گیا تھا۔ ناشتے سے فارغ ہوتے ہی شمالیؔ صاحب اور تاجؔ صاحب نے واپسی کا عندیہ دیا۔ ہمارا تو خیال تھا کہ ناشتے کے بعد ہی تھوڑی دیر سوجائیں گے۔ مگر سفر کے بڑوں نے سفر کی نوید سنائی۔ بادل نخواستہ ہم سب کریمیؔ صاحب اور اُن کے اہلِ خانہ سے رخصت ہوئے۔

دُھوپ ابھی نہیں نکلی تھی۔ اچھی خاصی کہر زمین پہ چھائی ہوئی تھی۔ صبح کے ایسے وقت جب سورج طلوع نہیں ہوا تھا۔ سردی بھی بہت تھی۔ ہم گاڑیوں میں بیٹھ کر واپس گلگت روانہ ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).