سب اچھا چل رہا ہے بھئی ٹینشن نہیں لینے کا


پاکستان میں سب اچھا چل رہا ہے بھئی ٹینشن نہیں لینے کا۔ چوکیدار سے لے کر صدر مملکت تک سب ادارے آئینی حدود میں کام کر رہے ہیں اور اپنی استعداد سے بڑھ کے کر رہے ہیں۔ فوج بیرکوں میں ہے، کچھ ملک و قوم کے دفاع کے لئے ردِ فساد کرنے میں برسرپیکار ہے۔ عدالتیں راتوں کو بھی لگ رہی ہیں اور جج صاحبان راتوں کو نیند بھری آنکھوں سے اپنی حیثیت سے بڑھ کر انصاف کا بول بالا کر رہے ہیں۔ ملکی قسمت کے لئے ناگزیر سمجھے جانے والے فیصلے دھڑا دھڑ نپٹائے جا رہے ہیں، آدھی رات تک عدالت بیٹھتی ہے۔ معززچیف جسٹس صاحب بنفس نفیس کئی دفعہ رات گئے تک سماعتیں کر چکے ہیں۔ ان کی محنت کادُور رَس اثر نیچے تک ہوا ہے۔

کسی ’دانشور‘کا مشہور مقولہ ہے کہ کپتان اچھا ہو تو ٹیم کی نیا پار لگ جاتی ہے۔ اسی لیے ماتحت عدلیہ کے ججوں نے بھی چیف جسٹس سے سبق سیکھا ہے اور ان کی دیکھا دیکھی رات کے بارہ بجے بھی فیصلے سنائے جا رہے ہیں۔ غریب قوم کے اربوں روپے لوٹ کر بیرون ملک عالی شان محل سرائیں کھڑی کرنے والوں کو زندانوں میں ڈالا جاچکا ہے۔ فرار یوں کے ریڈ وارنٹ نکل چکے ہیں۔ اب بھی اگر کوئی قانون کی کڑکی میں نہیں آیا تو اسے انٹرپول کی مدد سے پکڑا جائے گا اور ایک دن یہ قوم قومی خزانہ لوٹنے والوں اور خائنوں کو سر کے بل چل کر عدالتوں میں پیش ہوتا دیکھے گی۔ کمر کے درد میں مبتلا مجرموں کو بس تھوڑا استثنٰی ہو گا۔ باقی چھوٹے بڑے سب مجرموں کو ایک ایک کر کے پکڑا جائے گا، کوئی نہیں بچے گا کیونکہ اب آگیا ہے زمانہ سلطانی جمہور کا۔ اب خلق خدا راج کرے ہی کرے۔

ہفتہ کی رات بارہ بجے سے کچھ منٹ پہلے مسلم لیگی ایفیڈرینیے حنیف عباسی کو راولپنڈی کی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی۔ جس کے فوراً بعد عدالت کی کنڈی لگادی گئی کہ کہیں مجرم کھسک نہ جائے اور تھوڑی دیر بعد ہی مجرم کو گرفتار کرکے جیل منتقل کردیاگیا۔ اس گرفتار ی سے دو چیزیں ثابت ہوئیں، ایک یہ کہ قانون و انصاف کا بول بالا کرنے کے لئے لیٹ نائیٹ بھی عدالت بیٹھی اورچھ سات سال سے لٹکے ہوئے کیس کا فیصلہ کر کے اٹھی۔

دوسری بات جو دراصل پہلی ہے، یہ کہ اگر حنیف عباسی کو نہ پکڑا جاتا اور وہ الیکشن میں کہیں ’فرزند پاکستان‘کو چت کر ڈالتا تو ملک کی ’عجت‘ تو مل گئی تھی مٹی میں۔ اس لیے سات سال سے لٹکتے مقدمے کو اگلے دن میں داخل ہونے سے بال بال بچاتے ہوئے ترنت حل کر ڈالا۔ یہ ہوتا ہے تیز ترین عدل۔ انشاء اللہ لوگ عدل جہانگیری کے قصے بھول جائیں گے۔ نئے پاکستان کے قیام سے پہلے ایسے تیز رفتار نظام عدل کا ٹریلر دیکھ کر نئے پاکستان کے متوقع باسیوں نے بہت انجوائے کیاہے۔ اب بس عادی و غیر عادی سب فسادی ایک ایک کرکے اندر ہوں گے۔ کوئی بھی بچ کر ’نئے پاکستان‘میں داخل نہیں ہونے پائے گا کیونکہ ایک مچھلی ہی سارے جل کو گندہ کرتی ہے۔

کچھ خبطی اور عاقبت نا اندیش قسم کے دانشور اس بات کا رونا رو رہے ہیں کہ ایک پارٹی کے لوگوں کو جیلوں میں ڈال کر منظور نظر کے لئے راستہ صاف کیا جارہا ہے۔ میڈیا کی زباں بندی کی جا رہی ہے۔ ٹی وی اور اخباروں پر سنسرشپ زوروں پر ہے۔ جمہوریت خطرے میں پڑ گئی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ایسے لوگوں کو سنجیدہ نہیں لینے کا۔ یہ ذہنی غلام گزشتہ ستر سال سے ایک ہی لے میں بے سُرارونا روئے جا رہے ہیں۔ نہ رونے کا سُر بدلتے ہیں نا اپنی تقدیر بدلنا چاہتے ہیں، کیونکہ تقدیر بدلنے کا موقع کونسا بار بار ملتا ہے۔ لیکن یہ بدقسمت لوگ پرانے پاکستان میں ہی مرنا چاہتے ہیں۔
اب بھلا نواز شریف، مریم، حنیف عباسی یا کسی دوسرے لیگیے یا پپلیے کو جیل میں ڈالنے سے جمہوریت کو کیا خطرہ؟ جمہوریت نہ ہوئی برساتی کھمبی ہو گئی جو بارش سے نکلتی ہے اورذرا سی دھوپ لگنے سے جھڑ جاتی ہے۔ جمہوریت تو اپنی اصلی شکل میں قائم ہو گی اب نئے پاکستان میں اور ایسی کہ جس کے سامنے مغربی جمہوریتیں بھی چھوٹی محسوس ہوں گی۔

اور میڈیا کی تو بات ہی مت کریں۔ یہ تو خوامخواہ ہی بے لگام ہوا جاتا تھا۔ بھئی قومی سلامتی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ اگر کسی صحافی کو ایک آدھ چپت لگ گئی یا ٹی وی پر کوئی انٹرویو چلنے سے رہ گیا یا کسی اخبار میں کوئی خبر چھپنے سے رہ گئی یا کوئی کالم غائب ہو گیا تو کون سی قیامت آگئی؟ ویسے بھی صحافی بدتمیز بہت واقع ہوئے ہیں۔ انہیں سبھی کے پوتڑے بیچ چوراہے میں بیٹھ کر دھونے کی عادت ہو گئی تھی۔ بری عادت جتنی جلدی چھوٹ جائے، بہتر ہے۔

اچھا بھلا فالسے کا سیزن چل رہا ہے، دو چار پیکج فالسے پر بناؤ، ٹی وی پر چلاؤ اور روٹی کماؤ۔ سنا ہے فالسہ ٹھنڈا ہوتا ہے اور گرمی کے خلاف بھی اکسیر ہے۔ صحافیوں کو بھی اس نسخے کو آزمانا چاہیے۔ یا انتخابی امیدوار تھوڑے ہیں ملک میں۔ اینکر اور اینکرنیاں ان کے حلقوں میں جائیں ٹوٹی پھوٹی نالیاں دکھائیں، گندگی کے ڈھیر دکھائیں۔ ووٹروں کی طرف سے امیدواروں سے گزشتہ پانچ سال کا حساب کتاب کرنے کی ویڈیوز دکھائیں۔ تھوڑا کچھ ہے دکھانے کو۔

اب اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ہی لے لیجیے۔ نا جانے کس ترنگ میں کہہ بیٹھے کہ آرمی چیف اپنے بندوں کو عدلیہ کے فیصلوں کو ’مینوپلیٹ‘ کرنے سے روکیں۔ استغفراللہ۔ پنڈی بار میں کالے کوٹ والوں کی ایک تقریب میں تو موصوف نے حد ہی کردی۔ دھواں دھار تقریر کے دوران جوش خطابت میں پتا نہیں کیا کیا بول گئے۔ ساری باتیں یہاں نقل کرتے ہوئے میرے قلم کے تو پر جلتے ہیں بھئی۔ اب بندہ پوچھے کہ وہ ’بندگان پارسا‘ کہ فرشتے جن کا دامن نچوڑ کر وضو کرتے ہیں، انہیں آپ کے چھوٹے موٹے عدالتی معاملات کو ’مینوپلیٹ‘ کرنے سے کیا حاصل؟ انہیں اور تھوڑے کام ہیں۔ عزت مآب چیف جسٹس ثاقب نثار بھی کہہ چکے ہیں کہ ججوں پر کوئی دباؤ نہیں۔ الیکشن کمیشن کے چیف جو کہ خود ایک سابق جج ہیں، یہ فقرہ کئی بار دہرا چکے ہیں کہ شفاف انتخابات کے لئے کوئی دباؤ نہیں۔ پھر دباؤ آخر کس کا کس پر ہے؟ تھوڑا بہت یقین بھی کرنا چاہیے۔

بھئی نیا پاکستان بنانا ہے تو ان سب باتوں کو دل پر نہیں لینے کا۔ اوپر سے نیا پاکستان بننے میں دن ہی کتنے رہ گئے ہیں؟ فقط گنتی کے؟ اب تو اپنے گاؤں کا بابا دارا یاد آ رہا ہے جو اس لیے ایک آنکھ کھول کے سوتا ہے کہ دونوں بند کرکے گہری نیند سو گیا تو کہیں پرانے پاکستان میں ہی نہ رہ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).