یہ حکومت نہیں چلے گی، اگلے الیکشن کی تیاری کریں


جمہوریت اور ا لیکشن لازم و ملزوم ہیں، انتخابات کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے کے لیے ملکی مسائل اپنے اپنے نظریہ کے مطابق بیان کرتی ہیں اور حل اپنی اپنی سوچ کے مطابق تجویز کیا جاتا ہے جس کے بعد انتخابات میں عام لوگ ووٹ ڈالتے ہیں اور کامیاب ہونے والی جماعت کو ملک بھر میں حق حکومت مل جاتا ہے۔ عام طور پر یہ مینڈیٹ پانچ برسوں کے لیے ہوتا ہے۔

پاکستان میں چند روز میں ہونے والے انتخابات کی کہانی کچھ نارمل دکھائی نہیں دے رہی۔ چار صوبوں کے اس ملک میں کوئی ایسی جماعت نہیں، جو ہر صوبے میں مقبول ہو۔ پاکستان میں معاشی، معاشرتی، سیاسی، خارجی، داخلی انبار ہیں۔ مگر کمال ہے کہ اس الیکشن میں کوئی قومی ایجنڈا، قومی مسئلہ، قومی سوچ اور ان کے حل کے حوالے سے مکمل خاموشی ہے۔ محسوس ایسے ہوتا ہے کہ ملک کی کسی جماعت میں قومی مسائل کا نہ تو اداراک ہے اور نہ ہی کوئی حل۔ یہاں تک کہ عام آدمی کے لیے کوئی بھی سیاسی جماعت کوئی عام فہم ملکی ترقی یا مسائل کے حل کے لیے کوئی پروگرام نہیں دے سکی۔

قومی نمائندگی کی کمی، ملکی مسائل اور ان کے حل سے خالی تمام سیاسی جماعتوں کی جاری انتخابی مہم، پاکستان کے 90 ارب ڈالر کے قرضوں والی کمزور معیشت، خارجہ تنہائی، اندرونی مایوسی اور بے بسی کے حالات کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ الیکشن 2018ء کے نتیجہ میں بننے والی حکومت نہ تو سیاسی طور پر مستحکم ہوگی اور نہ ہی اس کے ہاتھ پاؤں سے سر تک مسائل میں ڈوبے پاکستان کے لیے کوئی امید کی کرن۔

ایسے حالات میں اس امر کے قوی امکانات ہیں کہ آئندہ الیکشن کے نتیجہ میں بننے والی حکومت بہت حد تک کمزور ہوگی اور اس کا ایک سے دو سال سے زیادہ زندہ رہنا مشکل ہوگا اور اگر اس ملک میں مارشل لاء کا نفاذ نہ ہوا تو اگلے الیکشن کی باری پانچ برسوں سے بہت پہلے آجائے گی۔

پاکستان میں اگلے انتخابات، 2018ء کے الیکشن کے بعد مندرجہ ذیل وجوہات کی وجہ سے جلد ہوسکتے ہیں۔ نوازشریف کی واپسی نے انہیں الیکشن 2018ء میں سے کافی حد تک باہر نکال دیا ہے۔ نوازشریف نے نہایت چالاکی اور عقلمندی سے الیکشن کا بیانیہ اپنی نا اہلی، کرپشن اور عدالتوں سے مجرم قرار دینے جانے کو ”ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیہ میں تبدیل کردیا ہے۔ مسلم لیگ نواز کے حمایتی اس بات پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ ریاستی ادارے عام آدمی، خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کے ووٹ کا احترام نہیں کرتے لہٰذا انتخابات شفاف اور غیر جانبدار نہیں ہوں گے۔ اس لیے نواز اور مریم کو جیل میں قید کردیا گیا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کافی حد تک یہ بات اپنے ووٹروں تک پہنچا چکی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو ووٹ کی عزت کے بیانیہ پر غیر جمہوری طور پر شکست دی جائے گی۔ مسلم لیگ (ن) اور نوازشریف کا بیانیہ کہ پاکستان کے ریاستی ادارے”ووٹ کی عزت نہیں کرتے‘‘۔ تحریک انصاف کے علاوہ تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے خرید لیا ہے۔ اس حوالے سے الیکشن 2018ء ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگیا ہے۔

صدر مسلم لیگ (ن) میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ الیکشن شفاف نہ ہوئے تو ملک کا نقصان ہوگا۔ ایک جماعت کی سرگرمیاں جاری، باقیوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کی ذمہ داری پوری کرے۔ ملکی مسائل کا حل صاف و شفاف انتخابات میں ہے۔ اگر الیکشن شفاف نہ ہوئے تو المیہ ہوگا۔ ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ شفاف الیکشن کے بغیر پارلیمنٹ متنازعہ ہوگی۔ چند جماعتوں کو الیکشن لڑنے سے روکا جارہا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا مزید کہنا تھا کہ (ن) لیگ کے کارکنوں کی لاہور میں گرفتاریاں ناقابل فہم ہیں۔ چند سیاسی جماعتوں کو ا لیکشن لڑنے سے روکا جارہا ہے۔ اوچ شریف اور ملتان میں ہمارے جلسے منسوخ کردیے گئے ہیں۔ ہم کب تک یہ برداشت کریں گے۔

شہبازشریف اور بلاول بھٹو کی زبان میں کس قدر مشترکہ پن دکھائی دے رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) تین مرتبہ اور پاکستان پیپلزپارٹی پانچ مرتبہ پاکستان کے وفاق پر حکومت کرچکے ہیں۔ کیا اتنی بڑی سیاسی قوتوں کے الیکشن پر قبل از انتخاب دھاندلی کے الزام کے بعد انتخابات اور ا نتخابات سے بننے والی حکومت مستحکم ہوگی؟ اس سوال کے جواب کی ضرورت پڑ گئی ہے۔

سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ سابق صدر پاکستان اور پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کے صدرآصف علی زرداری بھی خاموش نہیں۔ ان کا کہناہے کہ سیاسی کارکن جمہوریت کی طاقت ہیں ان پر دہشت گردی کے مقدمات قبول نہیں۔ دوسری جانب ملک کے دو صوبوں میں الیکشن مہم پر دہشت گردی حملہ کرچکی ہے۔ سانحہ مستونگ ملکی تاریخ کے المناک ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ کہا جارہا ہے کہ سانحہ مستونگ نے صوبہ بلوچستان میں انتخابی جوش و خروش ٹھنڈا کردیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہی صورتحال رہی تو ٹرن آؤٹ بہت کم ہوگا۔ بلوچی صحافیوں کے مطابق بلوچستان حکومت نے 128 افراد کے شہید ہونے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ 150 سے زائد افراد شہید ہوئے ہیں۔

بلوچستان سے پہلے کے پی کے کی دہشت گردی نے بھی انتخابی مہم پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر اور بلور خاندان کے سربراہ الحاج غلام احمد بلور نے کہا ہے ”بیرسٹر ہارون بلور پر حملہ طالبان نے نہیں بلکہ ان لوگوں نے کرایا ہے جنہیں اس واقعہ سے فائدہ پہنچا ہے۔ ‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ قوتیں انتخابات نہیں کروانا چاہتیں یا ملتوی کروانا چاہتی ہیں تو پھر اللہ نہ کرے کہ اگر پنجاب میں ایک دو دھماکے ہوگئے تو انتخابات تاخیر کا شکار ہوجائیں گے۔ مقامی صحافیوں کے مطابق پشاور میں دہشت گردی کے بعد کوئی بڑی ریلی یا کارنرمیٹنگ نظر نہیں آئی۔ بہت سے لوگوں نے چھپ چھپا کر آپس میں گلی محلے میں اپنی مہم تو جاری رکھی لیکن اس میں جوش و جذبہ دکھائی نہیں دیا۔

ادھر کوئٹہ میں پشتونخوا میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے انتخابات کے حوالے سے کوئی مثبت بات نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کو چلانے کا واحد راستہ جمہوریت، عوام کی حق حکمرانی اور صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد ہے۔ انتخابات میں جب بھی مداخلت کی گئی تو ملک بحرانوں کا شکار ہوا۔ سیاسی قوتوں کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی بھی انتخابی دھاندلی پر میدان میں آگئی ہے۔

لاہور میں بائیں بازو کی جماعتوں، جمہوریت پسندوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے ایک قرارداد میں کہا ہے کہ قبل از وقت دھاندلی روکی جائے۔ لاہور سیفما آفس میں ہونے والے اجلاس میں مزید کہا گیا ہے کہ انتخابی عمل کو غیر منتخب اداروں کے ہاتھوں اغوا کیا جارہا ہے۔ سب کو یکساں مقابلے کے مواقع فراہم کرنے کی بجائے کنگز پارٹیوں کوکھڑا کیا جارہا ہے۔ یہ وہ سیاسی فضا ہے جس میں الیکشن 2018ء میں کوئی جماعت کامیاب ہوکر حکومت بنائے گی۔

تحریک انصاف سمیت کوئی جماعت اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ پاکستان بھر میں 140 سے زائد نشستوں سے کامیاب ہوکر حکومت بنائے۔ یہ بات آسانی سے کہی جاسکتی ہے جو بھی حکومت بنے گی وہ آزاد، جنوبی پنجاب، بلوچستان اور الیکٹ ایبلز کے رحم و کرم کے ساتھ وجود میں آئے گی اور وہ کتنی مستحکم ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہا۔ ان سیاسی حالات کے ساتھ معاشی عذاب بھی آنے والی حکومت کا بے صبری سے انتظار کررہا ہے۔

نوازشریف کو نا اہل ہوئے ایک برس ہوگیا ہے، اس ایک برس میں ڈالر کی قیمت میں 35 روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔ ایک برس پہلے ملک میں افراط زر کی شرح 4۔ 7 فیصد تھی جو اس وقت 9 تک پہنچ گئی ہے۔ ایک برس میں بینکوں کی شرح سود دگنی ہوگئی ہے جس سے قرضہ لے کر کاروبار کرنے کا کوئی منطق نہیں رہی۔ نگران حکومت نے 1000 اشیاء پر ڈیوٹی لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے جس میں بچوں کا دودھ بھی شامل ہے۔ نگران حکومت کی وزیر خزانہ خود فرما چکی ہیں کہ معاشی بحران سے مقابلے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں یعنی کہ پھر امریکی اثر و رسوخ کی محتاجی۔

ریاستی اخراجات کی صورت یہ ہے کہ 4000 ارب روپے کے ٹیکس سے دفاع اور باقی ساری رقم سے صرف وفاقی نظام حکومت چلایا جاسکتا ہے۔ صوبوں کے لیے کچھ نہیں۔ اس سیاسی فضا، قبل از انتخاب دھاندلی کے شور اور معاشی دباؤ میں کون سی سیاسی جماعت ہے جو آئندہ پانچ برس مستحکم رہتے ہوئے حکومت قائم رکھ سکے گی؟ میرے نزدیک موجودہ کسی جماعت کے پاس وہ قیادت اور لیاقت نہیں لہٰذا اگلے انتخابات کی تیاری کوئی زیادہ دور نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).