کیا پہلے کبھی دھاندلی نہیں ہوئی تھی؟


برطانیہ کے انتہائی معتبر سمجھے جانے والے روزنامہ، فائنانشل ٹائمز نے 25 جولائی کو پاکستان میں ہونے والے الیکشنز کو پاکستان کی تاریخ کے ”گندے ترین“ الیکشنز قرار دیا ہے۔ اسی طرح نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور دنیا کے دوسرے کئی اخبارات نے بھی 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات کے بارے میں اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے ایک بہت بڑا نام آئی اے رحمن کا ہے اور انہوں نے بھی ان الیکشنز کو پاکستان کی تاریخ کے بدترین الیکشنز قرار دیا ہے۔ اسی طرح پی پی پی، پی ایم ایل ن اور ایم کیو ایم بھی ان الیکشنز کو دھاندلی زدہ قرار دے رہے ہیں۔

ان تمام رپورٹس اور دعوؤں سے ایک تاثر یہ پیدا ہو رہا ہے کہ ہمارے ملک میں اس سے پہلے ہونے والے الیکشنز شاید صاف ستھرے یا نسبتاً کم گندے ہوتے تھے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ اسٹیبلشمنٹ الیکشن میں دھاندلی کر رہی ہے۔

اس تاثر کی سچائی کو جاننے کے لیے ہمیں پاکستان میں ماضی میں ہونے والے الیکشنز پر ایک نظر ڈالنی پڑے گی۔

آج تک کی پاکستان کی تاریخ میں صرف ایک الیکشن، 1970 کے، ایسے ہوے ہیں جن کے حوالے سے تمام فریقین کا بڑی حد تک اتفاق ہے کہ وہ صاف و شفاف تھے۔ وگرنہ 1965 کے صدارتی انتخابات سے لے کر 25 جولائی 2018 کو ہونے والے انتخابات تک ہر الیکشن میں اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے دھاندلی کی ہے، یہ الگ بات ہے کہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے کبھی انہیں زیادہ دھاندلی کرنی پڑی اور کبھی کم۔ ایسا مگر کبھی نہیں ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ نے دھاندلی نہ کی ہو۔ ہاں یہ لازم نہیں ہے کہ دھاندلی کے باوجود اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی کے نتائج بھی حاصل کر سکے کیونکہ الیکشن پر اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کے علاوہ اور بھی کئی عوامل اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں۔

جس طرح کی کھلم کھلا دھاندلی اس دفعہ کی جا رہی ہے، اس سے پہلے بھی دو دفعہ اس طرح کی دھاندلی ہو چکی ہے۔ پہلے 1990 اور پھر 2002 میں۔

1990 میں ہونے والی دھاندلی کے کچھ ثبوت تو اصغر خان کیس کی وجہ سے زبان زد عام ہیں لیکن کچھ ایسے بھی حقائق ہیں جو بہت زیادہ زیر بحث نہیں آ سکے۔ 1990 کے الیکشن میں صرف اسٹیبلشمنٹ نے چیدہ چیدہ سیاستدانوں میں پیسے تقسیم نہیں کیے بلکہ پنجاب سے آئی جے آئی کے ہر امیدوار کو کم از کم دو کروڑ بیس لاکھ روپے (اس وقت کے دو کروڑ بیس لاکھ آج کے کم از کم 25 کروڑ کے برابر ہیں) دیے گئے۔

ستم بالائے ستم یہ تھا کہ پنجاب کا نگران وزیر اعلی بھی آئی جے آئی کے ایک امیدوار٬ غلام حیدر وایئں، کو لگایا گیا اور جو الیکشن جیتنے کے بعد مستقل وزیر اعلیٰ بھی مقرر ہوا۔ نگران وزیر اعلی نے انتظامیہ کے ذریعے پی پی پی کے امیدواروں پر جھوٹے پرچے کروانے سے لے کر انہیں گرفتار کروانے تک اور نا اہل کروانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اسی کے ساتھ ساتھ صدارتی محل میں ایک الیکشن سیل بنایا گیا اور الیکشن انتظامیہ کو حکم دیا گیا کہ کسی بھی پولنگ اسٹیشن کا نتیجہ پولنگ ایجنٹس کو نہیں دینا بلکہ سیدھا صدارتی محل میں قائم الیکشن سیل میں پہنچانا ہے، وہیں ریزلٹ اکٹھے ہوتے تھے، آئی جے آئی کے امیدواروں کے حق میں تبدیل کیے جاتے تھے اور پھر پی ٹی وی سے نشر کیے جاتے تھے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس سے بڑھ کر اور ظلم کیا ہو سکتا تھا کہ پی پی پی اور اس کے اتحادیوں نے 1988 کے الیکشن کے مقابلے 1990 میں 0.4 ملین ووٹ زیادہ (7.9 ملین) لیے لیکن اس کی قومی اسمبلی کی سیٹیں 93 کے مقابلے میں کم ہو کر 44 رہ گیئں جب کہ آئی جے آئی نے ووٹ 7.4 ملین لیے اور سیٹس 105 لیں۔ اور یہ سب کمال آئی جے آئی کی قیادت، صدر غلام اسحاق خان اور اسٹیبلشمنٹ کا تھا۔

پھر تقریباً اسی نوعیت کی دھاندلی 2002 میں کی گئی جب مسلم لیگ ق کو جتوانے کے لئے مادر پدر آزاد دھاندلی کی گئی۔ مخالف امیدواروں کو جیلوں میں ڈالا گیا، نیب کے کیسز بنوائے گئے، مخالف سیاسی قیادتوں پر الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی گئی، گریجویشن کی شرط لگا کر مخالف امیدواروں کو الیکشن لڑنے سے محروم کر دیا گیا اور ایم ایم اے کو بوقت ضرورت استعمال کرنے کے لیے ان کی مدارس کی ڈگریوں کو عارضی طور پر گریجویشن کے برابر قرار دے دیا گیا۔ جب ایم ایم اے کے ارکان کی مدارس کی اسناد کے خلاف عدالت میں کیس ہوا تو پانچ سال تک اس کا فیصلہ نہیں ہونے دیا گیا۔ اس سب کے باوجود بھی اپنی مرضی کے نتائج حاصل نہ ہونے پر ہارس ٹریڈنگ کے قوانین میں تبدیلی کر کے پی پی پی سے ایک گروپ کو توڑ کر حکومت بنائی گئی۔
1988، 2002 اور 2018 میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ یہ کہ تینوں دفعہ ایک ایسی پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ اقتدار دلوانا چاہتی تھی اور ہے جو اس سے پہلے وفاق میں حکومت میں نہیں رہی۔

جب بھی اسٹیبلشمنٹ کسی نئی جماعت کو حکومت میں لانا چاہتی ہے تو اس کو اسی نوعیت اور شدت سے دھاندلی کرنی پڑتی ہے جتنی اسے اس دفعہ کرنا پڑ رہی ہے۔
ایک نئی پارٹی کو اقتدار دلوانا ایک اسٹیبلشڈ پارٹی کو اقتدار دلوانے سے کہیں زیادہ مشکل کام ہے۔

ہاں اس دفعہ یہ ضرور ہوا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی سازشیں ایک تو الیکشن سے پہلے ہی بے نقاب ہو گئی ہیں، دوسرا یہ کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے چیزیں بہت تیزی سے پھیلی ہیں اور معلومات کے پھیلاؤ پر جو ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کا کنٹرول ہوتا تھا وہ اب نہیں رہ گیا۔

ماضی کے بر عکس اس دفعہ ایک فرق یہ بھی ہے کہ اس دفعہ دھاندلی پنجاب میں پچھلی تین دہائیوں سے حکومت کرتی ہوئی جماعت کے خلاف ہو رہی ہے، کسی چھوٹے صوبے کی جماعت کے خلاف نہیں ہو رہی، جس وجہ سے یہ تپش وہ لوگ بھی محسوس کر رہے ہیں جو اس سے پہلے اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹ بن کر خود دھاندلی کیا کرتے تھے۔ مثلاً پاکستان کے اندر جنگ گروپ کی تاریخ ہے کہ اس نے ہمیشہ آمرانہ قوتوں کی چوکھٹ پر اپنا ماتھا ٹیکا ہے اور جمہوریت کی سرکوبی میں غیر جمہوری قوتوں کا دست و بازو رہی ہے، لیکن اس دفعہ آمرانہ رویوں اور دھاندلی کے خلاف سب سے زیادہ آواز اس نے اٹھائی ہے۔

چونکہ جنگ گروپ کے اخبارات اس ملک میں سب سے زیادہ پڑھے جاتے ہیں اور اس کے ٹی وی چینلز سب سے زیادہ دیکھے جاتے ہیں، لہذا اس نے بھی یہ تاثر عام لوگوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے کہ اس دفعہ بہت زیادہ دھاندلی ہو رہی ہے۔ اگر ہم جنگ گروپ کا پی پی پی کی آخری حکومت (2008 سے 2013) کا ریکارڈ سامنے رکھیں تو یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر یہ دھاندلی پی پی پی یا چھوٹے صوبے سے تعلق رکھنے والی کسی اور جماعت کے خلاف ہو رہی ہوتی تو جنگ گروپ جمہوریت کا کوئی درد محسوس نہ کرتا۔

بہرحال اس ساری بحث کا مقصد یہ ہے کہ دھاندلی نہ تو پہلی دفعہ ہو رہی ہے اور نہ ہی آخری دفعہ بلکہ یہ سلسہ تب تک جاری و ساری رہے گا، جب تک سیاسی جماعتیں جمہوریت اور سویلین بالادستی کے ساتھ مخلص نہیں ہو جاتیں۔ جب تک اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی غلام میسر رہیں گے، ذلت اس ملک کے سیاستدانوں کا مقدر رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).