غلام رسول مہر بنام عاشق حسین بٹالوی



ہمارے وطن کی آزادی کی تاریخ کا سب سے خونچکاں باب تقسیم پنجاب و بنگال کا المیہ ہے جس میں لاکھوں جانیں، بے شمار عصمتیں اور کروڑوں کے مادی اثاثے انسان کی گروہی خون آشامی کے جنون کی بھینٹ چڑھ گئے۔ دو مذہبی گروہوں کے مابین، جو صدیوں سے ایک دوسرے کی ہمسائیگی میں رہ رہے تھے اور ان فسادات سے چند ماہ پیشتر تک ایک مضبوط سیاسی اتحاد میں منسلک تھے، اس درجے کی بربریت کا مظاہرہ آج تک سماجیات اور سیاسیات کے طالب علم کو حیرت زدہ کیے ہوئے ہے۔ ہمارے ہاں تاریخی حقائق کی کھوج اور تجزیے کو حکومتی سطح پر عدم توجہی بلکہ کتمان کا شکار بنائے جانے کے سبب، ان فسادات کو از کار رفتہ سازشی نظریات کی عینک سے دیکھنے کا چلن ہی سب سے زیادہ متداول رہا ہے۔ علمی حلقوں میں، تاریخی عوامل اور مظاہر کا تجزیہ کرنے کا ایک اہم ماخذ اس دور کے صاحب رائے لوگوں کے خطوط بھی مانے جاتے ہیں۔ جو احباب تحریک آزادی کی تاریخ کے مطالعے کا دائرہ سرکاری درسی کتب سے وسیع تر کرنے کا ذوق رکھتے ہیں، ان کے لئے ڈاکٹر عاشق بٹالوی کا نام یقیناً اجنبی نہ ہوگا۔

ڈاکٹر عاشق بٹالوی نے لندن یونیورسٹی کے ”سکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز“ سے سیاسیات میں پی ایچ ڈی کا درجہ فضیلت حاصل کیا تھا، مگر اس سے اہم تر اعزاز ان کا پنجاب میں مسلم لیگ کی سیاست میں عملی کردار ہے۔ سنہ تیس کی دہائی میں جب پنجاب کی سیاست میں یونینسٹ پارٹی کا نقارہ بجتا تھا، اور خصوصاً مسلم ووٹ بینک کی سیاست میں کسی اور چراغ کا جلنا انتہائی کٹھن تھا، علامہ اقبال، ملک برکت علی اور ڈاکٹر عاشق بٹالوی کی قیادت نے ہی آل انڈیا مسلم لیگ کی ہستی کو مٹنے سے بچائے رکھا۔ نا مساعد حالات اور بے سروسامانی کے عالم میں ڈاکٹر صاحب نے رضاکارانہ اور بے لوث خدمت کے بل پر مسلم لیگ کی صفوں میں ایسا اہم مقام حاصل کیا کہ وہ سنہ چالیس کی قرارداد لاہور کے مسودے کی تدوین میں شامل رہے اور تئیس اور چوبیس مارچ کے مشہور جلسے کی نظامت کے فرائض بھی سر انجام دیے۔ قیام پاکستان کے بعد موقع پرستی کے جھکڑ سے دل برداشتہ ہو کر ڈاکٹر صاحب ترک سیاست اور ترک وطن پر مجبور ہوئے اور لندن میں بیٹھ کر جد و جہد پاکستان کی تاریخ کی تحقیق اور تصنیف کو اپنا مطمح نظر بنا لیا۔

اردو صحافت کی تاریخ سے معمولی دلچسپی رکھنے والا طالب علم بھی مولانا غلام رسول مہر کے نام سے واقف ہوگا۔ مولانا نے ایک فعال علمی، ادبی، صحافتی اور عملی زندگی گزاری۔ خصوصاً سنہ بیس سے سن پچاس تک کی سیاست کے حوالے سے بہت کم لوگ مولانا کی بصیرت، مشاہدات اور ذخیرہ تصانیف کے حریف کہلا سکیں گے۔ ڈاکٹر بٹالوی صاحب وقتاً فوقتاً مولانا سمیت اہل علم سے خطوط کے وسیلے سے، تاریخی معاملات پر استمداد کیا کرتے تھے، ’ہم سب‘ کی ایک گزشتہ اشاعت میں ڈاکٹر عاشق بٹالوی صاحب کے اٹھائے گئے چند انتہائی اہم و ناگزیر، اگرچہ تند و تیز سوالات پر مبنی ایک خط شامل کیا گیا تھا، جس نے سوشل میڈیا پر ایک انتہائی وقیع علمی و نظریاتی مباحثے کو جنم دیا۔ مناسب ہے کہ اس مکالمے کو آگے بڑھاتے ہوئے، مولانا کے جوابی مکتوب کو بھی قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے کہ ہماری تاریخ میں موجود متانت و معروضیت پر مبنی بے لاگ علمی مکالمے کی درخشندہ روایت کے پھر سے رواج پانے کا امکان پیدا ہو۔

تازہ خواہی داشتن گر داغ ہاے سینہ را
گاہے گاہے باز خواں آں قصہ پارینہ را

***                  ***

مسلم ٹاؤن لاہور
13 فروری 1954

برادرم مکرم! مدت مدید کے بعد گرامی نامہ سے مشرف فرمایا۔ اس لیے دلی شکریہ قبول فرمائیے۔ میں نے آپ کے لندن پہنچنے سے پیشتر عزیزی جاوید اقبال کو لکھا تھا کہ وہ آپ کو مل لے۔ اس کا جواب آیا کہ آپ کا مزاج ناساز ہے اس لیے ملاقات نہیں ہو سکی۔ میں نے یہاں ملک عبدالرشید صاحب کے ذریعے سے بھائی ذوالقرنین سے پچھوایا۔ معلوم ہوا کہ آپ کی صحت خدا کے فضل سے اچھی ہے۔ میں نے سمجھ لیا کہ آپ مصروف ہو گئے اور حالت مصروفیت میں آپ پر نیا بار ڈالنا مناسب نہ ہوگا۔ لہٰذا خاموش بیٹھ گیا۔

جن حالات سے ہمیں سابقہ پڑا ان میں کوئی چیز غیر متوقع نہ تھی۔ زندگی میں کسی انسان کی آرزوئیں تمام تر کبھی پوری نہیں ہوئیں اور آرزوؤں کے پورا نہ ہونے پر رنج و قلق طبعی ہے لیکن اسے اس حد تک پہنچنے کا موقع نہیں دینا چاہیے کہ قوائے فکر و عمل میں اضمحلال رونما ہو جائے اور آہستہ آہستہ زندگی موت کے مترادف بن جائے۔ میرے قلب و دماغ نے رنج و قلق کے جن طوفانوں میں چھ سات سال بسر کیے۔ ان کی داستان بڑی درد انگیز ہے لیکن خدا کا شکر ہے کہ ان غیر معمولی پریشانیوں کے باوجود کام جاری رہا۔ سیاسی نہ سہی اپنے خیال و تصور کے مطابق علمی سہی۔ سید صاحب کے سوانح حیات مطبع کے حوالے ہو گئے۔ امید ہے اب دو مہینے میں کتاب چھپ جائے گی۔ یہ ہمارے دور زوال کا ایک عجیب و غریب باب ہے۔ اغلب ہے اس دور کی صحیح تاریخ مرتب کرنے کے لیے ایک حد تک مشعل راہ کا کام دے۔

جو بھائی مجھ ناچیز کے متعلق حسن ظن کا اظہار فرماتے ہیں ان کا شکر گزار ہوں اور بارگاہ باری تعالیٰ میں مستدعی ہوں کہ مجھے اس حسن ظن کریمانہ کا اہل بنائے۔ بڑے غور و فکر کے بعد فیصلہ کر لیا ہے کہ بیسویں صدی کے ابتدائی پچاس برس کی سرگزشت لکھ دینی چاہیے۔ اصل غرض یہ ہے کہ جو حالات میری آنکھوں کے سامنے گزرے تھے وہ مرتب ہو جائیں۔ شاید کل ان کا سراغ بھی نہ مل سکے۔ اس سلسلے میں میرے پاس دور حاضر کے اکثر اکابر علم و سیاست کے خطوط، سب نہیں اکثر محفوظ ہیں۔ انہیں نکالا اور مرتب کیا۔ اب ایک آدمی مقرر کیا ہے کہ انہیں رجسٹر پر نقل کر دے۔ آپ کے بھی دو خط ان میں نکل آئے۔ ایک آپ نے دہلی سے لکھا تھا جب وہاں تقسیم سے پیشتر ایشیائی کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ دوسرا خط اس کے بعد کا ہے لیکن وہ نہیں جو آپ نے جبل طارق سے ڈاک میں ڈالا تھا۔ ان خطوں پر ایک نظر پڑی تو اپنی سیاسی زندگی کے عجیب و غریب حالات کی یاد تازہ ہوئی۔ دیکھیں کتاب کب مرتب ہو اور اس کی ضخامت کیا ہو۔ میں چاہتا ہوں اس عہد کے ان تمام حضرات کا حال اختصاراً آ جائے جن کا اثر ہمارے ملک کے حالات پر پڑا۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ لمبی مدت تک لندن میں قیام کا ارادہ فرما چکے ہیں۔ ہنگاموں سے کنارہ کشی بھی ایک حد تک سکون کا باعث ہوتی ہے لیکن احساس قلب کے لیے تو مکانی قرب و بعد میں کوئی فرق نہیں بلکہ مرزا غالب کے قول کے مطابق قرب سے بعد بہتر ہے۔

بے تکلف در بلا بودن بہ از بیم بلاست
قعر دریا سلسبیل و روئے دریا آتش است

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments