ہم مقابلہ کرتے ہیں بے غیرتی نہیں


نیزہ بازی پنجاب کا مقبول عام کھیل ہے چند دہائیاں پہلے جب ٹی وی نہیں تھا یا اس سے پہلے جب سینما ہی نہیں تھا تو میلے پنجاب میں مقبول عام تھے اور نیزہ بازی ہر بڑے میلے کا اہم حصہ تھی۔ نیزہ بازی میں گھوڑے اور گھوڑے سوار کی بڑی اہمیت ہوتی ہے گھوڑے کا پوری رفتار میں سیدھا دوڑنا اور گھوڑے سوار کا اس پر اپنا تواز برقرار رکھنا نہایت مہارت کا کام ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے سالوں محنت کی جاتی ہے۔

دو گاؤں کے چوہدریوں کے درمیان اس بات پر تکرار ہو گئی کہ ان میں سے کون اچھا شہ سوار ہے اور کس کا گھوڑا اچھا ہے؟ ہر دو مدعی تھے کہ اس کا گھوڑا اچھا ہے اور وہ اچھا شہ سوار ہے۔ طے یہ ہوا کہ علاقے میں منعقد ہونے والے سب سے بڑے میلے میں نیزہ بازی کا مقابلہ ہو گا پتہ چل جائے گا کہ کون اپنے دعوی میں درست ہے۔ اس میلے میں چند ماہ باقی تھے اب اس گاؤں کے لوگ جہاں بھی ملتے اپنے چوہدری اور اس کے گھوڑے کی تعریفوں کے پل باندھ دیتے۔ کچھ لوگ تو مبالغہ آمیزی میں بھی حد کر دیتے ہیں۔ (شاید آج کل دو مخالف جماعتوں کے حمایتیوں والی صورت حال ہو گی )دونوں پارٹیوں کے حمایتوں کی گفتگو سن کر ایک بزرگ نے کہا بیٹے بحث نہیں کرو یہ گھوڑا اور یہ گھوڑے کا میدان چند دنوں میں پتہ چل جائے گا۔

جیسے جیسے میلے کی تاریخ قریب آ رہی تھی لوگوں کی محفلوں کا موضوع نیزہ بازی کا یہ مقابلہ بن چکا تھا۔ ہر دو گاؤں کی مساجد کے مولانا صاحبان ہر روز بلند آواز سے اپنے اپنے چوہدری کے جیتنے کی دعا رکرتے تھے۔ مسئلہ اس وقت گھمبیر ہو گیا جب دونوں گروپ علاقے کی واحد درگاہ میں بیک وقت کامیابی کی دعا لینے پہنچے۔ درگاہ کے نگران نے کمال مہارت سے دونوں کی کامیابی کے لیے بڑی رقت سے دعا کرا دی۔ ہر دو گروہ یہ مانتے تھے کہ انہوں نے بابا جی کی درگاہ میں جو چڑھاوا چڑھایا اور جو منت مانی ہے اس کے نتیجے ان کی کامیابی پکی ہے۔

میراثی آج تحقیر کے لیے کہا جاتا ہے اس وقت گاؤں کا میڈیا تھا چوہدری صاحب کی دہشت گاؤں والوں کے دلوں میں قائم رکھنا اس کا اولین منصب تھا۔ (ویسے آج کا میڈیا بھی یہی کام کرتا ہے فرق صرف یہ ہے کہ آج ٹائی کوٹ پہن کر کیا جاتا ہے) دونوں طرف کے میراثیوں نے اپنے اپنے چوہدری اور اس کے گھوڑے کی شان میں دوڑے ماہیے کہے ان کی خاص بات یہ تھی کہ جو اشعار گھوڑے کے لیے کہے گئے تھے انہیں گھوڑے کی جگہ چوہدری رکھ کر بھی پڑھا جاتا تو اتنی ہی داد ملتی جتنی گھوڑا پڑھ کر ملی ہوتی تھی۔ یہ اشعار اس قدر مشہور ہوئے کہ دونوں گاؤں کے درمیان سے گزرنے والی مشترکہ نہر سے اپنی باری پر پانی کی نگرانی کرنے والے ایک دوسرے کے گاؤں سے گزرتے ہوئے اپنی تنہائی کو سنگیت سے دور کرنے کے بہانے بلند آواز میں گا کر دوسروں کو سنا جاتے تھے۔

پورے علاقے میں اس مقابلے کی شہرت ہو گئی اردگرد کے بوڑھے گھڑ سوار دونوں چوہدریوں کے پاس آتے خوب پیٹ بھر کے من پسند کھانے کھاتے لسی کے جگ ڈکارتے اور جاتے ہوئے چوہدریوں کو آزمودہ داؤ پیچ سکھا جاتے۔ جوں جوں میلہ قریب آ رہا تھا گاؤں میں تحرک سا آ گیا تھا۔ جولائے کو ایک کندھے پر ڈالنے کے لیے خاص چادر، پنجابی پگ کے لیے اعلی درجے کا کپڑا بننے کا آرڈر مل چکا تھا۔ ترکھان اور لاہار مل کر چوہدری صاحب کے لیے ایک یادگار نیزہ تیار کر رہے تھے ایسا نیزہ جس چوہدری صاحب کے ہاتھ میں آئے تو پتہ چلے کہ چوہدری صاحب کی شان کے مطابق ہے۔ ڈھول بجانے والوں نے اپنے چند رشتہ داروں کو بھی بلایا ہے تاکہ چوہدری صاحب کی جیت کا پورا جشن منایا جا سکے۔ گاؤں کے تمام لوگ ہی اپنی اپنی بساط کے مطابق میلے کا مزہ لینے کی تیاری کر رہے ہیں۔

دشمن تو ایسے موقعوں کی تاک میں ہوتا ہے ایک گاؤں کے چوہدری صاحب کے دشمنوں نے جو خیر سے اس کے چچا زاد بھی تھے شریکہ کی رسم بد کو نبھانے کے لیے ایک چال چلی عین مقابلے والے دن چوہدری صاحب کے ناشتے میں نشہ ملوا دیا۔ چوہدری صاحب کو سر بھاری سا لگا لیکن نشے کی مقدار کم تھی اس لیے بے ہوش نہیں ہوئے مقابلہ بعد از ظہر تھا اس لیے کافی وقت تھا۔ ظہر تک نشہ تو کافی حد تک کم ہو گیا مگر اس کا اثر مکمل طور پر نہ گیا اور اس نے اپنی کیفیت طافو مراثی کی موجودگی میں پنجائت کے ثالث اللہ داد کو بتائی تو اللہ داد نے حقے کا کش ذرا لمبا لیا اور سوچ کر بولا چوہدری صاحب اگر آپ مقابلے میں نہ گئے تو یہی سمجھا جائے گا چوہدری ڈر کے بھاگ لہذا اب تو مقابلہ کرنا ہی پڑے گا۔ چوہدری صاحب نے اللہ کا نام لیا اور گاؤں والوں کے ساتھ مقابلہ کے لیے روانہ ہو گیا۔

اردگرد کے دیہات کے کئی چوہدری صاحبان بھی آئے ہوئے تھے۔ لمبی طورے والی پگڑیاں، حیثیت کا پتہ دیتے کھسے اور یاروں کی ٹولیوں میں مشغول قہقہہ تھے۔ بڑے بڑے شہ سوار بھی میلہ میں موجود تھے جیسے ہی مقابلے وقت ہوا چوہدری صاحب کو پتہ چل گیا کہ نشہ کی وجہ سے شکست یقینی ہے مگر انہوں نے مایوس ہونے کی بجائے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر مقابلہ کرنا مناسب خیال کیا تاکہ بزدلی کے طعنے سے بچا جا سکے۔ چوہدری صاحب گھوڑا لے کر مقررہ جگہ تک پہنچے اور ایڑ لگا کر اسے دوڑا دیا وہی ہوا جس کا ڈر تھا چوہدری صاحب کے لیے جیتنا تو دور کی بات گرتے گرتے بچے وہ تو خدا بھلا کرے کریم بخش ترکھان کا جسے صورتحال کا اندازہ تھا اس لیے اس نے چوہدری صاحب کو پکڑ لیا۔

دوسرے گاؤں کے چوہدری کو ذرا شک ہوا کہ اس طرح نہیں ہونا چاہیے تو کیونکہ انہیں معلوم تھا مدمقابل بہت بڑا شہسوار ہے۔ اب ان چوہدری صاحب کی باری تھی۔ انہوں نے بڑی آسانی سے یہ مقابلہ جیت رہا۔ دونوں گاؤں کے میراثی آپ میں رشتہ دار تھے وہ اکٹھے بیٹھے یہ مقابلے دیکھ رہے تھے جب چوہدری صاحب نے مقابلہ جیت لیا تو اس نے ذرا طعنہ مارا کہ تمہارا چوہدری ہار گیا اس نے کہا ہارا نہیں ہروایا گیا ہے چوہدری کے دشمنوں نے اسے نشہ پلا دیا تھا۔

بقیہ مضمون پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2