ڈالر کے پَر کون کاٹے گا؟


پچھلے چند ہفتوں میں ڈالر کی اُونچی اُڑان نے سب پاکستانیوں کے ذہن میں سوال کھڑے کر دیئے۔ عوام کی اکثریت اقتصادی امور کی مشکل گتھیوں کو نہیں سمجھتی مگر میڈیا پر اہل علم کے تبصرے اُنہیں پریشان کر رہے ہیں۔ عام حالات میں بھی، عوام محدود آمدن اور ضروری اخراجات کے درمیان توازن پیدا کرنے کی ہمہ وقتی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ اور اب ماہرین اُنہیں خبردار کر رہے ہیں کہ مہنگائی کا ایک نیا طوفان آنے والا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ نئی حکومت ڈالر کے پَر کاٹے اور اُن کی جیب پر مزید بوجھ نہ پڑنے دے۔

ماہرین متفق ہیں کہ آئندہ دنوں میں زرِمبادلہ کے ذخائر مزید سکڑ جائیں گے۔ نئی حکومت کے پاس آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ وہ خبردار کر رہے ہیں کہ مزید قرضہ ملنے کی اُمید تو ہے مگر عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط مزید سخت ہو جائیں گی۔ ہماری مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا رہے گا۔ آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ بے روزگار نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقتصادی ترقی کم از کم 6فی صد سالانہ کی شرح سے ہونا ضروری ہے۔ یہ شرح کم ہوئی تو نوجوانوں کے لئے روزگار کے نئے مواقع پیدا نہیں ہوں گے۔

یہ کہانی بار بار دہرائی جا رہی ہے۔ لوگ سمجھنا چاہتے ہیں کہ اِس مسئلے کا مستقل حل کیا ہے؟ جو ملک ہمارے ساتھ آزاد ہوئے اُن کی برآمدات میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ ہم پیچھے رہ گئے حتیٰ کہ بنگلہ دیش کے پاس بھی زرِمبادلہ کے محفوظ ذخائر ہم سے زیادہ ہیں۔ ہماری درآمد اور برآمد کے درمیان فرق بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ 2009ء اور 2012ء کے درمیان راقم سیکرٹری تجارت تعینات تھا۔ ہماری برآمدات 25بلین ڈالر تک پہنچیں۔ 2013ء میں نئی حکومت آئی تو آئندہ پانچ سال میں برآمدات کو 50 بلین ڈالر سے بھی زیادہ کرنے کے عزم کا اظہار ہوا۔ مالی سال2017-18ء ختم ہو چکا ہے اور ہماری برآمدات 25بلین ڈالر سے بھی کم ہیں۔ یہ ناکامی گزشتہ پانچ سال کی داستان نہیں۔ ہم نے آج تک برآمدات بڑھانے کے لئے کوئی مربوط پالیسی نہیں بنائی۔ صرف محدود مدت کے لئے مشکلات پر قابو پانے کا سامان کرتے رہے۔ جنہیں ایوب خان کا دور یاد ہے اُنہوں نے ’’بونس ووچر‘‘ اسکیم کا نام سُنا ہو گا۔ یہ اسکیم ہماری محدود سوچ اور حکمت عملی کی عکاس تھی۔ برآمد کنندگان کو مصنوعی فائدہ دے کر زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا۔ فوری مشکل آسان ہوئی مگر طویل مدتی نقصانات نظرانداز کر دیئے گئے۔ آج تک ہم نے یہی وطیرہ اپنایا ہوا ہے۔ ہم نے اِس مسئلے کا مستقل حل تلاش کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔

عام قاری سوچ رہا ہو گا کہ اُسے بین الاقوامی تجارت اور عالمی اقتصادیات کا علم نہیں۔ یہ مسائل بہت دقیق اور تکنیکی نوعیت کے ہیں۔ وہ کیا سمجھے گا اور کیا رائے قائم کرے گا۔ مگر یہ دُرست نہیں۔ درآمدات اور برآمدات کے معاملات نہ تو اتنے پیچیدہ ہیں اور نہ اتنے مشکل، جتنے نظر آتے ہیں۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر ملک کے شہریوں کو چند ایسی اشیاء کی ضرورت ہوتی ہے جو اُن کے ملک میں پیدا نہیں ہوتیں۔ بیرونِ ملک سے منگوانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔ پاکستان کی مثال لیں تو دفاعی ضرورت کے لئے، فضائی اور بحری جہازوں، ٹینکوں، توپوں کے علاوہ دُوسرا سازوسامان چاہئے۔ پٹرول، گیس، خوردنی تیل، ہوائی جہاز، بسیں، ٹرک، موٹرکاریں، بھاری مشینری، چائے اور دالوں کی درآمد بھی ہماری ضرورت ہے۔ درآمد میں ہر گزرتے سال کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ آج کل درآمدی اخراجات 60بلین ڈالر سے تجاوز کر رہے ہیں۔ ہماری برآمدات 25بلین ڈالر سے کم ہیں۔ سوال صرف اتنا ہے کہ 35سے 40بلین ڈالر کا یہ فرق کیسے پورا کیا جائے۔ درآمدات کم کی جائیں یا برآمدات میں اضافہ ہو۔

اِس ضمن میں برآمدات کا جائزہ لیتے ہیں۔ قارئین کے لئے یہ سمجھنا ضروری ہے۔ مارکیٹ میں وہی چیز بکتی ہے جس کی قیمت کم اور معیار بہتر ہو۔ جن ملکوں نے اپنی برآمدات کو ترقی دی، اُنہوں نے اِنہیں دو باتوں پر توجہ مرکوز رکھی۔ پیداواری لاگت کم کرنے کے طریقے اپنائے اور برآمدی اشیاء کے معیار میں بہتری اور جدّت لانے کے لئے طرح طرح کے جتن کئے۔ دُوسری طرف ہماری پالیسیوں نے اِن دونوں امور پر کبھی توجہ نہیں دی۔ یہی وجہ ہے کہ درآمدات تو بڑھتی رہیں مگر برآمدات میں اضافہ نہ ہوا۔ جب بھی درآمد و برآمد کے درمیان، فرق بڑھنے سے، زرِمبادلہ کے ذخائر میں کمی آئی تو ہم نے برآمدات میں ’’مالی اعانت‘‘ کی ترغیب سے اضافہ کرنے کی کوشش کی۔

برآمدات کی پیداواری لاگت کم کرنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ چین سے کچھ سیکھنا چاہئے۔ اُس کی برآمدات پوری دُنیا پر چھا گئیں۔ راقم خود چین کے ’’صنعتی پارک‘‘ دیکھ چکا ہے، جہاں بہترین سہولتیں فراہم کرنے کے باوجود صنعت کار سے زمین کا معاوضہ نہیں لیا جاتا۔ جب کمائی ایک خاص حد سے تجاوز کر جائے تو زمین کا معاوضہ آسان قسطوں میں وصول ہوتا ہے۔ اِس کے برعکس، ہم زمین کی قیمت پہلے وصول کرتے ہیں اور کوئی سہولت بھی فراہم نہیں کرتے۔ بے چارہ صنعت کار لوڈشیڈنگ کے دوران اپنی بجلی پیدا کرتا ہے۔ پانی کے لئے ٹینکر منگواتا ہے اور حفاظت کے لئے سیکورٹی کمپنی کو بھی بھاری معاوضہ دینے پر مجبور ہے۔ ہمارا صنعت کار کسی چینی صنعت کار سے کیسے مقابلہ کرے۔ ہم نے کبھی اِس طرف توجہ نہیں دی۔ اِس میں سویلین اور فوجی حکومتیں دونوں شامل ہیں۔ نہ کوئی انڈسٹریل اسٹیٹ بنائی گئی جو صنعت کاروں کے لئے پانی، بجلی، گیس اور دیگر سہولتیں فراہم کرنے میں خودکفیل ہو اور نہ صنعتی اداروں کے آلودہ پانی کو ٹھکانے لگانے کے لئے کوئی بندوبست کیا گیا۔ ہُنرمند افرادی قوت کی دستیابی بھی ہمیشہ سے مشکلات کا شکار رہی۔ ٹیکنیکل یونیورسٹیاں اور ادارے قائم کرنا تو ایک طرف، حکومت نے کبھی صنعت کاروں سے یہ پوچھنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی کہ اُنہیں کس قسم کی صلاحیت کے حامل افراد درکار ہیں۔ اِس تساہل کی وجہ، مالی وسائل کی کمی اور ہماری ترجیحات میں خرابی رہی ہے۔ قومی پیداوار اور ٹیکس کے حوالے سے ہم دُنیا کے اُن ممالک میں شامل ہیں جو بہت کم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ جو تھوڑی بہت رقم حاصل ہوتی ہے، اُس میں دفاعی ضرورت اور قرضوں کی ادائیگی کے بعد جو بچتا ہے وہ نہ صرف امورِ سرکار کو رواں رکھنے کے لئے درکار ہے بلکہ سالانہ ترقیاتی پروگرام کا بندوبست بھی انہیں وسائل سے ممکن ہے۔ اِن حالات میں حکومت کی ترجیح اُن منصوبوں پر مرکوز رہتی ہے جن سے سیاسی فائدہ حاصل ہونے کی اُمید ہو۔ برآمدات کے فروغ کے لئے بہترین پالیسی بنا لیں۔ جب پالیسی پر عمل درآمد ہی ممکن نہ ہو تو اُسے بنانے کا کیا فائدہ۔

چند سال پہلے روشنی کی ایک کرن پھوٹی تھی۔ ’’سی پیک‘‘ منصوبے کے تحت، اقتصادی راہداری کے ساتھ اسپیشل اکنامک زون قائم کرنے کی نوید سُنی۔ خوش گمانی تھی کہ ہم چین کے تجربات سے استفادہ حاصل کریں گے۔ چین کی طرز پر ’’صنعتی پارک‘‘ قائم ہونے سے پیداواری لاگت میں کمی آئے گی۔ اُنہوں نے اپنی برآمدات کو ترقی دینے کے لئے جو طریقہ اپنایا ہمیں اُس کا عملی سبق ملے گا۔ کُل نو عدد ’’صنعتی پارک‘‘ قائم ہونے تھے جن میں دو کی ذمہ داری چین کے سپرد تھی۔ خیال تھا کہ چین کے بنائے ہوئے ’’صنعتی پارک‘‘ میں نہ صرف تمام سہولتیں فراہم ہوں گی بلکہ مخصوص صنعتوں کے لئے مشینری اور پُرزوں کی پیداوار، مرمت اور متعلقہ ہُنر کی ضرورت پوری کرنے کے لئے ٹیکنیکل ادارے اور یونیورسٹیاں بھی انڈسٹریل زون کے گردونواح میں قائم ہوں گی۔ مگر خدشہ ہے کہ ہم یہ موقع بھی ضائع کر دیں گے۔ حالیہ دنوں میں ’’سی پیک‘‘ منصوبے کے حوالے سے آنے والی خبریں حوصلہ افزا نہیں۔ ’’صنعتی پارک‘‘ کے لئے پرائیویٹ سیکٹر کی سرمایہ کاری مشکلات کا شکار دکھائی دے رہی ہے۔ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی حکومتیں نجی شعبے کو آسان شرائط پر قرضہ فراہم کرنے کے لئے تیار نہیں۔

پنجاب میں ’’فیصل آباد‘‘، سندھ میں ’’دھابے جی‘‘ اور خیبر پختونخوا میں ’’رشاکئی‘‘ کے مقامات پر ’’صنعتی پارک‘‘ بنائے جانے تھے، مگر گزشتہ چار سال میں خاطر خواہ کام نہیں ہوا۔ ’’سی پیک‘‘ کے حوالے سے، گزشتہ سال کے دوران ہماری تو جہ، سکھر سے ملتان اور تھاہ کوٹ سے حویلیاں تک بنائی جانے والی سڑکوں کی تعمیر پر مرکوز رہی۔ دُوسری طرف عالمی منڈی میں تیل کی قیمت بڑھنے سے ہماری انرجی درآمدات میں 24 فی صد اضافہ ہوا۔ ہماری درآمدات میں انرجی کا حصہ 20فی صد ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت کم ہونے کا امکان نہیں۔ آنے والی حکومت اُڑتے ہوئے ڈالر کے پر کیسے کاٹے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood