ریاست برائے قومی سلامتی


کیا ہوتا اگر نواز شریف کو ڈان لیکس کا معاملہ درپیش نہ ہوتا۔ کیا ہوتا اگر چند ماہ پہلے تک نواز لیگ آئیندہ انتخابات میں واضح برتری لیتی دکھائی نہ دیتی۔ کیا ہوتا اگر حکمران جماعت نے خارجہ پالیسی پر اپنا اختیار جھاڑنے کی کوشش نہ کی ہوتی۔ کیا ہوتا اگر نواز حکومت نے سابق آمر پرویز مشرف کے مواخذے کی کوئی کوشش نہ کی ہوتی۔ کیا ہوتا اگر نواز حکومت ریاستی امور میں سول بالا دستی کے سراب کے پیچھے اس تیزی سے نہ بھاگتی۔ یقینا کمی کمین جامے میں رہتے تو حالات و واقعات یوں پیش نہ آتے۔

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ میں ہوتا تو کیا ہوتا

اس اگر مگر اور یوں ووں سے صرفِ نظر کر کے ذرا ریاست برائے قومی سلامتی (نیشنل سیکیورٹی سٹیٹ) کی اصطلاح اور اس بندوبست کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی بھی ریاست برائے قومی سلامتی جیسے بندوبست کی دو بنیادی خصوصیات ہوتی ہیں! اول، عسکری قوت کی بطور ادارہ سیاسی نظام کی قیادت کرنا اور دوم ملک کے سیاسی و معاشی اداروں کو قومی سلامتی اور وسیع تر قومی مفادات کے حصول کے تناظر میں تبدیل یا تنظیمِ نو کرنا۔ یہ صورتحال مطلق العنان عسکری حکمران کی موجودگی یا مارشل لاء سے فرق ہے جہاں ایک شخص غیر آئینی طور پر کسی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر تمام تر حکومتی اختیارات پر قابض ہو جاتا ہے۔ عسکری ادارے اس مخصوص بندوبست کو قومی سلامتی کے نظریے کی بنیاد پر لاگو کرنے کے خواہش مند ہو سکتے ہیں یا جب ادارے کو اپنی قابلیت اور تربیت کی بنیاد پر یقین ہو کہ قومی سلامتی سے جڑے پیشہ ور افراد ہی کو قومی قیادت کے فرائض سر انجام دینے چاہییں!

اس بندوبست میں بظاہر ریاست میں ایک عدد جمہوری نظامِ حکومت نظر ضرور آتا ہے لیکن انتخابی عمل، سیاسی نظام، اور سیاستدان کے بارے میں ہمیشہ شکوک و شبہات موجود رہتے ہیں۔ عسکری اداروں کا تشخص دیگر تمام ریاستی اداروں سے اعلی، ارفع اور قابلِ بھروسہ ثابت کیا جاتا ہے۔ عسکری ادارے ریاست کو لاحق اندرونی و بیرونی خطرات کے خلاف قومی سلامتی کی واحد ضمانت تصور کیے جاتے ہیں۔ عوام کو ایسے اندرونی و بیرونی دشمنوں کے بارے آگاہ کیا جاتا ہے جو ہمہ وقت ملک کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ سیاستدان کو جھوٹا، بد نیت، دھوکہ باز، لالچی، نا اہل اور کرپٹ کردار کے طور پرپیش کیا جاتا ہے۔

نا پسندیدہ سیاسی جماعتوں کو پسندیدہ سیاسی جماعتوں سے تبدیل کرنے کے متحرک لائحہ عمل اختیار کیے جاتے ہیں۔ منظورِ نظر سیاسی جماعتیں ایسے منظور کردہ نظریات، حکمتِ عملی اور نظام کا پرچار کرتی ہیں جو ریاست برائے قومی سلامتی کی تشکیل میں معاون و مددگار ہوں اور اس عمل کو ہمہ وقت تقویت بخشیں۔ تمام تر سیاسی اور معاشی حکمتِ عملیاں قومی سلامتی کی چھلنی سے گزرنے کے عمل کی پابند ہوتی ہیں۔ قومی سلامتی کی، بطور عظیم ترین ریاستی مقصد، ہمہ وقت عوامی سطح پر تبلیغ کی جاتی ہے۔ عوامی رائے کو منظم، مسلسل اورمربوط پراپیگینڈا کے ذریعے سے مخصوص سمت دینے کا عمل جاری رہتا ہے۔ ریاست کی مشینری کا اس مخصوص بندوبست کے اہداف حاصل کرنے کے لئے ہر ممکن استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ نظام اپنے ظاہر میں جمہوری ضرور نظر آتا ہے جہاں سیاسی جماعتیں آئین کے تحت انتخابات کے ذریعے عوام کا ووٹ لے کر حکومت سازی کرتی ہیں اور مقننہ بھی موجود ہوتی ہے لیکن حقیقی طاقت، اختیارات، حکمتِ عملی اور فیصلہ سازی کا مرکز ریاست کے اندر موجود ریاست کے باطن میں موجود رہتا ہے۔ یہ مرکز بذاتِ خود قومی سلامتی اور وسیع تر قومی مفادات کے بنیادی اجزاء سے ترکیب پاتا ہے اور براہِ راست یا بالواسطہ عسکری اداروں کو حکومت، مقننہ اور سیاسی نظام کی نگرانی سمیت ہر قسم کے ریاستی معاملات میں مداخلت کا جواز فراہم کرتا ہے۔ عوام کی حیثیت کم عقل اور بے شعور جتھے سے زیادہ تصور نہیں کی جاتی جنہیں اپنے اور ریاست کے اچھے یا برے کی پہچان ممکن نہیں لہذا انتخابات کے عمل اور حقِ رائے دہی کے ذریعے نا اہل و کرپٹ سیاستدانوں کو حکومت سازی کے لئے منتخب کرنے کے عوامی و جمہوری عمل کو ناقص نظام کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور ایسے جمہوری نظام کو ریاست کے تمام مسائل اور ناکامیوں کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا جاتا رہتا ہے۔ ریاست برائے قومی سلامتی میں ریاست کے تمام وسائل اور قوت ترجیحی بنیادوں پر قومی سلامتی اور اس سے جڑے وسیع تر قومی مفادات پر صرف کی جاتی ہے!

بد قسمتی کی بات ہے کہ قائد اعظم کی جانب سے ریاست کے اولین مقاصد طےکیے جانے کے باوجود ان مقاصد کو اولین تو کیا نچلے درجے کی ترجیحات کا درجہ بھی نہیں مل سکا۔ قیامِ پاکستان کے وقت سے لے کر لمحہِ موجود تک عوام پاکستان کا ایک سے بڑھ کر ایک روپ دیکھ چکی ہے ما سوائے قائد اعظم کے حقیقی جمہوری اور آزاد پاکستان کے۔ ریاست کے مقاصد مذہبی بھی طے ہوئے اور عسکری بھی، نہیں طے ہوئے تو جمہوری، عوامی اور انسانی! ریاست نے ورلڈ آرڈر بھی پورے کیے اور جرنیلی مارشل لاء آرڈر بھی، نہیں پورے کیے تو قائد اعظم کے آرڈر!

قیامِ پاکستان کے بعد سے مملکتِ خداداد مختلف ادوار میں جو نظامِ حکومت دیکھ چکی ہے ان میں افسر شاہی کی حکومت، مارشل لاء، مطلق العنانیت، 90 کی دہائی کی جمہوریت، پھر جنرل پرویز مشرف کے دورِ آمریت کے بعد زرداری اور نواز شریف ادوار کی جمہوریت شامل ہیں۔ ن لیگ کے دورِ حکومت میں سیاسی و غیر سیاسی قوتوں کے بیچ اقتدار و اختیارات کی ننگی کُشتی نے جس قسم کے سیاسی حالات و واقعات کو جنم دیا ہے اس پر محض یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا آنے والے دورِ حکومت کے لئے اربابِ اختیار کی جانب سے ریاستِ پاکستان کے مقاصد اور ان مقاصد کے حصول کے لئے درکار نظام کا ایک نئے سرے سے تعین کیا جا رہا ہے؟ ایک ایسی جامے میں رکھی ہوئی محدود معاون جمہوریت جس کا کام ریاست برائے قومی سلامتی کے عظیم تر مقاصد کی تکمیل و ترویج ہو۔ ایسی کمزور مقننہ جو انکار و اعتراض اٹھانے کے قابل ہی نہ ہو۔ ایسا نظام جس میں سیاسی افراد و جمہوری حکومت وسیع تر قومی مفادات کے نام پر ہونے والے کسی بھی امر پر سوال نہ اٹھا سکیں! اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اس کا جواب اگلے چندروز میں عام انتخابات میں واضح ہو جائے گا اور فیصلہ عوام کا ووٹ کرے گا۔

قومی سلامتی ریاست کا اہم مقصد ضرور ہے لیکن اولین مقصد نہیں۔ اولین مقصد عوام کی فلاح اور حقوق کی مساوی فراہمی ہے۔ ریاست کے تمام وسائل پر ترجیحی طور پر عوام کا حق ہے۔ ریاست کے اولین مقاصد قائد اعظم طے کر چکے ہیں، جمہوری حکومت کا حق ہے کہ حکومت سازی کرے اور واحد کام محض ان عوامی مقاصد کی مکمل تکمیل ہے جبکہ اختیارات، طاقت اور فیصلہ سازی کا واحد مرکز مقننہ ہے۔ پاکستان یقینا اب کسی نئے تجربے یا نظامِ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).