چیخے ہے درد! اے دل برباد کچھ تو ہو


\"Display  چلیں  آج کوئی طنز نہیں، سیدھی سیدھی بات کرتے ہیں۔ آئینہ دیکھنے کی کوشش کریں۔ ہم اقلیتوں کے حقوق کے پرچارک، اپنے مذہب کی امن اور سلامتی کی تعلیمات کا ڈھول چوک میں بجانے والے، مغرب کو دن رات مطعون کرنے والے، اپنی اخلاقی اقدار کا عمامہ سر پر پہن کر گھومنے والے ہیں کیا۔ جھوٹ کی دال کتنی ہے اور اس میں کتنا کالا سچ ہے آج ہنڈیا کا ڈھکن اتار کر جان ہی لیں۔ اگر مسلم اقلیتیں جیسا کہ اثنا عشری شیعہ، آغا خانی، اسماعیلی اور بوہری کو بھی اس گنتی میں گنیں تو داستاں بہت طولانی ہو جائے گی، درد کا قصہ اتنا لمبا ہے پھر کہ سمٹے گا نہیں تو چلیں صرف ان کا ذکر کیئے لیتے ہیں جنہیں ہم غیر مسلم کہتے ہیں جو دو قومی نظریے کی ہر تعریف میں لکیر کے اس پار بستے ہیں۔ آئیے آج صرف انہی کا ماتم کر لیتے ہیں

جن کو عقیدے کی آزادی دینے  کا دعوی دہراتے ہمارے منہ نہیں تھکتے ان کے عقیدے کے تحفظ کی کہانی یہاں سن لیں۔  ہمارے اوریاؤں اور عباسیوں کو فرانس اور بیلجیئم میں حجاب پر پابندی کا رونا تو یاد رہتا ہے۔ منہ بھر بھر ان کی مذہب دشمنی کو کوسنے دینے والے یہ بتانا بھول جاتے ہیں کہ فرانس میں اس وقت 2430 مسجدیں ہیں اور ہر برس ان میں دس فیصدی اضافہ ہوتا ہے۔ اتنا اضافہ تو پاکستان کی آبادی میں نہیں ہوتا۔ بیلجیئم جیسے چھوٹے سے ملک میں 401 مساجد ہیں اور وہاں بھی اضافے کی شرح کوئی دس فیصد ہے۔ کوئی بتائے گا کہ ہمارے یہاں ہر سال کتنے نئے چرچ  بنتے ہیں۔ کتنی احمدی عبادت گاہیں مینار بنانے کی اجازت پاتی ہیں اور کتنے مندر تعمیر ہوتے ہیں۔

\"777uh\"اقلیتوں کے ساتھ ہمارا حسن سلوک بہت پرانا  ہے۔ 1953 میں پارلیمان نے تو نہیں لیکن  ملائیت نے خدا کی جگہ سنبھال کے ایمان کے پیمانے سے ناپ کر احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج کر ڈالا تھا۔ اس پر تسلی نہ ہوئی تو سڑکوں پر چند سو احمدیوں کے خون سے مملکت پاکستان کو اور پاک بنایا گیا۔ محافظان اسلام کے گروہ کی قیادت سید عطاء اللہ شاہ بخاری، عبدالغفور ہزاروی، فیض الحسن شاہ، ابوذر بخاری، مظہر الاسلام اظہر، عبدالستار نیازی  اور ابو الاعلی مودودی جیسے نابغوں کے ہاتھ میں تھی۔ جو آگ لگی اسی میں سے مارشل لاء کے سیمرغ کا پہلا جنم ہوا اور اب تو یہ جنم جنم کا ساتھ ہے کہ ققنس اپنے ہی دیپک راگ میں فنا ہوتا ہے اور اس راکھ سے عنقا پھر اٹھتا ہے۔ یہی سیمرغ پھر 1958 میں نمودار ہوتا ہے۔ 1969 میں پنکھ پھیلاتا ہے۔ 1977 میں جوان ہوتا ہے اور 1999 میں اڑان بھرتا ہے۔  راکھ میں چنگاریاں ابھی بجھی نہیں ہیں۔ تو منتظر فردا رہو۔

عبدالستار نیازی  اور ابوالاعلی مودودی کو موت کی سزا ملی تو۔ پر پہلے عمر قید میں بدلی  اور پھر رہائی۔ خون خاک نشیناں رزق خاک ہوا۔ کیسا حساب اور کہاں کا حساب۔ انصاف کی بے توقیری کی یہ روایت ہماری سب سے درخشندہ روایت ٹھہری جو آج بھی جگمگ جگمگ کر رہی ہے

بھٹو نے ملا کے فیصلے پر مہر ثبت کی تو ضیاء نے پتھر میں لکیریں ڈال اس فیصلے کو حرز ایمان بنا ڈالا۔  ایک کے بعد ایک خدا زمین پر اترا اور آسمانوں کے خدا نے ادھر دیکھنا چھوڑ دیا۔ اچانک انکشاف ہوا کہ توہین کا لفظ بھی لغت میں ہے۔ پھر اس کے نئے معنی تراشے گئے اور بھولنے والے کی سزا بس تھوڑی سی کہ سانس لینے کی اجازت واپس لے لی جائے۔

\"2010_Pakistan_Ahmadi\"احمدیوں کو سبق سکھانے کے ساتھ ساتھ یہ طے کرنا بھی ضروری قرار پایا کہ ملک میں ہونے والی ہر شکستگی کا ذمہ ہندو، نصرانی اور یہودی سازش ٹھہرے۔ دو قومی نظریہ اب ہر قوم سے نفرت کا پرچم اٹھائے گلی گلی محو رقص تھا۔

1953 سے 90 کی دہائی تک بے شمار واقعات ہیں۔ بے شمار قصے ہیں۔ کہاں تک سنو گے۔ کہاں تک سنائیں ۔ تو  بہت پیچھے نہیں جاتے۔ پچھلی دو دہائیوں کا ہی ذکر کر لیتے ہیں۔ آپ کی یادداشت کے احاطے میں بھی آجائیں گے اور یہ بھی اندازہ ہو جائے گا کہ بوتل کا جن اب کیسے ایک دیو قامت عفریت بن گیا ہے۔ ساری تاریخ تو اس کی بھی یہاں بیان نہیں ہو سکتی ہاں دیگ کے چند دانے چکھا دیتے ہیں۔ منہ کا ذائقہ بدل جائے تو باقی دیگ پر قیاس خود ہی کر لیجئے گا۔

1995 میں شب قدر میں دو احمدیوں کو سنگسار کیا گیا پھر ایک لاش کے کپڑے اتار کر پورے شہر کی گلیوں میں گھسیٹا گیا۔ پولیس تماشائی بنی رہی اور شہر تالیاں پیٹتا رہا

اکتوبر 2000 میں سیالکوٹ میں پانچ احمدیوں کو نماز پڑھنے کی پاداش میں گولیوں سے چھلنی کیا گیا۔ اسی شام  اسی محلے میں مغرب کی ایک اور نماز میں امام نے اس امر کی تحسین شروع کی تو عشاء تک ایمان افروز بیان جاری رہا

اگست 2002 میں ٹیکسلا کرسچین ہسپتال میں گرینیڈ پھینکا گیا۔ کافر تو کافر ہی ہوتا ہے مسیحا ہو یا مریض۔ چار جانیں گئیں۔

ستمبر 2002 میں شہر نگاراں کراچی میں اللہ اکبر کے نعروں کی گونج میں چھ عیسائیوں کو \”نامعلوم\” مسلم مسلح جتھے نے گولیوں کی باڑھ پر رکھ کر اپنی مذہبی عقیدت پسندی کا ثبوت دیا۔

دسمبر 2002 میں چیانوالہ کے پریسبیٹیرین چرچ میں تین مسیحی لڑکیوں کے ٹکڑے اکٹھے کئے گئے۔ چند پہلے ایک مقامی مذہبی رہنما نے مسیحیوں کو واجب القتل قرار دیا تھا۔ اس کے بعد چرچ پر بم پھینکنا تو بنتا تھا۔

اکتوبر 2005 میں منڈی بہاؤالدین میں آٹھ احمدی عبادت کرتے ہوئے بھون دیئے گئے۔ عبادت پر ہر کسی کا حق تھوڑی ہوتا ہے

اکتوبر 2005۔ کراچی پنجاب کالونی کے امرااور چمپا گھر لوٹے تو تین نوجوان بیٹیاں  غائب پائیں۔ چند دن گزرے تو پتہ لگا کہ انہیں اغوا کر کے ایک قریبی مدرسے میں لے جایا گیا جہاں انہوں نے برضا و رغبت اسلام قبول کر لیا۔ اس کے بعد پولیس نے ماں باپ کو ان تک رسائی دینے سے انکار کر دیا کہ کہیں ان کا نیا دین بھرشٹ نہ ہو جائے

نومبر 2005 میں تین ہزار مسلح مسلم مجاہدوں نے سانگلہ ہل میں تین کلیسا تباہ کر دئیے۔ کفر کی نشانیاں زمین بوس ہوئیں تو لوگوں کو بت شکن محمود غزنوی کی یاد آ گئی۔

فروری 2006 میں کارٹون ڈنمارک میں بنے تو ہم نے ملک کے طول وعرض میں ان کے گستاخ ہم مذہبوں کو مشن سکولوں اور کلیساؤں میں گھس کر سبق سکھایا۔  اب ایسے میں کچھ لوگ زخمی ہو جاتے ہیں۔ چند مر مرا جاتے ہیں۔ کون سی بڑی بات ہے۔

جون 2006 میں ناصر اشرف نامی مسیحی کو اس جرم میں ایک ہجوم نے زدوکوب کیا کہ اس نے مسلمانوں کے گلاس سے پانی پی کر اسے ناپاک کر دیا تھا۔ خیر خوش قسمت تھا۔ آسیہ بی بی تو ایسی ہی گناہی کی پاداش میں موت کی سزا پا گئی۔ گلاس اپنا رکھنا چاہیئے

 ستمبر 2008 میں ایک ٹی وی چینل پر احمدیوں کو واجب القتل قرار دینے کے بعد تین احمدی تعمیل میں قربان کر دئیے گئے۔

\"download\"دسمبر 2009 میں میگھنا اور رام کی پندرہ سالہ بیٹی گجری کو کراچی میں گھر سے اٹھایا گیا۔ قریبی مدرسے میں کلمہ پڑھا کر ایک مسلمان سے بیاہ دیا گیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے نزدیک یوں بھی نابالغ کی شادی میں کوئ ہرج نہیں

اپریل 2010 میں 2008 کے واقعے کا ری پلے فیصل آباد میں دہرایا گیا۔

2010 میں آنے والی ایک رپورٹ میں یہ پتہ لگا کہ ہر ماہ صرف صوبہ سندھ میں 20 سے 25 ہندوؤں کو جبراً مسلمان بنایا جاتا ہے تاہم نظر التفات صرف جوان ہندو لڑکیوں پر ہے۔ مردوں اور ادھیڑ عمر عورتوں کو اس کار خیر سے دور رکھا جاتا ہے۔

مئی 2010 میں لاہور میں 86 احمدی قربان گاہ کی بھینٹ چڑھے۔  اس کے بعد لاہوریوں نے کمال کرتے ہوئے مرنے والوں کو ہی اپنی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ کچھ لوگ ٹی وی اسکرین پر باقاعدہ خوش نظر آئے کہ چلو دھرتی کا بوجھ ان گناہگاروں سے تھوڑا ہلکا ہوا۔ اس واقعے سے متاثر ہو کر کچھ اسلام کے متوالوں نے اسی ماہ نارووال میں ایک احمدی باپ بیٹے کو بھی دوسرے جہان روانہ کر دیا۔

مارچ 2011 میں شہباز بھٹی کو سلمان تاثیر کے پاس بھیج  دیا گیا۔ خس کم جہاں پاک۔

22 ستمبر 2013۔  پشاور کا آل سینٹ چرچ  بھی تو کل کی بات  ہے.  ہر طرف آگ اور خون تھا  لاشین نہیں تھیں  لاشوں کے ٹکڑے تھے انہی ٹکڑوں میں بچوں کے مسکراتے چہرے تھے ماؤں کا پیار تھا  باپوں کی شفقت تھی  بہنوں اور بھائیوں کی شرارتیں تھیں  میاں اور بیویکی  محبت تھی  اور سب ٹکڑوں میں بٹا، خون میں نہایا،شعلوں میں جلتا تھا۔ ماؤں کے بین  آسمان کو چھوتے تھے مگر بچوں کی آنکھیں بند تھیں  ۔ لوگ دیوانہ وار جسموں کے ٹکڑوں کو  کریدتے تھے۔ پر کوئی چہرہ نہیں ملتا  تھا  جسے پہچان سکیں، رواداری یک جہتی اور اس کے سب دعوے بھی چرچ کی قربان گاہ کے ساتھ دھڑا دھڑ جل رہے تھے۔ پھر ایک بیان آیا ’’یہ دھماکہ ہم نے نہیں کیا’’ پر  بات ابھی جاری تھی  ابھی دل کو لہو ہونا باقی تھا  -اگلا  جملہ سب اقلیتوں کے نام تھا ’’ لیکن یہ شریعت کے عین مطابق ہے‘‘کسی  نے پوچھا کہ کون سی شریعت تو  جواب ملا وہی جس میں لکھا ہے کہ یہود و نصاری تمہارے  دوست نہیں ہو سکتے۔ جو دوست نہیں وہ دشمن ہے اور دشمن کو مارنے میں بھلا کیا برائی ہے۔

\"mourners_rabwah\"مارچ 2014 تو زیادہ پرانا نہیں۔ یاد ہے جب جوزف کالونی کے مکان جل رہے تھے تھے ٹوٹے دروازے گری ہوئی دیواریں، بکھرا ہوا سامان جلی ہوئی بائبل کے نسخےاور  ہر سمت ناچتے ہوئے شعلے انسانی بربریت کی داستان سنا رہے تھے۔ گلیوں میں ہجوم کی زبان پراللہ کی کبریائی  کے نعرے تھے اور ہاتھوں میں پئٹرول کے کین ماچس کی تیلیاں اور ڈنڈے- کوئیاسلحے  سے ہوا میں فائر کر رہا تھا تو کوئی قیمتی سامان لوٹنے میں مصروف تھا -چہروں پر غصے فتحمندی اور غرور کے نقش ثبت  تھے-

’’ یہ سب اسی قابل ہیں‘‘ نعرے مارتے ہوئے نوجوان نے ایک لحظہ  رک کر صحافی کے مائک میں کہا تھا’’ قرآن بھی یہی  کہتا ہے کہ یہود و نصاری تمہارے دشمن ہیں۔ آج ہم اپنے  دشمنوں کو سبق سکھانے نکلے ہیں —  اللہ اکبر \”

 نومبر 2014۔ کوٹ رادھا کشن قصور۔ شمع اور شہباز کے جسم بھٹے کی آگ میں چرمراتے تھے اور لوگ اللہ اکبر کے نعرے لگاتے تھے۔

اب کوئی دن جاتا ہے کہ منڈی بہاؤالدین میں یا تو عمران مسیح جلے گا یا پورے گاوں کے مسیحیوں کو کلمہ پڑھایا جائے گا۔

ایسا نہیں ہےکہ  ہر کوئی اس تباہی اور بربادی کا افسانہ لکھنے والوں  میں شامل ہے. یہ حقیقت ہے کہ جنون میں ہوش کھو بیٹھنے والے اس معاشرے کا ایک بہت چھوٹا سا طبقہ ہیں پر ان کا ہاتھ پکڑنے والے، انھیں سمجھانے والے، ان کے راستے کی دیوار بننے والے ان سے بھی کم ہیں. ظلم ہوتے دیکھنے والے اور چپ رہنے والے بھی ظلم میں برابر کے شریک ٹھہرتے ہیں. سوال یہ نہیں ہے کہ غلطی شریعت کی ہے یا نہیں، تاریخ کے بیان میں ہے یا نہیں، سوال اس کی غلط تشریح کا ضرور ہے. نفرت کا درس دینے والے کیوں بڑھتے جا رہے ہیں اور سچ، اصول اور محبت کی  پیرو کار آوازیں کیوں خاموش ہوئی چلی جاتی ہیں. ہم ان کو کیں نہیں سنتے جو حق کی بات کرتے ہیں اور ایسے ابھی بہت ہیں اور کیوں ان کے پیچھے چل پڑتے ہیں جو صرف نفرت کے راگ سناتے ہیں

.
یہ دھماکے، یہ قتل و غارت یہ لوٹ مار اسی نفرت کی کوکھ  سے جنم لیتے ہیں جس کا زہر آہستہ آہستہ یہ کچھ لوگ   بچپن سے ہماری رگوں میںاتارتے ہیں ۔ مغرب کا ایکمحدود  طبقہ مسلمانوں کو برا بھلا کہے تو یہ سارے مغرب کو قابل گردن زنی قراد دیتے ہیں لیکن ان کے نزدیک ہم سب عیسائیوں اور یہودیوں کو اپنا دشمن سمجھیں تو یہ ہمارے ایمان کاحصہ قرار پاتا ہے اور  ہماری شریعت کاطرّہ  بنتا ہے۔ بال ٹھاکرے متعصب ولن ہے پر حافظ سعید نسیم حجازی والا ہیرو ہے۔

یہود و نصاری سے نفرت اور دشمنی کا جواز ہم کتاب سے نکالتے ہیں۔ بچپن سے سنتے آئے کہ کتاب میں لکھا ہے کہ  یہ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے۔ ہندو سے نفرت ہمارے قومی نظریے کی اساس ہے۔ احمدیوں کو تو راندہ درگاہ ٹہرانے والے جا بجا ہیں کہ ایمان کا اس سے افضل پیمانہ اور کوئی نہیں کہ ان سے ٹوٹ کر نفرت کی جائے۔ باقی بچے پارسی اور سکھ وغیرہ تو بیچارے پہلے ہی کسی گنتی میں نہیں تھے۔  اور اب تو گنتی میں رہیں گے بھی نہیں۔

اندھوں  کے شہر میں آئینہ کیسے بیچا جائے – دلیل کی موت کا نوحہ کس کے آگے پڑھیں۔ دو رنگی اور منافقت کے خول کس کس کے چہرے سے اتاریں، اقبال یاد آتے ہیں۔

ہند میں حکمت دیں کوئی کہاں سے  سیکھے

نہ کہیں  لذت  کردار، نہ   افکار     عمیق

خود بدلتے نہیں قرآں  کو بدل دیتے ہیں

ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم  بے  توفیق

\"christians-in-pakistan-news6\" ان فتویٰ سازوں کو شائد کسی  نے نجاشیکے بارے میں نہیں بتایا – ہمارے نوجوانوں کو تاریخ کا یہ سبق کون پڑھائے گا کہ شائد مسلمانوں کا نام و نشان بننے سے پہلے ہی فنا ہو جاتا اگر ایتھوپیا کا عیسائی نجاشی پہلی ہجرت کے مسافروں کو پناہ نہ دیتا۔

انہی لوگوں نے اس بات کا جواب دینا بھی مناسب نہیں سمجھا کہ جو قرآن اہل کتاب سے شادی کو جائز قرار دے وہی قرآن ان اہل کتاب کو دشمن کیونکر قرار دے سکتا ہے۔ جن سے دوستی نہیں ہوسکتی ان سے شادی کیونکر ممکن ہے جو ہمارا بھلا نہیں چاہ سکتے وہ ہمارا خاندان کیسے بن سکتے ہیں۔ جو ہمارے لیئے صرف کینہ رکھتے ہیں وہی ہمارے بچوں کے سرپرست کیسے بن سکتے ہیں۔

انہوں نے کبھی کسی کو یہ بھی نہیں بتایا کہ الیہود اور النصاری کا مطلب یہودی اور عیسائی نہیں۔ ’’ یہ یہودی‘‘ اور ’’ یہ عیسائی‘‘ ہوتا ہے۔ قرآن کو بدل دینے والے ان فقیہان حرم نے ایک گروہ کے بارے میں نازل کردہ آیات کو  تمام اہل کتاب پر لاگو کر ڈالا اور یہ تک نہ سوچا کہ کہ ان کا یہ دعوی کہ ہمارا مزہب  انسانیت اور امن کا پرچارک ہے۔  تمام انسانیت کو ایک خاندان قرار دیتا ہے ۔ جگہ جگہ اہل کتاب کا ذکر کرتا ہے ان میں سے ان لوگوں  کی تکریم کرتا ہے جو وعدے کا پاس رکھتے ہیں۔ خدا پر یقین رکھتے ہیں لوگوں کی مدد کرتے ہیں اور اچھے اعمال کرتے ہیں ،اس وقت کھوکھلا پڑ جاتا ہے جب ان کی تشریح کے مطابق وہی مزہب  بیک جنبش قلم ان تمام کو اور ان کی تمام نسلوں کو دوستی کے دائرے سے خارج کر دیتا ہے

جن آیات کا ذکر کرتے یہ خطیب اور عالم  کہلانے  نہیں تھکتے  کبھی انہوں نے اس کی تشریح میں یہ نہیں بتایا کہ عربی کا لفظ ’’اولیا‘‘ صرف دوست کے معنی میں نہیں آتا اس کا مطلب اتحادی بھی ہوتا ہے اور سرپرست بھی ہوتا ہے۔ ذاتی دوستی اور جنگی اتحاد میں کیا فرق ہوتا ہے مدینے کے گرد عیسائی اور یہودی قبائل سے کب کیا معاہدے  ہوئے ان سب کا ان آیات سے کیا  تعلق ہے اس رمز کو یہ  نہیں چھیڑتا۔

\"A

کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اس ملک جسے ہم پاکستان کہتے ہیں اس کے حقوق کی جنگ میں جان دینے والا سب سے بڑا نام موہن داس کرم چند گاندھی نامی ہندو کا ہے۔ یہ تو کوئی نہیں لکھتا کہ گاندھی کا مرن برت کس کے لئے تھا۔ اور نتھو رام گاڈسے کی گولی کیوں گاندھی کے سینے کے پار ہوئی پر  ظفر علی خان کی نفرت انگیز شاعری کے یہ نمونے نصاب میں شامل ہیں کہ

بھارت میں بلائیں دو ہی تو ہیں ایک ساورکر اک گاندھی ہے

اک جھوٹ کا چلتا جھکڑ ہے اک مکر کی اٹھتی آندھی ہے۔

خیر فصاحت وبلاغت کا یہ دریا کیسی پستیوں میں گرتا ہے وہ کہانی کسی اور وقت اٹھا رکھتے ہیں پر آج جوہر اور ظفر جیسے لوگ ہمارے ہیرو ہیں اور گاندھی جیسے ہماری ہجو کا مرکز۔ گوئبلز جھوٹ کے بارے میں سچ ہی کہتا تھا۔ آج ہندو ہمارے لئے ہندو بنیا ہے۔ سانپ ہے۔ لومڑی سا عیار ہے۔ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام ہے۔ اور یہ سب کسی افسانے یا ناول میں نہیں آپ کی تاریخ اور آپ کے نصاب کا حصہ ہے اور یہ وہیں پڑھایا جاتا ہے جہاں شاید آپ کا ہم مکتب ایک ہندو ہو

احمدی تو ہیں ہی اس قابل کہ ان کے سر اتار دیے جائیں۔ منہ سے جھاگ اڑاتے محمد علی جناح کو مولانا محمد علی جناح ثابت کرنے میں ایڑی سے چوٹی کا زور لگاتے دانشوران ملت، علمائے اسلام اور غیرت بریگیڈ کے سرخیل کبھی قائد کی اس تقریر کا حوالہ نہیں دیں گے جس میں انہوں نے قطعیت سے کہا تھا کہ احمدی مسلمان ہیں۔ اگر وہ کہتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں تو کوئی ان کے اس حق کی نفی نہیں کر سکتا خواہ وہ ایک منتخب پارلیمان ہی کیوں نہ ہو۔ ختم نبوت کا درس پڑھانے والے عوام کو یہ نہیں بتائیں گے کہ ان کے اپنے فرقوں میں مسیح موعود، امام مہدی اور امام غائب کیونکر ختم نبوت کی تعریف سے مبرا ہیں۔

اسی نگری میں کتنے  وہ بھی ہیں جو آج بھی سچ بات کا علم اٹھاے ہوئے ہیں. عزت کے قابل یہ آوازیں اس ملک میں علم کی آخری سرحدوں کی  نگہبان ہیں پر جہاں نگر نگر جہالت کی  تاریکی میں ڈوبا ہو وہاں ان کی آواز صدا بصحرا بن جاتی ہے. ایک طرف بھڑکتے شعلے ہیں تو ان کے بجھانے کو شبنم کے بس چند قطرے- نہ آگ بجھتی ہے نہ آگ لگانے والے پکڑ میں آتے ہیں. ہم ان بھیڑ بکریوں میں سے ہیں جو چرواہے کے پیچھے نہیں؛ بھیڑیوں کے پیچھے چلتی ہیں.

\"201462-Gojraphotofile-1309638834-574-640x480\"کبھیآپ نے سوچا کہ اگر کسی مغربی ملک میں لفظ ’’مسلم‘‘ یا ’’اسلام ‘‘ کو ایک نفرت انگیز یا تحقیر آمیز انداز میں پیش کیا جائے تو ہمارا رد عمل کتنا شدید ہوتا ہے مگر یہ بھی سوچیں کہ ان جیسے لوگوں کی تقلید میں ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں ’’ یہودونصاری‘‘ یا \”یہودوہنود\”  کا لفظ کس سیاق و سباق میں استعمال کرتے ہیں میں نے آج تک ان تراکیب کو کبھی بھی کسی مثبت پہلو سے نہ سنانہ پڑھا -حقارت، نفرت اور  سازش کے ہر پیرائے میں ہم ’’ یہودونصاری‘‘  اور \”یہودوہنود\” کی ترکیب ٹانگ دیتے ہیں۔ اسی سانس میں احمدیوں کو دشمن ملک و ملت قرار دیتے ہیں اور پھر اپنی رواداری اور  مذہبی غیر عصبیت کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں – ہمارے کچھ علما ایسے بھی ہیں جو انہیں شرعی طور پر دوسرے درجے کا شہری قرار دیتے ہیں۔ اور ساتھ ساتھ مغربی ممالک میں مسلمانوں کے حقوق کا رونا بھی روتے ہیں۔   یہ کیسی دو رنگی ہے . اور ہم کیسے بینا ہیں جو اسے دیکھ بھی نہیں پاتے، سمجھ بھی نہیں پاتے .

کیا ہمیں یہ زیب دیتا ہے  کہ  ایک سانس میں ہم اپنے آپ کو مسلمان کہیں، اسلام کے ماننے والے ٹھہریں- یہ ڈھنڈورا پیٹیں کہ اسلام  کا ماخذ ہی سلام یعنی سلامتی ہے اور پھر  اسی اسلام کی سربلندی کے نام پر اپنے ہی گھر میں، اپنے ہی لوگوں کو تہہ تیغ کر ڈالیں – ایسا کرنا شاید منافقت اور جاہلیت کی اس انتہا کو چھونا ہو گا جہاں پہنچتے پہنچتے تاریخ کے کوڑے دانوں میں پڑی کئی قوموں کے پر جل گئے

کبھی رات کے پچھلے پہر جب کوئی دیکھتا نہ ہو، اپنا چہرہ آئینے میں دیکھنا۔ کہیں بہت بدل تو نہیں گیا ہے۔ ہاتھوں پر نظر ڈالنا، کہیں لہو کے چھینٹے تو نہیں ہیں۔ دل کی خلوت میں اپنے سے کلام کرنا۔ حرف حق دل میں کھٹکتا رہے تو دل لہو ہوتا ہے۔ اسے زبان دو۔  سچ کا پتہ ملے تو اور کچھ نہیں کسی ایک کو بتانا ضرور۔ رات تاریک ہے۔ آندھیوں کا زور ہے پر اپنا اپنا دیا جلاتے ہیں شاید  روشنی ہو ہی جائے۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad