جب میں ایک ہم جنس پسند مرد (Gay) کی بیوی بنی


روبی سے میری پہلی ملاقات ایک افطار پارٹی میں ہوئی۔ جاذبِ نظر، چھوٹی چھوٹی باتوں پر معصوم بچوں کی طرح کھلکھلا کر ہنسنے والی، خوش مزاج، ملنسار اور صاف گو سی لڑکی۔ اسکی عمر 31 سال کی تھی۔ پاکستان سے میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ امریکہ میں فیلو شپ کررہی تھی۔ عمر کے تفاوت کے باوجود ہم دونوں کے بیچ یگانگت اور اعتماد کا پل قائم ہوچکا تھا لہٰذا پہلی ہی ملاقات میں اس نے اپنی ناکام شادی کی پرانی خبر کو کسی نئے اخبار کی سرخی کی طرح سنایا۔ ”میری ایک گے (Gay) شخص سے شادی ہوئی اور ایک سال میں طلاق ہوگئی تھی“ تاہم اس خبر کی تفصیل کو اس نے اگلی ملاقات تک کیلئے موخر کردیا تھا۔

میری اگلی ملاقات روبی سے تفصیلی تھی۔ اسکی پاکستان میں شادی اور پھر طلاق کے تکلیف دہ تجربے کے متعلق، اس نے مجھے بتایا کہ جب میں نے امریکہ کے ہائی اسکول میں اپنی تعلیم مکمل کرلی تو والدین کی خواہش تھی کہ میری بڑی بہن سیمی کی طرح میں بھی پاکستان سے میڈیکل کی تعلیم مکمل کرلوں۔ اس طرح وقت اور پیسہ دونوں ہی بچیں گے۔ میڈیسن کرنے کا شوق میرا بھی تھا مگر میرے لئے اپنے سے بھی زیادہ والدین کی خواہش مدنظر تھی۔ ہمارے گھر کا ماحول کچھ ایسا ہی ہے، ایک دوسرے کی خواہشات کو ترجیح اور قربانی دینے کا، ہم بچپن میں یہاں یو ایس اے آگئے تھے لیکن والد کا بڑا بزنس پاکستان میں بھی تھا جس کے باعث ہمیں پیسے کی کمی نہ یہاں تھی اور نہ وہاں۔ پاکستانی میڈیکل کالج سے تعلیم ختم ہونے کے بعد میں امریکہ آگئی جہاں دھوم دھام سے بھائی کی شادی میں شرکت کی۔ جلد ہی پتہ چلا کہ میرے لئے محسن نامی ایک امیگرنٹ لڑکے کا رشتہ آیا ہے۔ اس کے گھر والوں نے پاکستان میں مجھے کسی تقریب میں دیکھا تھا۔

اسکے والدین ہمارے دور دراز کے رشتہ دار ہوتے ہیں۔ جب میں محسن سے ملی تو نجانے کیوں وہ مجھے کچھ عجیب سا لگا۔ اس نے میری جانب آنکھ بھر کے بھی نہیں دیکھا۔ اس کے انداز میں کوئی والہانہ پن بھی نہیں تھا۔ زیادہ تر آنکھیں جھکی رہیں، گفتگو بھی مختصر سی، سوالوں کا جواب دیا اور بس، میں اتنی سوشل اور بات بات پر ہنسنے والی، ادھر وہ کچھ اکھڑا اکھڑا بیزار سا، جیسے وہ ہاتھ پکڑنے نہیں ہاتھ چھڑانے آیا ہو، مجھے سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ بات کیا کی جائے، اس کے مزاج کا کوئی سرا پکڑنے میں نہیں آرہا تھا، پسند ناپسند کا پتہ کرنا تو دور کی بات تھی۔ میں نے والدین سے صاف کہہ دیا ”میں بہت کنفیوز ہوں“ مگر میرے گھر والوں کی نظر وہ معقول لڑکا تھا۔ اسکی نوکری اچھی تھی، وہ محنتی تھا جبھی تو نوکری ملنے اور امیگریشن کے تین چار سال بعد ہی ایک گھر بھی لے لیا تھا۔ پھر الکوحل اور سگریٹ کے نشے سے دور، ہم مذہب ہی نہیں ہم فرقہ بھی، مستقبل کے گولز اور منصوبوں پر کام کرنے والا، بھلا اور کیا چاہئے تھا، یہی خوبیاں تو خوشیوں کی ضمانت دیتی ہیں۔ میرے بھائی اور بہن کو بھی وہ مناسب لگا، گو وہ مجھے کسی طور سمجھ میں نہیں آیا مگر یہ بات ضرور سمجھ میں آگئی کہ وہ گھر والوں کو ٹھیک ٹھاک لگا ہے۔ جہاں تک خوداعتمادی کی کمی اور کم گوئی کا تعلق تھا، گھر والوں کا خیال تھا کہ شادی کے بعد وہ سب کمی بھی پوری ہوجائے گی۔ اکثر ہی بہت سی خامیوں کو یہ سمجھ کر نظرانداز کردیا جاتا ہے کہ شادی کا جادو ٹھیک کردے گا۔

شادی پاکستان میں ہونا طے پائی، ہمارا ایک گھر پاکستان میں بھی ہے جہاں ہم جب بھی جاتے ہیں تو قیام کرتے ہیں۔ جب میں شادی کی غرض سے پاکستان جانے لگی تو پہلے بڑی بہن کے گھر، جو امریکہ کی کسی اور اسٹیٹ میں رہتی ہیں، جانا ہوا۔ کچھ دنوں کا ہی ساتھ تھا مگر میں نے اس سے بھی کہا میں شادی کرنے کے بجائے اس بات کو توڑنا چاہتی ہوں۔ اس نے مجھے تسلی دی کہ فکر نہ کرو لڑکا اچھا ہے۔ اس طرح میرے گھر والوں کو پتہ تھا کہ میں ناخوش ہوں، رو دھو رہی ہوں مگر اس وقت تک پاکستان میں ہال بک ہوچکے تھے، سب کا رویہ دیکھ کر میں نے اپنے آپ کو سمجھایا کہ شاید اس شادی میں ہی میری بہتری ہو۔ جب ہم پاکستان پہنچے تو کچھ لوگوں نے جو ہمارے مشترکہ رشتہ دار تھے، محسن کے گھر والوں کے متعلق دبے الفاظ میں بتایا کہ کچھ عجیب سا رویہ ہے، ہر بات کو مخفی رکھتے ہیں۔ پھر ساتھ ہی مشورہ بھی ملا کہ جتنی دوری رکھو تو اتنا ہی اچھا ہے اور پھر ان کا خیال تھا کہ مجھے ان کے ساتھ رہنا ہی کتنا ہے؟ یہ باتیں شادی کے بالکل قریب بتائی گئیں لہٰذا تسلی دی گئی کہ اگر لڑکا اچھا ہے تو والدین کا رویہ برداشت کیا جاسکتا ہے۔

ہر نوجوان پُرامنگ لڑکی کی طرح شادی کے وقت میں نروس تو تھی مگر کچھ ایکسائیٹڈ بھی تھی۔ میں نکاح کے وقت سرخ جوڑے میں ملبوس تھی، امی اور بہن میرے اطراف میں، ایسے میں مولانا صاحب نے جب نکاح پڑھتے ہوئے مہر کی رقم 14 ہزار روپے کہی تو میں نے ”قبول ہے“ تو کہا مگر اندر سے کچھ کانپ سی گئی۔ پیسہ مسئلہ نہیں، لیکن یہ رقم محسن کی امریکہ کی آمدنی کے حساب سے کچھ بھی نہ تھی، میں نے سوچا کہ کیا واقعی ابو اس پر راضی ہوگئے؟ شادی اور ولیمے کی تاریخیں آگے پیچھے تھیں۔

شادی کے دو دنوں بعد ہی ہم ہنی مون پر بنکاک نکل گئے۔ ان شروع کے دو دنوں میں انہوں نے مجھے چھوا بھی نہیں، بس تھوڑی بہت باتیں کیں اور بس، انکے جنسی فعل سے گریز کا ذکر میں نے اپنی بہن سے کیا مگر اس نے یہ کہہ کر مطمئن کردیا کہ تھکن اور انگزائیٹی ہوگی، کچھ وقت دو، میری بہن بھی میڈیکل ڈاکٹر ہے۔ پھر بنکاک میں ہنی مون کے دوران انہوں نے مجھے میکانکی انداز میں کبھی کبھار پیار تو کیا لیکن کسی قسم کا تعلق نہیں قائم کیا۔

دن بھر گھوم پھر کے جب تھک کر واپس آتے تو میں انہیں اپنے بچپن کے واقعات سناتی تاکہ ہمارے درمیان دوستی کا رشتہ مضبوط ہو، پھر وہ بھی اپنے بچپن کی کہانیاں سناتے، ان کا بچپن میرے بچپن سے بہت ہی مختلف تھا۔ محسن نے بتایا کہ اس کے والدین بہت سخت مزاج اور مذہبی تھے۔ اگر وہ وقت پر نماز نہ پڑھتا تو ڈنڈے سے پٹائی ہوتی۔ بہنوں کو میٹرک کے بعد بیاہ دیا گیا، لیکن اس کی تعلیم پر بہت زور تھا۔ انکی تمام تر سختیوں کے باوجود وہ اپنے والدین کی بہت عزت کرتا تھا کہ کس طرح پاکستان کے کسی چھوٹے سے شہر سے نکال کر انہوں نے اسے پٹارو جیسے مشہور کالج میں پہنچایا۔ محسن نے وہاں پوزیشن حاصل کی اور پھر اسے باہر نکلنے کا موقع ملا۔

اس گفتگو کے دوران مجھے خیال آیا کہ محسن میرے سامنے تو نارمل انداز میں گفتگو کرتا ہے لیکن والدین کے سامنے بات کرتے ہوئے ہکلاہٹ بالکل واضح ہوتی تھی۔ کبھی لمبی گفتگو کرتے ہوئے مجھے شہرزاد کا خیال آتا جو کہانی سنانے پر مامور کردی گئی ہو۔ بنکاک کی زندگی اور رنگینیوں سے بھرپور دلفریب راتوں میں میرے وجود میں ایک آگ سی لگی ہوئی ہوتی، جب تک آنکھ نہ لگتی میں اپنے بچپن کی خوشگوار باتیں سناتی رہتی اور پھر اصرار کرتی تم بھی کچھ سناﺅ اور وہ اپنے تکلیف دہ اور بورنگ قصے سناتا۔ مجھے لگتا جیسے بھری برسات میں گھر جل رہا ہو اور پھر تھک ہار کر میں آنکھیں موند لیتی، سو جاتی، اس طرح ہنی مون کے بعد ہم واپس امریکہ پہنچے۔ میں نے امی کو صورتحال بتائی اور کہا ”پلیز ابو کو نہ بنائیں“ لیکن انہوں نے سب سے پہلے ابو کو ہی بتایا، جس پر ابو نے مجھے اور محسن کو ڈاکٹر سے اپوائنمنٹ لینے کا مشورہ دیا۔

پھر محسن نے نوکری شروع کردی اور میں نے گھر کو سنوارنا اور کھانا پکانا شروع کردیا، ساتھ ہی میڈیکل کیلئے Steps امتحانات کی تیاری بھی شروع کردی۔ اس دوران جو بات مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ امریکہ آکر ہماری شادی کیوں نہیں رجسٹر کررہے؟ میری اس بات پر اس سے لڑائی بھی ہوئی، جس پر اس نے کہا ”ضرورت کیا ہے، پاکستان میں تو رجسٹر ہوئی ہے، پورے خاندان کے سامنے“ پھر میں نے اور باتیں بھی نوٹ کرنی شروع کیں، مثلاً یہ کہ وہ میرا اکاﺅنٹ نہیں کھلوا رہا تھا، اپنے کسی قسم کے فنانس سے متعلق نہیں بتاتا، ہمارے گھر میں کسی قسم کی میل نہیں آتی، حالانکہ امریکہ ”Junk Mail“ کا ملک ہے، ضرورت کے وقت بجائے کریڈٹ کارڈ کے کیش ملتا، نہ ہی کریڈٹ کارڈ نمبر اور نہ ہی سیل فون کا پاس ورڈ، ہر بات خفیہ تھی، حتیٰ کہ مجھے اس کی تاریخ پیدائش بھی پتہ نہ تھی، گو میں شکی نہیں مگر یہ ساری باتیں مجھے شک میں مبتلا کررہی تھیں۔ پھر ہماری نئی شادی تھی لیکن نہ ہی وہ پھول لاتا اور نہ ہی زیادہ بات کرتا۔ جنسی تعلق تو تھا ہی نہیں، آدھی رات کو اٹھ اٹھ کر روتی.

 محسن سے نفرت محسوس ہوتی، دل میں گالیاں اور کبھی کوسنے بھی دیتی مگر یہ گالیاں اور کوسنے منہ پر نہ لاتی۔ ہمارے درمیان کبھی لڑائی میں بھی بدتمیزی کی حدیں پار نہیں ہوئیں۔ پھر میں نے محسوس کیا کہ محسن ڈبل زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ اگر کبھی وہ بیسمنٹ کے کمپیوٹر پر کام کررہا ہوتا اور میں آتی تو یہ جلدی سے لاگ آف (Log Off) کردیتا۔ مجھے اکثر مشورہ ملتا کہ Steps کی تیاری امی کے گھر جا کر کرلیا کرو۔ میرا شک اسکی ہم جنس پسندی کے متعلق یقین میں اس وقت بدلنے لگا جب میں نے کہا کہ ڈاکٹر کے پاس چلو تو چڑ کر کہا ”تم اسی چیز (Sex) میں ہی اتنی فوکس کیوں ہو، کیا شادی کی بنیاد صرف یہی ہے؟“ پھر اس نے کہا کہ ”اگر میں گیا بھی تو صرف اپنے فیملی ڈاکٹر کے پاس جاﺅں گا، ادھر نہیں جدھر تم نے ارینج کیا ہے“۔ علاج کے ایک ماہ بعد میں نے اس سے براہ راست پوچھا ”کیا تم Gay ہو؟“ اس نے صاف انکار کردیا، میں چپ ہوگئی۔

اس کے بعد ایک دن میں اسکی کلوزٹ کی صفائی کررہی تھی تو اسکا ہینڈ کیری دیکھا۔ گو مقصد جاسوسی نہیں تھا مگر میں اسکے متعلق جاننا چاہتی تھی۔ آج مجھے اس کی دستاویز کھولنے کا موقع مل گیا تھا جن میں مجھے ایک کالے رنگ کی ڈائری ملی۔ ڈائری کی عبارت اُردو میں تھی، شاعری اور نثر سے بھری خوبصورت لکھائی میں، میں نے پاکستان میں رہتے ہوئے خاصی اُردو سیکھ لی تھی، شاعری البتہ مجھے سمجھ نہیں آتی تھی۔ پہلا کام تو میں نے یہ کیا کہ اس ڈائری کو بیک ٹو بیک فوٹو کاپی کروایا اور پھر پڑھنا شروع کیا، مجھے پتہ چلا کہ اس کے 2002ء سے 2014ء تک یعنی امریکہ آنے سے پہلے تک مردوں سے تعلقات تھے۔ اپنی ڈائری میں اس نے ہم جنسیت کو قابل نفرت سمجھتے ہوئے اسے روحانی بیماری قرار دیا، میں پڑھتی گئی اور ٹوٹتی گئی، مگر پھر ایک اطمینان بھی ہوا کہ میں نے سراغ پا لیا۔ اس دن جب وہ نوکری سے لوٹا تو میں نے ڈائری سامنے کردیا اور بتایا کہ ”میں نے سب پڑھ لیا ہے“ یہ سنتے ہی وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ میرے پاﺅں پڑ گیا اور کہنے لگا ”مجھے معاف کردو….“ مجھے ترس آنے لگا، یہ وہ شخص تھا جس نے میٹرک اور انٹر میں پوزیشن لی تھی، جسے شاعری کا شوق تھا، جو والدین کے سامنے ہکلانے لگتا تھا، اس وقت میرے سامنے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے معافیاں مانگ رہا تھا۔ میں بھی رو پڑی ”تم نے مجھ سے شادی کیوں کی تھی، میری زندگی کیوں خراب کی؟“ محسن نے کہا ”مجھے والدین اور سارے خاندان والوں کے سامنے ہمت نہیں ہوئی۔ شادی کیلئے بہت منع کیا مگر وہ نہیں مانے“۔ روتے ہوئے محسن نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ ”میں اپنا علاج کرواﺅں گا، مجھے موقع دو“ مگر میں بطور ڈاکٹر سمجھتی ہوں کہ ہم جنسیت ان کا قدرتی میلان (Orientation) ہے، جو بظاہر ہمیں نہ بھی نظر آئے مگر ہمیں ہم جنس پسند افراد کی ”بیماری“ کا علاج تلاش کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ بیماری نہیں۔ کاش ہمارا سماج انہیں اپنے حقیقی میلان کے اظہار کی اجازت دے تاکہ ہم جیسی لڑکیاں ایسی سزاﺅں سے بچ جائیں۔ مجھے ان جیسوں سے نفرت کی بجائے ہمدردی محسوس ہوتی ہے۔ میں نے اسے تہ دل سے معاف کردیا۔

(یہ ایک حقیقی واقعہ ہے۔ کرداروں کی خلوت محفوظ رکھنے کے لئے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ مصنفہ گوہر تاج امریکا (مشی گن) میں پیشہ ورانہ طور پر نفسیاتی تھیراپی کے شعبے سے وابستہ ہیں۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).