عمران خان کے پھٹیچر ریلو کٹے


با ادب کے فرشتوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ خان صاحب ”لغات“ میں اتنے اختراع پسند ہیں، جیسے تبدیلی، جنون، پھٹیچر، ریلوکٹا وغیرہ۔ یہ بہرحال اک ”باسی“ اختراع ہے کہ بے ادب ہجو گوؤں نے ” لغات ” زبان زد عام کرکے اس قدر ”لغویات“ کر دیں۔ کہ پھٹیچر ریلوکٹوں نے بنی گالہ کا رخ کرنا شروع کر دیا۔ وہاں ”آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے“ کے مصداق جب تبدیلی تیل سے ان کی مالش ہوئی۔ اور جنون ورزش سے جو ان کے ڈنڈ لگوائے گئے۔ تو وہ پرانے روزگار اور تنخواہ پہ حسرت کرنے لگے۔ لیکن اب کریں کیا، بھاگیں کہاں اور کیسے، ”اکھاڑے“ کے سائیڈ پہ ٹوٹی پھوٹی پرانی سائیکل ہے۔ دوسری طرف تیرانداز شیر کے شکار کے لئے مورچہ بند ہیں۔ اور سامنے زخمی شیر صاحب راستے میں براجمان ہیں۔

پھٹیچر ریلوکٹا ناکام عاشق کا دوسرا نام ہے۔ اور ناکام عاشق ”زخمی شیر“ سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ اگر آپ خان صاحب کے پھٹیچر ریلوکٹے، یعنی ”ناکام عاشق“ ہیں۔ تو آپ میں یا تو تبدیلی کے جراثیم سرایت کر سکتے ہیں۔ جس سے آپ کی نئی نویلی سیاسی عاشقی کا تابناک مستقبل سونامی کی ”نذر“ ہو سکتا ہے۔ یا آپ بلا گھمانے میں ناکام ہوکر ناکام عاشق ہی رہ پاتے ہیں۔ لیکن فکر کی کوئی بات نہیں، تیراندازی کے میدان میں زندہ جاوید ہونے اور شیر بادشاہ کے ”جنگل میں منگل ” کے تماشے سے لطف اندوز ہونے کے بھرپور مواقع میسر ہی سمجھیں۔ یعنی عشق سیاست میں مسلسل ناکامی ہی کی بدولت آپ کی پانچوں انگلیاں ”عسکری گھی ” اور سر سیاسی کڑاہی میں ہے۔

اگر آپ پھٹیچر ریلوکٹے ہیں بھی، تو آنا‌فانا دل سے یہ خیال نکال دیں۔ اور سوچنا شروع کر دیں کہ آپ شیر ہیں۔ اور دنیا کی کوئی طاقت آپ کو بادشاہت کے کھیل سے نہیں نکال سکتی۔ اگر آپ اپنے آپ کو پھٹیچر ریلوکٹے تصور کریں گے تو آپ کو مرمت کے لئے اکھاڑے میں ”انصاف پہلوان“ کے مد مقابل لایا جاسکتا ہے۔ عقل مند کے لئے اشارہ کافی ہے۔ اگر پھٹیچر ریلوکٹے ہونے کے باوجود آپ میں دانائی کی تھوڑی سی بھی رمق باقی ہے تو آپ بادشاہت کے مستقل کھیل کو اکھاڑے کے کھیل پر یقینا ترجیح دیں گے۔

مملکت خداداد پھٹیچر ریلوکٹوں سے خودکفیل ہے۔ ویسے پھٹیچر ریلوکٹا ہونا کوئی جرم تو نہیں، کہ جمہوریت میں وقت کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ جائز اور نظریہ ضرورت کے عین مطابق ہے۔ اگرچہ ”سیای لوٹے“ کے لئے ”پھٹیچر ریلوکٹا“ کا لفظ استعمال کرنے پر حاسدین پھٹیچر ریلو کٹوں کی عزت افزائی پر سیخ پا ہو سکتے ہیں۔ لیکن عقیدہ مسلم ہے کہ دنیا کے سارے دانا مل کر بھی اک نادان کو نادانی سے نہیں روک پاتے۔ مزید عزت افزائی کی نہ میری بساط ہے اور نہ ہی پھٹیچر ریلوکٹوں کی کارکردگی اجازت دیتی ہے۔ آپ خود سوچیں لوٹا بیت الخلا میں استعمال ہوتا ہے۔ اور بیت الخلا ما فی النفسہ بوجھ ہلکا کرنے کے لئے قابل قدر لیکن ما فی الظمیر بیان کرنے کے لئے کوئی قابل ذکر جگہ نہیں۔ حالانکہ لوٹا، طائفہ ظروف کا ”باظرف“ بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن بیت الخلا جگہ ہی ایسی ہے کہ وہاں ظروف کا ظرف تو کیا، اچھے بھلے بندے کے ظرف کا بیڑا غرق ہو جاتا ہے۔

پھٹیچر ریلو کٹے ”فارغ البال“، کیڑے نکالنے والے اور ہر پھڈے میں ٹانگ اڑانے والے نکتہ ”دانوں“ سے سخت نالاں ہیں۔ کیوںکہ وہ علی الاعلان انھیں کرگس کہنے سے باز نہیں آتے۔ شاعر مشرق جیسے مفکر کو جمہوریت میں بندوں کے تولنے کا کوئی صیغہ راز نظر ہی نہیں آیا تھا۔ یعنی جمہوریت کا نتیجہ بعض اوقات ”جمہورا“ (خاکم بدہن) بھی نکل سکتا ہے۔ اسی لئے پھٹیچر ریلو کٹے ” موقع ” سے فائدہ اٹھا کر کرگس ہوتے ہوئے بھی شاہینوں کے کارواں کی زینت بنتے ہیں۔ اور اس بار تبدیلی کے سر کی جو ”چاندی“ ہوئی تو یاروں نے شاہیں بننے کا عزم ”تبدیلی گلشن“ کے ساتھ ”پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ ” کے ناتے استوار کیا۔ لیکن اب کے بھی شاہین نہ بنے تو شعور آفتاب کی تپش سے بچنے کے لئے غاروں میں پناہ لیں گے۔ اور کرگس کی بجائے چمگادڑ کی ”خلوت“ کو ترجیح دے کر ”جوگی آیا رے“ گایا کریں گے۔ کیوںکہ خان صاحب ”تیرا عشق صوفیانہ“ کی بدولت آج کل اتنے ”صوفیانہ“ ہو گئے ہیں۔ کہ کشش نے ”غیر راجع جوگن“ تک کو حصار میں لیا۔ اور بچاری پر ”صوفی“ بننے کا اتنا خبط سوار ہو ا۔ کہ داڑھی چہرے پہ سجا تے ہوئے ”رجوع ” کر ہی بیٹھی، ارے پلٹ تیرا دھیان کدھر ہے، ” جچتی ہے کیا؟

یہ پھٹیچر ریلوکٹے
یہ سیاسی ہٹے کٹے
حکمرانوں کے چمچے
یہ سیاسی لوٹے
کھائے تو تھوکے
اک تھالی کے چٹے بٹے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).