خیبر پختونخوا پولیس میں ریفارمز۔ کتنی حقیقت، کتنا افسانہ


(مصنف خیبر پختونخوا صوبے کے ہوم سیکٹری اور آئی جی پولیس رہ چکے ہیں)۔
سیاست، رائے عامہ کو دلنشیں کہانیوں سے رام کرنے کا نام ہے۔ سیاستدان اکثر ان اشتہاری کمپنیوں کی طرح ہوتے ہیں جو چند جملوں یا استعاروں کو ہزارہا دفعہ استعمال کرتے ہیں تاکہ عقیدت مند اس کو حقیقت سمجھ لیں۔ پچھلے چند سالوں میں تواتر کے ساتھ بولے گئے سیاسی جملوں میں ایک جملہ بہت نمایاں دکھائی دیتا ہے کہ ”ہم نے خیبر پخوانخوا میں پولیس کو مثالی بنا دیا“۔ میری پولیس کے ساتھ تین دہائیوں سے وابستگی رہی ہے اور اپنے محکمے پر ناز کرتا ہوں۔ لیکن اسی وابستگی کی وجہ سے یہ ذمہ داری بھی محسوس کرتا ہوں کہ ریکارڈ کی درستگی کرتے ہوئے اصلی صورت حال سب کے سامنے پیش کروں۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ میں پچھلے دو ادوار کا تقابلی جائزہ لے کر یہ بتاؤں کہ کس دور میں کیا اہم اقدامات کیے گئے تھے۔

خیبر پخوانخوا میں 2008۔ 2013 تک اے این پی کی حکومت رہی جبکہ 2013 سے 2018 تک پی ٹی آئی بر سر اقتدار رہی۔ جب اے این پی کو حکومت ملی تو اسوقت صوبے میں عسکریت پسند اپنے عروج پر تھے اور ریاست کے تذبذب کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے متوازی حکومت کھڑی کرکے ریاست کو کھلا چیلنج دے رکھا تھا۔ وہ دن دہاڑے قانون نافذ کرنے والوں پر حملے کرتے اور خوف اور دہشت کا ماحول پیدا کرتے۔ اس آزمائش سے نمٹنے کے لئے پولیس کو اس قابل بنانا ضروری تھا کہ وہ دہشتگردوں کا جوانمردی کے ساتھ مقابلہ کرسکے۔ چنانچہ حکومت نے ورلڈ بنک کی مدد سے پولیس کو جدید خطوط پر منظم کرنے کا منصوبہ بنایا۔

فقط نعروں اور دلفریب خواہشات سے تبدیلی نہیں آتی۔ اس لئے حکونت نے بجٹ میں پولیس کے لئے مختص رقم میں بے پناہ اضافہ کیا۔ اگر ہم پچھلے 15 سال کے پولیس کے ترقیاتی بجٹ کا جائزہ لیں تو دیکھ سکتے ہیں کہ 2010۔11 میں پولیس کا بجٹ اپنے عروج پر پہنچ گیا تھا۔ زیادہ بجٹ کی فراہمی سے پولیس کی نفری میں خاطر خواہ اضافہ ممکن بنایا گیا۔ 2006 میں پولیس کی کل نفری 32000 تھی جو 2013 تک بڑھ کے 75000 تک پہنچ گئی۔

پولیس میں مختف تبدیلیوں اور بہتری کے اہداف حاصل کرنے کے لئے ایک خصوصی پروجیکٹ کوآرڈینیشن یونٹ بنایا گیا جس نے پولیس فورس کو اپنے ترقیاتی کام خود شروع کرنے کا اختیار دیا۔ اے این پی کی حکومت صرف نفری بڑھانے تک محدود نہ رہی بلکہ پولیس کی استعدادی صلاحیت بڑھانے کے لئے بھی مربوط پروگرام بنایا۔ چونکہ بڑی تعداد میں نوجوانوں کو بھرتی کیا گیا تھا لہذا فوری طور پر ان کی ٹریننگ پولیس کے محدود وسائل میں ممکن نہ تھی اس لئے ان کو آرمی کی معاونت سے اعلی معیار کی ٹریننگ دلوائی گئی۔ ساتھ ہی ساتھ نوشہرہ میں اراضی حاصل کر کے وہاں امریکی امداد کے ساتھ پولیس کا خصوصی ٹریننگ سنٹر تعمیر کردیا گیا جو اب انٹی ٹیررازم ٹریننگ کی اہم ترین تربیت گاہ بن چکا ہے۔

پولیس اہلکاروں کو جدید اسلحہ سے لیس بھی کیا گیا تاکہ وہ دہشت پسندوں کا بہترین مقابلہ کرسکیں۔ چونکہ پولیس کی تربیت بنیادی طور پر امن عامہ کے لئے کی جاتی ہے جبکہ صوبے میں دہشتگردوں کی سرکوبی مقصود تھی اس لئے 7000 جوانوں پر مشتمل انٹی ٹیررازم ایلیٹ فورس کا قیام وجود میں لایا گیا۔ انٹی ٹیررازم کارروائیوں کو زیادہ منظم بنانے کے لئے ڈائریکٹوریٹ آف کاؤنٹر ٹیررازم کا قیام عمل میں لیا گیا جس نے 3500 عسکریت پسندوں اور 350 کے لگ بھگ انتہائی مطلوب شدّت پسندوں کا تفصیلی ڈیٹا بیس بنایا۔ ملاکنڈ ڈویژن میں شدت پسندوں کے ہاتھوں تباہ ہونے والے پولیس تھانوں کو امریکی امداد کے ذریعے دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ گویا ہم مختصراً یہ کہہ سکتے ہیں کہ 2013 تک پولیس کو انتہائی جدید بنیادوں پر منظم کردیا گیا تھا۔

اب 2013 سے 18 تک کے دور کا جائزہ لیتے ہیں۔ اور جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس دور میں کیا اہم تبدیلیاں کی گئیں اور کتنا بجٹ پولیس پر خرچ کیا گیا۔ یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ پی ٹی آئی کے لیڈر عمران خان نے اپنی تقریروں میں کئی بار یہ اعلان کیا تھا اور پارٹی کے منشور میں بھی لکھا تھا کہ صوبے میں امریکا کے شیرف طرز کا پولیس سسٹم متعارف کرایا جائے گا۔ ایسا کچھ دیکھنے میں نہ آسکا۔ بعض لوگ ٹریفک پولیس میں اضافے کا حوالہ دیتے ہیں۔ لیکن یہ اضافہ پچھلے دور میں نفری تقریبا دگنی ہو جانے کی وجہ سے ممکن ہوا۔

پچھلے دو چار سال میں ہم فیس بک پر اکثر ایک تصویر دیکھا کرتے تھے جس میں ایک انتہائی جدید پولیس سٹیشن دکھا کے یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی تھی کہ خیبر پخوانخوا کی پولیس کو یورپ جیسا جدید بنا دیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی پشاور، جو صوبائی دارالحکومت ہے، میں پولیس سٹیشن مخدوش حالت میں ہیں۔ پچھلے پانچ سالوں میں صرف 9 فی صد نفری میں اضافہ ہوا جبکہ اس سےپچھلے دور میں 135 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ پولیس بجٹ میں کٹوتی کی گئی اور 2015۔ 16 میں بجٹ کم ترین سطح پر پہنچ گیا تھا۔

حکومت نے اہم ترقیاتی منصوبوں، جیسے جدید فارنزک لیباٹری اور سیف سٹی پروجیکٹ، کو پس پشت ڈال کر نمائشی قسم کی سرگرمیوں میں زیادہ دلچسپی لی جیسے ڈائریکٹوریٹ اف کاؤنٹر ٹیررازم کا نام بدل کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ رکھ دیا گیا اسی طرح پولیس کا نیا قانون لا کر اور پولیس عہدوں کے نام بدل کے یہ تاثر دیا گیا کہ جیسے بہت بڑی تبدیلی آ گئی ہے۔

مبالغہ آرائی کتنی گہری کیوں نہ ہو جب سنجیدہ تجزیے سے اسے گزارا جائے تو پانی کی بھاپ کی طرح غائب ہوجایا کرتی ہے۔

سید اختر علی شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید اختر علی شاہ

سید اختر علی شاہ پولیس سروسز آف پاکستان سے تین دہائیوں سے زیادہ وابستہ رہے ہیں اور اس دوران وہ خیبر پختونخوا میں بطور انسپیکٹر جنرل پولیس اور ہوم سیکرٹری ذمہ داریاں ادا کر چکے ہیں۔

akhtar-ali-shah has 1 posts and counting.See all posts by akhtar-ali-shah