بادشاہوں کے بادشاہ کے گھر میں دہشت کا راج


دو دن پہلے ایک ویڈیو دیکھنے کو ملی ایک دس سالہ بچے پر مولوی صاحب کے بیہمانہ تشدد کی پوسٹ شئیر کرنے کے بعد شیخوپورہ تھانے سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا ملزم کے خلاف پرچہ درج ہو چکا ہے اور ملزم گرفتار ہو چکے ہیں کچھ سوال ذہن میں اس حوالےسے ابھرے

ایک : بچے نے چوری کیوں کی؟
دو: مولوی اتنا تشدد پر مائل کیوں ہوا؟

تین: پہلے پرچہ کاٹنے سے انکاری پولیس نے کیوں یک بیک پھرتی دکھائی؟
چار: بڑے چور اور دیگر ملزمان پکڑ میں کیوں نہیں آتے؟

یہ سوال دماغ میں لئے میں اپنے کمرے سے باہر نکلی تو میرا پوتا کوئی مزاحیہ انگریزی فلم دیکھ دیکھ کر لوٹ پوٹ ہو رہا تھا اس کی ماں بیٹے کے ساتھ ہنس رہی تھی دل کو وہ نظارہ اتنا بھلا لگا کہ میرے دل میں سے آواز آئی میرا پوتا اور بہو اللہ کی امان میں رہیں اور خوش رہیں۔ اپنے بچوں کا کھلتا چہرہ چمکتی آنکھیں اور شرارت ایک ایسی نعمت ہے کہ جس کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہےمڈل کلاس سے تعلق ہونے کی وجہ سے ہم اپنے بچوں کی اخلاقیات کا ذمہ ہم نے خود لیا ہےاور اس میں ہم بچوں کو ہر قسم کی ذہنی دباؤ سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔

پہلے سوال کا جواب ہے کہ غربت کی لکیر سے نیچے والی عوام دال روٹی پر اپنی تمام تر قوت صرف کرتی ہے۔ اور اخلاقیات کے لئے اللہ کے گھر میں اس کے گھر کے متولیوں پر کامل بھروسہ کرتی ہیں اس بھروسہ کرنے میں اُن کا کوئی قصور نہیں۔ خانہ خدا اور مدرس کیا ابھی بھی کوئی بے احتیاطی ہونی چاہیے۔ مگر مدرس نے مارنے سے بڑی جو خطا کی ہے وہ یہ ہے کہ کیا اُسے بچے کی مالی حالت کا علم نہ تھا؟

باجماعت نماز پڑھنے اور پڑھانے کا مقصد ایک دوسرے کا حال جاننا بھی ہےتو کیوں مولوی صاحب نے اُس بچے کے ساتھ معاونت کروانے والی کوئی تدبیر کیوں نہیں کی۔ بچے کو شاید دوکان سے چیز لانی ہو یا شاید گیند خریدنی ہو یا اس نے گلی کی نکڑ سے برگر لے کر کھانا ہو اور بوتل پینی ہو۔ مسجد کے گلے سے اگر مسجد کی تعمیر اور ترقی مقصود ہے تو کھلی مساجد اور بغیر دیواروں اور چھت کے بہتر ہیں۔ اور ثانوی حیثیت رکھتی ہے ایک بچے کی خوشی کے سامنے۔

گھرسے مسجد ہے بہت دور
کیوں نہ کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے

مولوی کے اس ظالمانہ سلوک پر تو کیا ہی بات کی جاے مولوی کی اپنی ذہنیت کی چنگیزیت جہاں کھل کر سامنے آتی ہے وہیں مولوی صاحب کی تعلیم اور تربیت پر بھی حرف آتا ہے کہ یہ سیکھ رہا تھا بچہ۔ سپارے پر سپارہ ختم کروا کر کیا اسلامی اعلی اقدار ہو گئیں حاصل؟

دوسرے سوال کا جواب ہے کہ غصہ ہر انسان کو آسکتا ہے میں ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھاتی ہوں۔ اگر میں نے بچے کو ہلکی سی ایک چپت بھی لگائی تو میری نوکری گئی۔ اس قدر ظالمانہ سلوک پر تو سکول کا لائئسنس ہی ضبط ہو جاتا ہے۔ مریض معاشرہ، ہر قدم پر مسائل، ہم مدرسوں کو بھی ذہنی کوفت اور شدید دباوکا شکار کرتا ہے مسائل کی شکار قوم کے لئے جلد غصے میں آجانا بڑی بات نہیں مگر اس غصے کو پینے کا حکم اللہ کی طرف سے ہے رحم اور شفقت کی تلقین ہمارا دین اورہر مکتبہ فکر کرتا ہے۔ احتساب اور فوری احتساب کا ڈر یقینا ہمارے اندر پلتی پر تشدد سوچوں کو لگام ڈالتا ہے۔

مولانا حضرات اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہیں کہ ”ہم دین کے رکھوالے ہیں سو ہمارا اجارہ ہے“۔ کسی کو مارنا پیٹنا اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ہرگز جائز نہیں۔ میں اپنے پوتوں کے قرآن کے مدرس کی آواز میں ایک دہشت محسوس کرتی ہوں جو بچوں پر انہوں نے قائم کی ہوئی ہے۔ اس لئے میں گاہے بگاہے اس کے بہتر مسلمان ہونے اور دین کا بادشاہ ہونے کا بت توڑتی رہتی ہوں مسجد کے متولی کو اگر ذمہ داری دی جاتی ہے تو اس کا ہم جیسی استانیوں اور استادوں کی طرح احتساب کون کرتا ہے کوئی بھی نہیں۔ سانپ گزر جاتا ہے اور ہم لکیر پیٹتے رہ جاتے ہیں۔

تیسرے سوال کا جواب ہے کہ دجالی میڈیا اور زیادہ دجالی سوشل میڈیا کے حرکت میں آنے پر ملتان سے شیخوپورہ فون کر دیتی ہوں۔ ڈی پی او پر تو اور لوگوں کا پریشر بھی بنا ہوگا۔ سلام ہے دجالی سوشل میڈیا کو ٖایف آئی آر کاٹنے سے انکاری تھانیدار کو ایف آئی آر کاٹنی پڑی اور کارروائی کرنی پڑی۔

آخری سوال کا جواب یہ ہے کہ مولوی صاحب ظالم سہی مگر ہیں وہ بھی مفلوک الحال اور دوسرے شرکا بھی ایسی ہی حیثیت کے ہیں تو گرفت میں لانا آسان ٹھہرا۔ ذرا نظر ڈالئے حالات حاظرہ پر بڑے بڑے فرعون صفت ہمارے معاشرے میں بیسوں شکایات درج ہونے کے بعد آزاد گھوم رہے ہیں۔ بہرحال بچوں کا پچپن ہمارہ سسٹم اس سے چھین رہا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ جیسے میرا پوتا کھلکھلا کر ہنس رہا تھا سب بچے ویسے ہی ہسنتے مسکراتے رہیں۔ ریت کے گھر بناتے، گلی ڈنڈا، کرکٹ کھیلتے معصوم شرارتیں کرتے بھرے پیٹ اور مٹھی میں ٹافیاں دبائے پتنگیں لوٹتے اور سلامتی کے ساتھ اپنی ماؤں کی گود میں بیٹھ کر پورے دن کی داستان سناتے، والدین کو بھی اتنی کو غمِ دوراں سے فرصت دو کہ وہ اپنے بچوں کا بچپن انجوائے کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).